داغ ہمت کا ہارنا نہ مصیبت میں چاہیئے - داغ دہلوی

کاشفی

محفلین
غزل
ہمت کا ہارنا نہ مصیبت میں چاہیئے
تھوڑا سا حوصلہ بھی طبیعت میں چاہیئے
دل دو طرح کا تیری محبت میں چاہیئے
راحت میں ایک ، ایک مصیبت میں چاہیئے
آجائے راہ راست پہ کافر ترا مزاج
اک بندہء خدا تری خدمت میں چاہیئے
اپنا بھی کام نکلے وہ ناراض بھی نہ ہوں
ایسے مزے کی بات شکایت میں چاہیئے
حاتم کا دل ہو دولتِ قاروں ہو عمرخضر
اے داغ یہ کسی کی محبت میں چاہیئے
 

عرفان سرور

محفلین
پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے
اجل مر ری تو کہاں آتے آتے

نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے

سنانے کے قابل جو تھی بات ان کو
وہی رہ گئی درمیاں آتے آتے

مرے آشیاں کے تو تھے چار تنکے
چمن اُڑ گیا آندھیاں آتے آتے

نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
 

عرفان سرور

محفلین

نہ روا کہیے، نہ سزا کہیے
کہیے کہیے مجھے بُرا کہیے

پھر نہ رُکیے جو مدعا کہیے
ایک کے بعد دوسرا کہیے

تجھ کو اچھا کہا ہے کس کس نے؟
کہنے والوں کو خیر کیا کہیے

وہ بھی سُن لیں گے یہ کبھی نہ کبھی
حالِ دل سب سے جا بجا کہیے

انتہا عشق کی خُدا جانے
دمِ آخر کو ابتدا کہیے

صبر فرقت میں آ ہی جاتا ہے
پر اُسے دیر آشنا کہیے

آ گئی آپ کو مسیحائی
مرنے والوں کو مرحبا کہیے

داغ
 

عرفان سرور

محفلین
وہ دل لے کے چپکے سے چلتے ہوئے
یہاں رہ گئے ہاتھ ملتے ہوئے

الٰہی وہ نکلے تو ہیں سیر کو
چلے آئیں مجھ تک ٹہلتے ہوئے

نہ اِترائیے دیر لگتی ہے کیا
زمانے کو کروٹ بدلتے ہوئے

مرے جذبِ دل پر نہ الزام آئے
وہ آتے ہیں آنکھیں بدلتے ہوئے

داغ
 

عرفان سرور

محفلین

سبب کھلا یہ ہمیں ان کے منہ چھپانے کا
اڑا نہ لے کوئی انداز مسکرانے کا

طریقِ خوب ہے یہ عمر کے بڑھانے کا
کہ منتظر رہوں تا حشر اس کے آنے کا

چڑھاؤ پھول مری قبر پر جو آئے ہو
کہ اب زمانہ گیا تیوری چڑھانے کا

وہ عذرِ جرم کو بدتر گناہ سے سمجھے
کوئی محل نہ رہا اب قسم کھانے کا

بہ تنگ آ کے جو کی میں نے ترک رسمِ وفا
ہر اک سے کہتے ہیں یہ حال ہے زمانے کا

جفائیں کرتے ہیں تھم تھم کے اس خیال سے وہ
گیا تو پھر نہیں یہ میرے ہاتھ آنے کا

نہ سوچے ہم کہ تہِ تیغ ہو گی خلق اللہ
گھٹا نہ حوصلہ قاتل کے دل بڑھانے کا

اثر ہے اب کے مئے تند میں وہ اے زاہد
کہ نقشہ تک بھی نہ اترے شراب خانے کا

سمائیں اپنی نگاہوں میں ایسے ویسے کیا
رقیب ہی سہی، ہو آدمی ٹھکانے کا

لگی ہے چاٹ مجھے تلخئِ محبت کی
علاج زہر سے مشکل ہے زہر کھانے کا

تمہیں رقیب نے بھیجا کھلا ہوا پرچہ
نہ تھا نصیب لفافہ بھی آدھ آنے کا

لگی ٹھکانے سے بلبل کی خانہ بربادی
چراغِ گل میں بھی تنکا ہے آشیانے کا

خطا معاف، تم اے داغ اور خواہشِ وصل
قصور ہے یہ فقط ان کے منہ لگانے

داغ دہلوی
 

عرفان سرور

محفلین
لطف وہ عشق میں پائے ہیں‌ کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں‌ کہ جی جانتا ہے

جو زمانے کے ستم ہیں‌ وہ زمانہ جانے
تو نے دل، اتنے ستائے ہیں کہ جی جانتا ہے

مسکراتے ہوئے وہ مجمع اغیار کے ساتھ
آج یوں وہ بزم میں آئے ہیں کہ جی جانتا ہے

سادگی ، بانکپن، اغماض، شرارت، شوخی
تو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے

کعبہ و دیر میں پتھرا گئیں ہیں دونوں آنکھیں
اس قدر اپنے پرائے ہیں‌ کہ جی جانتا ہے

داغ وارفتہ کو ہم آج تیرے کوچے سے
اس طرف کھینچ لائے ہیں کہ جی جانتا ہے
 
Top