ہماری توجہ کے طالب ننھے فرشتے

زبیر مرزا

محفلین
یہ اچھی اور خوش آئند خبر ہے -اُمید ہے کہ تھیلسمیا کی بیماری میں کمی اور مزیدآگہی اس قانون سے ممکن ہوگی
 

قیصرانی

لائبریرین
مجھے یاد پڑتا ہے کہ ہمارے جاننے والے کچھ لوگوں میں بچوں کو یہ مرض تھا تو ہم بہن بھائی خون دینے جاتے تھے۔ وہاں ایک نئے نئے پیڈیاٹرک آئے تھے۔ کافی مشہور ہوئے (ڈیرہ غازی خان میں)۔ وہ بچوں کے والد کو مشورہ دے رہے تھے کہ اگر دونوں والدین کے جین متائثر ہوں تو ایک بٹا چار بچے درست جبکہ تین بٹا چار بچے بیمار پیدا ہوتے ہیں۔ اب تمہارے تین بچے بیمار پیدا ہوئے ہیں تو اب ایک اور بچہ پیدا کر لو، وہ ٹھیک ہوگا۔ پھر مزید بچے نہ پیدا کرنا۔ اس وقت میری چھوٹی بہن جو خون دے کر فارغ ہو چکی تھی اور میری باری چل رہی تھی، نے اسی وقت ڈاکٹر سے اس کی ڈگری دیکھنے کا مطالبہ کیا کہ اتنا جاہل بندہ بھی ڈاکٹر اور وہ بھی ماہر امراضِ اطفال بنا ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحب بات گول کر کے گم ہو گئے
 

قیصرانی

لائبریرین
اس بات کی وضاحت کر دوں کہ امکانات کی بنیاد پر یہ ہوتا ہے کہ ان والدین کے ٹیسٹ کے مطابق پچہتر فیصد امکان تھا کہ بچہ بیمار پیدا ہو۔ یعنی ہر بچے کی پیدائش پر اس کا بیمار پیدا ہونے کا امکان پچہتر فیصد۔ ان ڈاکٹر صاحب نے اسے براہ راست اس طرح سے ترجمہ کیا کہ چار بچوں میں سے ایک ہر حال میں ٹھیک جبکہ دیگر تین ہر حال میں بیمار پیدا ہونے ہیں
پسِ نوشت: اوپر بیان کئے ہوئے خاندان کے تینوں بچے اب اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں
 
رشتہ طے کرنے سے قبل -
سو فیصد متفق
اس لیے میرے خیال میں نکاح سے قبل کا نہیں کہنا چاہئیے کیونکہ نکاح سے قبل تو منگنی ہوتی ہے اور اگر منگنی کے بعد یہ ٹیسٹ کروایا جائے اور خدانخواستہ اس طرح کا کوئی چکر نکل آئے تو پھر پڑ گیا سیاپا
 
ہاییڈروآکسی یوریا، تھلیسیمیا کے خلاف امید کی کرن
تھلیسیمیا میں مبتلا بچوں کے جسم میں خون پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی اوران کی زندگی کا انحصار انتقال خون پر ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ زندگی بھر جاری رہتا ہے۔ اس مرض میں مبتلا بچوں کو ہر ماہ ایک سے دو مرتبہ خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ہاییڈروآکسی یوریا تھلیسیمیا اور تھلیسیمیا میڈیسن کے میدان میں ایک انقلابی دوا ثابت ہوئی ہے اور یہ اس مرض میں مبتلا مریضوں کے لیے زندگی کی ایک امید ہے۔۔ 2003ء میں یہ دوا صرف بلڈ کینسر کے مریضوں کے لیے استعمال کی جاتی تھی لیکن اب اسے تھلیسیمیا کے خلاف استعمال کیا جا رہاہے، جس کے استعمال کے بعد مریضوں کو خون دینے کی ضروت نہیں ہوتی اور وہ اپنے معمول کے کام کر سکتے ہیں۔ایک ماہر طب کے مطابق ’’ہم نے تھلیسیمیا کے 140 مریضوں پر یہ دوا استعمال کی اور ان میں سے25 مریضوں کو گزشتہ تقریباً نو مہینوں سے خون دینے کی ضرورت نہیں پڑی۔‘‘ہائیڈروآکسی یوریا کے ذریعے سات سالہ بچی کا علاج کروانے والے ایک والد کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی عام بچوں کی طرح اسکول جاتی ہے اور ان کی طرح کھیل کود میں حصہ لیتی ہے۔
بشکریہ:روزنامہ دنیا
 

زبیر مرزا

محفلین
جس بچے کو میں جانتا ہو اس کو بھی ادویات دی جارہی ہیں جن کی بدولت اُسے ہرماہ اور ایک ماہ میں دوبار کی بجائے
تین ماہ بعد خون کی ضرورت پڑتی ہے - ان شاءاللہ ان ادویات ، تھیلسمیا کے شادی سے قبل خون کی جانچ کے قانون اور
اس بیماری سے بڑھتی ہوئی آگاہی کی باعث یہ موذی مرض کم سے کم اور آخرکار ختم ہوجائے گا -
 
Top