ہمارے اساتذۂ کرام اور اُوولالا۔۔۔۔۔جمیل خان

oolala-670.jpg

اُوولالا نے کالج میں ایک نیا رنگ بکھیر دیا تھا۔ قبر میں پیر لٹکائے بلکہ سر کے بل لٹکے کالج کے پرنسپل کے دل میں بھی جذباتِ جوانی نے انگڑائی لی اور انہوں نے سفر آخرت کا ارادہ ترک کرکے اپنی دنیا کو سنوارنے کا فیصلہ کرلیا۔ —. اللسٹریش: جمیل خان

دس سال تحصیل علم کے بعد ہمارے والدین نے ہمیں زادِ راہ دے کر بیرون شہر حصول علم کے لیے روانہ کرنا چاہا لیکن ہم ماضی کی اس روایت ہرگز کے قائل نہ تھے کہ جب تک شہر شہر کی خاک نہ چھانی جائے علم میں بندہ کامل نہیں ہوسکتا، کہ علم کے حصول کے لیے علم کا حاصل کرنا لازم ہے، خاک چھاننا نہیں۔ چنانچہ جب والدین نے ہماری ضد کے سامنے ہتھیار وغیرہ ڈال دیے تو ہمیں ایک ایسے مادرعلمی میں زبردستی داخل کردیا گیا جس کے ساتھ ناصرف حقیقی معنوں میں قبرستان موجود تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مجازی طور پر نوجوانوں میں اس کالج کو ایسے قبرستان کا ہی درجہ حاصل تھا، جہاں جن، بھوت وغیرہ تو کثرت سے تھے لیکن چڑیلیں بھی نہیں پائی جاتی تھیں۔ دراصل یہ کالج ناصرف شہر سے کچھ فاصلے پر واقع تھا بلکہ وجود ’’زن‘‘ سے یکسر دور دور تھا۔ اسی لیے اس کو عرف عام میں قبرستان کہا جاتا تھا۔
علامہ کا یہ ایک واحد نظریہ جس پر ہم اور ہمارے تمام ہم مکتب قائل چلے آرہے ہیں، وہ یہ ہے کہ :
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
کائنات کے رنگوں سے تو اس وقت ہمیں اتنا سروکار نہ تھا البتہ اپنا کالج واقعی زندگی کے رنگوں سے خالی ایک قبرستان محسوس ہوا۔
جن اساتذہ کرام کے سامنے ہم نے زانوئے تلمیذ تہہ کیا وہ جن تو ہرگز نہیں تھے لیکن ان کو دیکھ کر ایسے ٹنڈ منڈ درختوں کا خیال آتا تھا، جن کے متعلق اکثر کمزور دل کی خواتین کو یقین ہوتا ہے کہ اس پر یقیناً کسی جن نے بسیرا کر رکھا ہے، یا پھر کسی آسیب کا سایہ ہے۔
اپنے اساتذہ کرام کا جائزہ لیا تو یوں لگا کہ جیسے ان کے مرشد نے انہیں کالج یا متصل قبرستان میں کوئی چلّہ کاٹنے کے لیے بھیجا ہے۔ سب ہی کے چہرے پر وحشت کی پرچھائیاں رقص کرتی محسوس ہوتی تھیں۔ اساتذہ کی اکثریت کو کالج کے ساتھ ہی رہائش کی سہولت بھی میسر تھی، اس لیے وہ اکثر گھر سے نکل کر کالج یوں چلے آتے جیسے ان کی زوجہ محترمہ نے تیل لینے کے لیے بھیجا ہو۔ یعنی گھرمیں دھوتی بنیان میں بیٹھے تھے کہ اچانک الارم بجا تو بنیان پر قمیض اور دھوتی کے نیچے سے پتلون چڑھائی اور لگادی دوڑ کالج کی جانب۔
عہد ضیائی یعنی خودساختہ امیرالمؤمنین کے دور مطلق العنانیت میں تمام تعلیمی اداروں میں طلبا کا یونیفارم شلوار قمیض ہوگیا تھا، شاید یہ واحد کالج تھا جہاں عہد ضیائی کے انوار و تجلیات کا تصرف قائم نہیں ہوسکا تھا، یہی وجہ ہے کہ شلوار قمیض کے بجائے یونیفارم کوڈ پینٹ شرٹ پر ہی قائم تھا۔ لیکن اساتذہ کے لیے یونیفارم نہیں ہوتا بلکہ نہ یونی ہوتا ہے نہ ہی فارم ہوتا ہے، اس لیے زیادہ تر اساتذہ کرام حضرت امیرالمؤمنین کے دست ناحق پرست پر غائبانہ بیعت کرچکے تھے اور شلوار قمیض ہی زیب تن کیا کرتے تھے، آج کی طرح نہیں کہ صرف جمعہ شریف کو ہی پورے شہر کے لوگ شلوار قمیض پہنتے ہیں۔
ہم چونکہ رہبانیت کے قائل نہ تھے اور زندگی کی خوبصورتی کو کچھ زیادہ قریب سے دیکھنا چاہتے تھے اس لیے کالج کے اس آسیبی قسم کے ماحول کا کچھ زیادہ اثر نہ لیا۔
اسی کالج میں ہمارا دیرینہ دوست نون بھی زیرِ تعلیم تھا، جس کو اب یہاں آخری سال کے امتحان میں فیل ہوتے کئی سال گزرچکے تھے، چونکہ اس کا تجربہ کئی اساتذہ سے بھی زیادہ ہوچکا تھا، اس لیے بعض اساتذہ جب کسی موقع پر چھٹی کرنا چاہتے تو اس کو کہہ جاتے کہ فلاں موضوع پر لیکچر دے دینا۔ ہمارے ہاں تدریسی نصاب کو شاید الہامی صحائف کا سا درجہ مل چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ بنی اسرائیل کے دور سے اس میں ترمیم نہیں کی گئی، اور ہمیں امید ہے کہ جب انسان ترقی کرکے مریخ پر جا بسے گا، تب بھی ہمارے ہاں یہی کچھ پڑھایا جارہا ہوگا۔ چنانچہ کوئی طالبعلم کسی تعلیمی ادارے میں اپنی تعلیمی مدت سے زیادہ عرصہ گزارلے تو اس کا درجہ بہت سے اساتذہ کرام کے درجے اور بعض سے بلند ہوجاتا ہے۔
ہمارے ایک اُستاد محترم کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ درس و تدریس کے شعبے میں داخل ہونے سے پہلے شاید غبارے فروخت کرتے تھے، اسی لیے غباروں میں ہوا بھر بھر کر خود ان کی ساری ہوا نکل گئی تھی اور ان کا جسم نہایت مختصر ہوگیا تھا کہ اب ہوا کے رحم و کرم کا محتاج تھا۔ لیکچر روم میں ان کی آواز مبارک میڈیم ویو کے انتہائی نچلے درجے پر نشر ہوتی کہ اگلی نشستوں پر بیٹھے ہوئے کو بھی صرف بھنبھناہٹ ہی سنائی دیتی۔ لیکن ان کی مستقل مزاجی اور اعتماد دیکھیے کہ وہ پورا لیکچر دیے بغیر باز نہیں آتے۔ جب انہیں فحش لطیفے سن کر طلبا کے بلند بانگ قہقہے بھی اس کام سے نہیں روک پاتے تھے، کلاس میں سونے والوں کے خرّاٹے کیا خاک روکتے؟
ایک استاد محترم کی مونچھیں معروف صحافی اور قلم کار ہم سب کے ہردلعزیز حسن مجتبیٰ سے بھی زیادہ گھنی تھیں اور جھالر کی مانند لٹک کر ان کے ہونٹوں کو چھپا دیا تھا، لیکن شادی کے بعد جب انہوں نے کالج دوبارہ جوائن کیا تو ہمیں شدید حیرت ہوئی کہ عین سہاگ رات کسی تجلی نے ان کی مونچھوں کے گھنے جلا کر خاکستر کردیا تھا اور اب نرا چٹیل میدان باقی رہ گیا تھا۔
ایک محترم استاد بچپن کی غلط کاریوں کے پچپن پر اثرات کے حوالے سے خاصے تجربہ کار معلوم ہوتے تھے، اور کلاس میں آتے ہوئے اس موضوع پر ایسی تمام نصیحتوں کا پندار اُٹھا لاتے تھے، جن پر وہ خود عمل سے محروم رہ گئے تھے۔ ان کی کلاس میں سارا سال اسی حوالے سے گفت و گو ہوا کرتی، ہاں کبھی کبھی وہ سلیبس سے بھی کچھ پڑھادیا کرتے، جسے پڑھانے کی خواہ مخواہ انہیں تنخوا ملا کرتی تھی۔
ایک حضرت قبلہ کے متعلق مشہور تھا کہ انہیں انگلش نہیں آتی، لیکن ہمارا خیال تھا کہ انہیں کچھ نہیں آتا تھا، سوائے ایک چیز کے جس کے لیے بار بار انہیں کلاس چھوڑ کر جانا پڑتا تھا۔
ان کے سبجیکٹ کے انٹرنل ایگزام کے پرچے میں سے اکثر طلباء سوالات اُتار کر کسی کے جواب میں شعلے کی اسٹوری، تو کسی کے جواب میں نمک حلال کی کہانی بمعہ تمام گانوں کے رومن انگلش میں تحریر کر آتے اور مجال ہے کہ انہوں نے اسّی پچاسی فیصد سے کم نمبر دیے ہوں۔
ایک مرتبہ ہمارے ایک کلاس فیلو کے بھائی کی شادی لاہور میں ہونی تھی، چنانچہ ہمارا گروپ اس شادی میں شریک ہوکر جب واپس لوٹا اور کالج جوائن کیا تو کالج کچھ بدلا بدلا سا محسوس ہوا۔ ایسا لگتا تھا کہ تمام اساتذہ کرام دامت برکاتہم العالیہ پر گویا سفیدی پھیر دی ہے، جس پر نظر پڑتی وہ اُجلا اُجلا معلوم ہوتا، ہمیں کچھ سمجھ نہ آیا، اِدھر اُدھر کی گپیں مارنے کے بعد اپنی عادت کے مطابق جب پہلے پیریڈ میں دس پندرہ منٹ دیر سے پہنچے تو ہمارے دس بارہ لڑکوں کا گروپ کلاس روم کے دروازے پر ہی ٹھٹک کر کھڑا رہ گیا۔ اور سب ہی کے دلوں سے شکتی کپور کے انداز میں ایک اجتماعی آواز نکلی:
اُو لالااااااااااااااااااااا
کئی عشرے گزر گئے اب تو اس بات کو، اس لیے نام تو ذہن کے کسی مخفی گوشے سے بھی مٹ چکا ہے، لیکن یہ ’’اُوولالا‘‘ یاد رہ گیا ہے۔
سروقد، سانسوں سے ہم آہنگ ہوتے سینے کے زیروبم، جسم گویا سنگ مرمر کا مجسمہ، عارض پر چھیڑچھاڑ کرتی زلفوں کی لٹیں، کمر پر سیاہ ناگن کی مانند لہراتی چُٹیا، جس کے سرے پر لٹکتے پراندے، اور کبھی بالوں کو کاندھوں پر کھلا چھوڑ دیں تو بجلیاں کڑکنے لگیں….گویا وہ تمام خوبیاں جو خواتین کے ڈائجسٹوں میں بیان کی جاتی ہیں جنہیں گوشہ نشین قسم کے مرد حضرات پڑھ پڑھ کر اپنی ٹھرک پوری کرتے ہیں۔
وہ ہماری اردو کی لیکچرار تھیں، جنہوں نے ہماری ایک ہفتے کی چھٹیوں کے دوران کالج جوائن کیا تھا۔
اُوولالا نے کالج میں ایک نیا رنگ بکھیر دیا تھا۔ قبر میں پیر لٹکائے بلکہ سر کے بل لٹکے کالج کے پرنسپل کے دل میں بھی جذباتِ جوانی نے انگڑائی لی اور انہوں نے سفر آخرت کا ارادہ ترک کرکے اپنی دنیا کو سنوارنے کا فیصلہ کرلیا۔
اُوولالا کی آمد کے بعد زیادہ تر اساتذہ کرام ٹائی لگانے لگے، کلف لگی شرٹ اور چمچماتے ہوئے سیاہ بوٹ، پہلے یہی تھے جن کے جوتوں اور شکلوں میں زیادہ فرق نہیں محسوس ہوتا تھا۔ کچھ تو جون کی تپتی دھوپ میں بھی سوٹ پہن کر کالج آنے لگے، اسلامیات کے لیکچرار مولوی صاحب نے بھی شیروانی زیب تن کرنی شروع کردی۔
سب ہی اُوولالا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ہر وہ جتن کرنے لگے جنہیں وہ اپنی اپنی طے کردہ اخلاقیات کی حدود میں کرسکتے تھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اُوولالا اس سب سے بے خبر نہیں تھیں۔ بلکہ ہمارا تو یہ خیال تھا کہ ان کو بورڈ والوں نے بطور خاص اس کالج میں بھیجا تھا تاکہ برسوں سے خراب چلی آرہی کارکردگی میں کچھ بہتری پیدا ہو۔
ایک روز ہم کالج کے لان میں بیٹھے شغل مستیاں کررہے تھے کہ نون ہانپتا کانپتا آیا، اور بولا کہ جلدی چلو کامن روم میں اسلامیات کے لیکچرر اور اُوولالا تنہا بیٹھے باتیں کررہے ہیں۔
یہ خبر سن کر ہم سب ہی غصے میں بھر گئے، حالانکہ اُوولالا ہم سے عمر میں بڑی تھیں، لیکن ہم سب مولوی صاحب کو اپنا رقیب تسلیم کرنے کے لیے آمادہ نہ تھے۔ کامن روم کے قریب پہنچ کر کھڑکی سے جھانکا تو اُوولالا کو مولوی صاحب کے ساتھ باتیں کرتے دیکھا۔ اُوولالا کہہ رہی تھیں کہ ان کے سر میں آج بہت درد ہورہا ہے، اس لیے وہ کامن روم میں کچھ دیر آرام کرنے کی غرض سے بیٹھی ہیں۔ یہ سن کر اسلامیات کے لیکچرر مولوی صاحب جو اب تک ہمیں شرک و بدعت کے عذابات سے ڈراتے رہتے تھے اور دم درود کے قائل نہ تھے، اُوولالا کے سامنے اچانک اپنا مسلک تبدیل کرلیا، جبکہ ہفتوں کپڑے تبدیل نہ کرتے تھے۔ کہنے لگے: آپ کہیں تو میں دَم کردوں؟ فوراً آرام آجائے گا۔
اس سے پہلے کہ اُوولالا کوئی جواب دیتیں، وہ خود ہی کرسی گھسیٹ کر ان کے قریب ہوگئے اور سر پر ہاتھ رکھ کر پہلے دل ہی دل میں کچھ پڑھنے لگے۔
نون نے سرگوشیوں میں کہا کہ مولوی کے منہ میں پان بھرا ہے، دم کرنے کے لیے اُوولالا پر پھونک مارے گا تو ضرور پان کی پیک کی دھار اُوولالا کے چہرے پر پڑے گی، اور اُوولالا کا تھپڑ مولوی پر….!
لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، بلکہ مولوی صاحب نے زبان سے پان کو ایک گال سے دوسرے گال میں سرکا کر ساری پیک نگلتے ہوئے ہلکی سی چُھو کردی۔ لیکن چونکہ مولوی صاحب کا دل نہیں بھرا تھا اس لیے ایک دعا بالجہر پڑھنی شروع کردی۔ ہم نے غور کیا تو دعا کے الفاظ تو سمجھ میں نہ آسکے۔ البتہ جس طرز میں وہ جھوم جھوم کر پڑھ رہے تھے، وہ کچھ جانی پہچانی سی محسوس ہورہی تھی۔ غور کرنے پر سمجھ میں آیا کہ یہ طرز ایک مشہور ہندوستانی گیت کی ہے، جس کے الفاظ شاید مولوی صاحب کے ہی دل کی تمنا کو اُجاگر نہیں کررہے تھے بلکہ کالج کے تمام اساتذہ کرام اور طالبعلموں کی دلی تمنا بھی یہی تھی۔ ہندوستانی گیت کے بول آپ کو بتائے دیتے ہیں، طرز آپ کو خود ہی یاد آجائے گی۔
بیٹھ میرے پاس تجھے دیکھتا رہوں
تو کچھ کہے نہ میں کچھ کہوں!

تحریر:جمیل خان
ربط
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بئی باقی باتیں اک طرف اردو کی لیکچرار کا نقشہ خوب کھینچا ہے۔۔:p آخر تجربہ بھی کوئی چیز ہوتا ہے۔۔۔ ;)
 
Top