حسن محمود جماعتی
محفلین
عیسوی سال کے اختتام اور سال نو کےآغاز پر اس قوم کو عجیب الجھن درپیش ہوتی ہے۔ ایک طرف تو سال نو کی خوشی اور مبارکبادی پیغامات کا سلسلہ اور دوسری جانب اسے "غیر مسلم" سال قرار دے کر اس کی مبارکباد نہ پیش کرنے پر مبارکباد۔ یہ قوم عجیب الجھنوں کا شکار ہے جبکہ "اور بھی غم ہیں زمانے میں۔۔۔۔"اگر توجہ دوسرے غم کی جانب کی جائے تو "عین اسلامی" سال کےآغاز پر یہ الجھن بھی سلجھنے کا نام نہیں لیتی۔ کچھ مبارکبادی پیغامات کے ساتھ، کچھ تنبیہی نوٹس بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ چونکہ اس سال کا پہلا دن ہی ایک تاریخی واقعہ سے منسوب ہے اور اگلے دس دن غم و اندوہ سے منسلک۔ لہذا مبارکباد پر بین ہے۔ ورنہ آپ پر بین کیا جائے گا۔ اب جائیں تو جائیں کہاں۔۔۔۔۔!!!
خیر الجھن کی سلجھن یہ ہےکہ سال اسلامی اور غیر اسلامی کب سے ہونے لگے اس کی تاریخ نہیں معلوم۔ نہ ہی معلوم کرنے کی زحمت۔ ایک عیسوی یا شمسی سال ہے۔ اور دوسرا قمری یا ہجری۔ ایک کا تعلق سورج کے پھیروں سے ہے تو دوسرے کا چاند کے غروب و طلوع سے۔ اب کب ان سالوں نے کلمہ پڑھا یا منکر ہوئے یہ علم اس پاک ذات کو ہی ہے۔ ہاں اس نے اتنا ضرور فرمایا ہے؛
"وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا
اور یہ دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں تاکہ اللہ (اس گردش ایام کے ذریعے) ایمان والوں کو جانچ سکے۔
یعنی یہ شب و روز کا تغیر، یہ گردش ایام یہ دن رات کا بدلنا محض ایک معمول نہیں۔ اس میں اس خالق و مالک کے راز اور حکمت پوشیدہ ہے۔ جس کے ذریعے وہ ایمان والوں کی جانچ پرکھ کرتا ہے۔ یہ آیت مبارکہ ایک خاص واقعے کے تناظر میں ہے جہاں ایمان والوں کو پرکھا گیا کہ وہ جان و مال کی قربانی دینے میں کس حد تک جا سکتے ہیں اور اگر حالات موافق نہ ہو تو ان کا رد عمل کیا ہوگا۔ اس سال رواں کے اختتام اور سال نو کے آغاز پر ہم وفور جذبات سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ایک طرف نئے سال کے آغاز پر کچھ کر دکھانے کی لگن اور اپنے لیے نئے مقاصد کا تعین اور دوسری جانب یہ محض ایک دن کا معمول کے مطابق بدلنا جس سے فقط تاریخ بدل جائے گی۔ اس پر جون ایلیاء کا یہ شعر کہ؛
کوئی حاصل نہ تھا آرزو کا مگر، سانحہ یہ ہے اب آرزو بھی نہیں
وقت کی اس مسافت میں بے آرزو، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
زندگی میں اگر کوئی مقصدیت ہے کچھ حاصل کرنے کی آرزو وتمنا ہے تو واقعی سال نو کا آنا محض ایک تاریخ کا بدلنا نہیں ۔ پھر حقیقت ہے کہ اس تبدل پر مبارکباد دی جائے۔ اور اگر زندگی بے آرزو، بے خواہش، بے مقصد گزر رہی ہے تو پھر سال رواں کا بدل کیا عجب، یہ شب و روز اسی معمول سے تغیر پذیر ہیں۔
سال مہینوں سے ، مہینہ ہفتوں سے اور ہفتہ دنوں سے مل کر بنتا ہے۔ یہ دن اگر ایک ایسے معمول میں بسر ہورہے ہیں جس میں مقصد فقط مال وثروت کی چاہت، انہی کا حصول اور اسی میں اضافے کی تگ و دو ہے تو یہ عام دنوں کی شام کی سی ایک شام ہے۔ جو روز آ اور جارہی ہے۔ روز ایک دن بیت رہا ہے۔ اس معمول میں جب شب و روز بیت رہے ہیں تو کیا عجب ایک اور سال گزر گیا، اور ایک گزر جائے گا۔
لیکن فکر معاش سے بالا کبھی " وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا " کی جانچ پر پور ا اترنے میں دن گزرے۔ ایسے دنوں پر محیط جب سال گزرے گا تو سال رواں کی آخری شام متفکر ضرور کرے گی۔ وہ اداسی ضرور لائے گی۔ ناجانے میں اس سال اس پرکھ پر پورا اتر سکا یا نہیں ؟ اگر جواب ہاں تو سال نو مبارک ہو کہ ایک اور سال یار کی صحبت و سنگت میں گزرے گا۔ جواب نفی تو سال نو کے آغاز پر یہی ا"میرے نئے سال کی قراردا د" ہے کہ؛
جتنا لمحہ خاموشی میں جو گزرے تو بہتر ہے
یاد تری اور تنہائی میں سو گزرے تو بہتر ہے
وگرنہ کہنے والے نے کہا تھا؛
وقت کی اس مسافت میں بے آرزو، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے؟؟؟
دعا ہے رب العزت یہ سال ایمان و سلامتی سے گزارے اور گزرے سال کی خطائیں اپنے حبیب علیہ الصلوۃ والسلام کے صدقے درگزر اور معاف فرمائے۔
خیر الجھن کی سلجھن یہ ہےکہ سال اسلامی اور غیر اسلامی کب سے ہونے لگے اس کی تاریخ نہیں معلوم۔ نہ ہی معلوم کرنے کی زحمت۔ ایک عیسوی یا شمسی سال ہے۔ اور دوسرا قمری یا ہجری۔ ایک کا تعلق سورج کے پھیروں سے ہے تو دوسرے کا چاند کے غروب و طلوع سے۔ اب کب ان سالوں نے کلمہ پڑھا یا منکر ہوئے یہ علم اس پاک ذات کو ہی ہے۔ ہاں اس نے اتنا ضرور فرمایا ہے؛
"وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا
اور یہ دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں تاکہ اللہ (اس گردش ایام کے ذریعے) ایمان والوں کو جانچ سکے۔
یعنی یہ شب و روز کا تغیر، یہ گردش ایام یہ دن رات کا بدلنا محض ایک معمول نہیں۔ اس میں اس خالق و مالک کے راز اور حکمت پوشیدہ ہے۔ جس کے ذریعے وہ ایمان والوں کی جانچ پرکھ کرتا ہے۔ یہ آیت مبارکہ ایک خاص واقعے کے تناظر میں ہے جہاں ایمان والوں کو پرکھا گیا کہ وہ جان و مال کی قربانی دینے میں کس حد تک جا سکتے ہیں اور اگر حالات موافق نہ ہو تو ان کا رد عمل کیا ہوگا۔ اس سال رواں کے اختتام اور سال نو کے آغاز پر ہم وفور جذبات سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ایک طرف نئے سال کے آغاز پر کچھ کر دکھانے کی لگن اور اپنے لیے نئے مقاصد کا تعین اور دوسری جانب یہ محض ایک دن کا معمول کے مطابق بدلنا جس سے فقط تاریخ بدل جائے گی۔ اس پر جون ایلیاء کا یہ شعر کہ؛
کوئی حاصل نہ تھا آرزو کا مگر، سانحہ یہ ہے اب آرزو بھی نہیں
وقت کی اس مسافت میں بے آرزو، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
زندگی میں اگر کوئی مقصدیت ہے کچھ حاصل کرنے کی آرزو وتمنا ہے تو واقعی سال نو کا آنا محض ایک تاریخ کا بدلنا نہیں ۔ پھر حقیقت ہے کہ اس تبدل پر مبارکباد دی جائے۔ اور اگر زندگی بے آرزو، بے خواہش، بے مقصد گزر رہی ہے تو پھر سال رواں کا بدل کیا عجب، یہ شب و روز اسی معمول سے تغیر پذیر ہیں۔
سال مہینوں سے ، مہینہ ہفتوں سے اور ہفتہ دنوں سے مل کر بنتا ہے۔ یہ دن اگر ایک ایسے معمول میں بسر ہورہے ہیں جس میں مقصد فقط مال وثروت کی چاہت، انہی کا حصول اور اسی میں اضافے کی تگ و دو ہے تو یہ عام دنوں کی شام کی سی ایک شام ہے۔ جو روز آ اور جارہی ہے۔ روز ایک دن بیت رہا ہے۔ اس معمول میں جب شب و روز بیت رہے ہیں تو کیا عجب ایک اور سال گزر گیا، اور ایک گزر جائے گا۔
لیکن فکر معاش سے بالا کبھی " وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا " کی جانچ پر پور ا اترنے میں دن گزرے۔ ایسے دنوں پر محیط جب سال گزرے گا تو سال رواں کی آخری شام متفکر ضرور کرے گی۔ وہ اداسی ضرور لائے گی۔ ناجانے میں اس سال اس پرکھ پر پورا اتر سکا یا نہیں ؟ اگر جواب ہاں تو سال نو مبارک ہو کہ ایک اور سال یار کی صحبت و سنگت میں گزرے گا۔ جواب نفی تو سال نو کے آغاز پر یہی ا"میرے نئے سال کی قراردا د" ہے کہ؛
جتنا لمحہ خاموشی میں جو گزرے تو بہتر ہے
یاد تری اور تنہائی میں سو گزرے تو بہتر ہے
وگرنہ کہنے والے نے کہا تھا؛
وقت کی اس مسافت میں بے آرزو، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے؟؟؟
دعا ہے رب العزت یہ سال ایمان و سلامتی سے گزارے اور گزرے سال کی خطائیں اپنے حبیب علیہ الصلوۃ والسلام کے صدقے درگزر اور معاف فرمائے۔
طالب دعا
حسن محمود جماعتی
حسن محمود جماعتی