ہمارے شہر میں عمران چھڑ گئی ہے جنگ : غزل برائے اصلاح

سر الف عین عظیم شاہد شاہنواز بھائی اصلاح فرمائیں۔۔۔

مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن

" ہمارے شہر میں عمران چھڑ گئی ہے جنگ "
"تو کیا کروں مری تلوار کو لگا ہے زنگ "

سیہ سفید سمجھنے کے ہو گیا قابل
مگر نہ دیکھ سکا اور میں زندگی کے رنگ

کسی کے ہاتھ میں ہے ڈور میری سانسوں کی
اڑا رہا ہے وہی میری زندگی کی پتنگ

ہر ایک اشک جو ٹھہرا رہا ان آنکھوں میں
تو دل میں پھیل گئے سات روشنی کے رنگ

ترا قصور نہیں ، پتھروں پہ چل چل کر
تو میرا ساتھ نبھانے سے آ چکا ہے تنگ

یہ کتنا خوف زدہ کر دیا ہے بچوں کو
مری غریبی نے جینے کی چھین لی ہے امنگ

سیہ سفید سی لگنے لگی مجھے دنیا
جو بھر دیئے میں نے خوابوں میں زندگی کے رنگ

تمہارے بعد تو میں قید ہو گیا خود میں
نکلنے کو جو بنانی پڑی ہے دل میں سرنگ

شکریہ
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
" ہمارے شہر میں عمران چھڑ گئی ہے جنگ "
"تو کیا کروں مری تلوار کو لگا ہے زنگ "
... آخری فعلن/فعلان کے طور پر 'ہے جنگ' اور 'ہے زنگ' میں 'ہے' کا مکمل تقطیع ہونا روانی کو مخدوش کرتا ہے، کم از کم دوسرے مصرعے میں بدل دینا چاہیے. 'ہے لگ چکا زنگ' مثال کے لیے

سیہ سفید سمجھنے کے ہو گیا قابل
مگر نہ دیکھ سکا اور میں زندگی کے رنگ
... وہی 'کے رنگ' میں اوپر والی بات۔
مگر نہ دیکھ سکا زندگی کے دوسرے رنگ/اور بھی رنگ
پہلے مصرع میں بھی 'ہوں' کی کمی محسوس ہوتی ہے
سیہ سفید سمجھنے کا اہل ہو گیا ہوں

کسی کے ہاتھ میں ہے ڈور میری سانسوں کی
اڑا رہا ہے وہی میری زندگی کی پتنگ
.. درست

ہر ایک اشک جو ٹھہرا رہا ان آنکھوں میں
تو دل میں پھیل گئے سات روشنی کے رنگ
.. کے رنگ میں وہی بات ہے
.... روشنی کے ساتوں رنگ
بہتر ہو گا

ترا قصور نہیں ، پتھروں پہ چل چل کر
تو میرا ساتھ نبھانے سے آ گیا ہے تنگ
... آگیا ہے جو تنگ
بہتر ہو گا

یہ کتنا خوف زدہ کر دیا ہے بچوں کو
مری غریبی نے جینے کی چھین لی ہے امنگ
... درست، یہاں ہے امنگ میں 'ہے' کی ے کا گرنا کیا خوب لگتا ہے!

سیہ سفید سی لگنے لگی مجھے دنیا
جو بھر دیئے میں نے خوابوں میں زندگی کے رنگ
... 'میں نے' کا 'منے' تقطیع ہونا اور وہی 'کے رنگ!
جو میں نے بھر دیے خوابوں میں بھی حیات کے رنگ
کر دو

تمہارے بعد تو میں قید ہو گیا خود میں
نکلنے کو جو بنانی پڑی ہے دل میں سرنگ
.. درست
 
ہماری صلاح

" ہمارے شہر میں عمران چھڑ گئی ہے جنگ "
"تو کیا کروں مری تلوار کو لگا ہے زنگ "

اس شعر کو واوین میں پیش کرنے سے مراد ہے کہ یہ شعر آپ کا نہیں، درست؟

سیہ سفید سمجھنے کے ہو گیا قابل
مگر نہ دیکھ سکا اور میں زندگی کے رنگ

اور "اَر" تقطیع ہو رہا ہے۔

ہر ایک اشک جو ٹھہرا رہا ان آنکھوں میں
تو دل میں پھیل گئے سات روشنی کے رنگ

نظر میں پھیل گئے کردیجیے

ترا قصور نہیں ، پتھروں پہ چل چل کر
تو میرا ساتھ نبھانے سے آ چکا ہے تنگ

یہ کتنا خوف زدہ کر دیا ہے بچوں کو
مری غریبی نے جینے کی چھین لی ہے امنگ

سیہ سفید سی لگنے لگی مجھے دنیا
جو بھر دیئے میں نے خوابوں میں زندگی کے رنگ
 
مراسلہ لکھتے ہوئے اطلاع مل گئی تھی کہ اس دھاگے میں مزید مراسلے پوسٹ ہوچکے ہیں۔ گمان غالب تھا کہ استاد محترم ہی ہوں گے، لہٰذا اپنے مراسلے کو ادھورا پوسٹ کیا۔

استادِ محترم کی رائے آجانے کے بعد ہمارے مراسلے کو یکسر نظر انداز کر دیجیے۔
 

فاخر رضا

محفلین
ہمارے شہر میں عمران چھڑ گئی ہے، جنگ
ہمارے شہر میں عمران، چھڑ گئی ہے جنگ

یہ بھی بتائیے کہ کیا جنگ کسی خاتون کا نام ہے جو چھڑ گئی ہے یا عمران کوئی خاتون ہے
 
مراسلہ لکھتے ہوئے اطلاع مل گئی تھی کہ اس دھاگے میں مزید مراسلے پوسٹ ہوچکے ہیں۔ گمان غالب تھا کہ استاد محترم ہی ہوں گے، لہٰذا اپنے مراسلے کو ادھورا پوسٹ کیا۔

استادِ محترم کی رائے آجانے کے بعد ہمارے مراسلے کو یکسر نظر انداز کر دیجیے۔
سر آپ رائے دے دیا کیجئے ۔۔۔ ہو سکتا ہے آپکے ہاتھ کوئی اور اچھا آئیڈیا لگ جائے یا کوئی مخفی غلطی ۔۔۔
 
ہماری صلاح



اس شعر کو واوین میں پیش کرنے سے مراد ہے کہ یہ شعر آپ کا نہیں، درست؟



اور "اَر" تقطیع ہو رہا ہے۔



نظر میں پھیل گئے کردیجیے
واوین سے مراد مکالمہ ۔۔۔ واوین طرحی مصرعے کو گرہ لگانے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔۔۔

نظر ، اچھا متبادل ہے
بہت شکریہ سر
 
" ہمارے شہر میں عمران چھڑ گئی ہے جنگ "
"تو کیا کروں مری تلوار کو لگا ہے زنگ "
... آخری فعلن/فعلان کے طور پر 'ہے جنگ' اور 'ہے زنگ' میں 'ہے' کا مکمل تقطیع ہونا روانی کو مخدوش کرتا ہے، کم از کم دوسرے مصرعے میں بدل دینا چاہیے. 'ہے لگ چکا زنگ' مثال کے لیے

سیہ سفید سمجھنے کے ہو گیا قابل
مگر نہ دیکھ سکا اور میں زندگی کے رنگ
... وہی 'کے رنگ' میں اوپر والی بات۔
مگر نہ دیکھ سکا زندگی کے دوسرے رنگ/اور بھی رنگ
پہلے مصرع میں بھی 'ہوں' کی کمی محسوس ہوتی ہے
سیہ سفید سمجھنے کا اہل ہو گیا ہوں

کسی کے ہاتھ میں ہے ڈور میری سانسوں کی
اڑا رہا ہے وہی میری زندگی کی پتنگ
.. درست

ہر ایک اشک جو ٹھہرا رہا ان آنکھوں میں
تو دل میں پھیل گئے سات روشنی کے رنگ
.. کے رنگ میں وہی بات ہے
.... روشنی کے ساتوں رنگ
بہتر ہو گا

ترا قصور نہیں ، پتھروں پہ چل چل کر
تو میرا ساتھ نبھانے سے آ گیا ہے تنگ
... آگیا ہے جو تنگ
بہتر ہو گا

یہ کتنا خوف زدہ کر دیا ہے بچوں کو
مری غریبی نے جینے کی چھین لی ہے امنگ
... درست، یہاں ہے امنگ میں 'ہے' کی ے کا گرنا کیا خوب لگتا ہے!

سیہ سفید سی لگنے لگی مجھے دنیا
جو بھر دیئے میں نے خوابوں میں زندگی کے رنگ
... 'میں نے' کا 'منے' تقطیع ہونا اور وہی 'کے رنگ!
جو میں نے بھر دیے خوابوں میں بھی حیات کے رنگ
کر دو

تمہارے بعد تو میں قید ہو گیا خود میں
نکلنے کو جو بنانی پڑی ہے دل میں سرنگ
.. درست
زبردست ہو گیا سر۔۔۔ ترمیم کر کے دوبارہ پوسٹ کرتا ہوں۔۔۔
شکریہ
 
ہمارے شہر میں عمران چھڑ گئی ہے، جنگ
ہمارے شہر میں عمران، چھڑ گئی ہے جنگ

یہ بھی بتائیے کہ کیا جنگ کسی خاتون کا نام ہے جو چھڑ گئی ہے یا عمران کوئی خاتون ہے
ہاہاہاہا۔۔۔ بہت اچھا مذاق ہے۔۔۔ ہمارے ملک میں آپکو پتا ہے ہر کوئی چھڑا چھڑا رہتا ہے۔۔۔ پچھلے دنوں مولانا صاحب
 
بہت شکریہ سر الف عین

" ہمارے شہر میں عمران چھڑ گئی ہے جنگ "
"تو کیا کروں مری تلوار کو ہے لگ چکا زنگ "

سیہ سفید سمجھنے کا اہل ہو گیا ہوں
مگر نہ دیکھ سکا زندگی کے دوسرے رنگ

کسی کے ہاتھ میں ہے ڈور میری سانسوں کی
اڑا رہا ہے وہی میری زندگی کی پتنگ

ہر ایک اشک جو ٹھہرا رہا ان آنکھوں میں
تو دل میں پھیل گئے روشنی کے ساتوں رنگ

ترا قصور نہیں ، پتھروں پہ چل چل کر
تو میرا ساتھ نبھانے سے آ چکا ہے جو تنگ

یہ کتنا خوف زدہ کر دیا ہے بچوں کو
مری غریبی نے جینے کی چھین لی ہے امنگ

سیہ سفید سی لگنے لگی مجھے دنیا
جو میں نے بھر دیے خوابوں میں بھی حیات کے رنگ

تمہارے بعد تو میں قید ہو گیا خود میں
نکلنے کو جو بنانی پڑی ہے دل میں سرنگ
 
سر الف عین
مطلع کو کچھ دوستوں کے اصرار پر مزید بہتر کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔ پہلا مصرعہ آپکے مشورے مطابق ہے۔

ہمارے شہر میں جس وقت چھیڑ دی گئی جنگ
میان میں پڑی تلوار کو لگا تھا زنگ
یا
میان میں پڑے خنجر کو لگ چکا تھا زنگ

یا

ہمارے شہر میں اس وقت چھیڑ دی گئی جنگ
میان میں پڑے خنجر کو جب لگا تھا زنگ

یا

جو میرے شہر میں عمران چھیڑ دی گئی جنگ
تو کیا ہو گا مری تلوار کو لگا ہے زنگ
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مقطع تو درست ہو گیا
مطلع... میان میں تلوار رہتی ہے، خنجر نہیں، اس کے علاوہ جنگ شہروں میں بھی نہیں ہوتی، یوں کہو تو!
مرے نواح میں جو آج چھڑ گئی ہے یہ جنگ
مگر میان میں تلوار میری کھا چکی زنگ
 
Top