x boy
محفلین
الحمد للہ
بعض اوقات مسلمان دوسروں کی نظروں اوراپنے دین پر عمل کرنے کی بنا پر ایذا و تکلیف سے دوچار ہوتے ہيں ، لیکن انہیں جتنی بھی اذیت آئے تکالیف آئيں ان کے لیے کسی بھی صورت میں یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے اندر ہی ذلیل ہوں اوراسلام کوناپسند کرنا شروع کردیں ۔
بلکہ وہ تو اس میں صبر کرتے ہيں اوراللہ تعالی کے لیے اوراس کے راستے میں ہی اسے برداشت بھی کرتے ہوئے اس کے اجروثواب کی نیت رکھتے ہیں ۔
ان کے مالک ورب و الہ کا فرمان ہے :
{ تم نہ توسستی کرو اورنہ ہی غمگین ہو تم ہی غالب رہوگے اگر تم ایمان دار ہو } آل عمران ( 139 ) ۔
اوربعض کفار جوکچھ مسلمانوں کے ساتھ کرتے ہیں وہ تین اسباب میں سے ایک سبب کی بنا پر ہے :
یا تووہ کافر اسلام اوراس کی عظمت سے جاھل ہے اوراسے یہ علم نہيں کہ دین اسلام ہی دین حق ہے تواس جھالت کی بنا وہ مسلمانوں کو اذیت وتکلیف دیتا ہے ۔
یا پھر اسے یہ علم ہے کہ دین اسلام ہی دین حق ہے لیکن وہ دشمنی و عناد اورتکبر کی بنا پر مسلمانوں کو اذیت دیتا ہے ۔
اوریا پھر اسے اسلام اورمسلمانوں کی فضیلت کا علم ہے لیکن وہ یہ کام اسلام اورمسلمانوں سے حسد کی وجہ سے کرتا ہے ۔
اوراس کے باوجود مسلمان اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ دین اسلام عزت و کرامت کا دین ہے اوردنیا وآخرت میں یہی دین رفعت وبلندی ہے جو بھی اس پرعمل پیرا ہوگا اللہ تعالی اسے عزت و بلندی عطا کرے گا اورجواس سے پیچھے ہٹے گا تو وہ صرف اپنے آپ کوہی نقصان پہنچائے گا ۔
ہمیں اسلام نے تعلیمات دیتے ہوئے یہ تعلیم بھی دی ہے ہم مسلمان ہی قوی اور عزت والے ہوں گے ، اوراسی کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :
( قوت والا مومن اللہ تعالی کے ہاں ایک ضعیف اورکمزور مومن کے مقابلہ میں زیادہ محبوب اوربہتر ہے اورخیرو بھلائ تودونوں میں ہے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 4816 ) ۔
ہمیں اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ : ہم میں سے بڑے چھوٹوں پر رحم کریں اوران کے ساتھ رحمدلی سے پیش آئيں ۔
اس کا حکم دیتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جو چھوٹوں پررحم اوربڑوں کی عزت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1842 ) اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ترمذی ( 1565 ) میں اسے صحیح کہا ہے ۔
اورہمیں اسلام یہ بھی حکم دیتا ہے کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بھی رحمدلی سے پیش آئيں اوراس کے مقابلہ میں ہم کفار پر سخت ہوں اوران کے ساتھ شدت سے پیش آئيں ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :
{ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے رسول ہیں اورجولوگ ان کے ساتھ ہيں وہ کفار پر تو بہت ہی سخت ہیں اورآپس میں بہت ہی نرمی کرنے والے رحمدل ہيں } الفتح ( 29 )
اورہمارا دین ہمیں یہ اجازت دیتا ہے کہ ہم یھودیوں اورعیسائيوں کی عورتوں سے شادی کرلیں لیکن یہ جائز نہیں کہ ہم یھودیوں اورعیسائیوں کو اپنی بیٹیاں دیں ۔
اس لیے کہ یھودی اورعیسائ ہم سے کم مرتبہ رکھتے ہیں اورہماری عورتیں ان سے اعلی درجہ رکھتی ہيں ، اوراس لیے نیچے والا اوپروالے سے بلند نہیں نہیں ہوسکتا ، اوراسلام علوبلندی والا ہے اس کے اوپر کوئ نہيں جاسکتا ، اورہم ان کے انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں لیکن وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہيں رکھتے ۔
ہمیں ہمارا دین یہ حکم دیتا ہے کہ ہم انہيں جزیرہ عربیہ نے نکال باہر کریں اوران میں سے کسی ایک کوبھی نہ رہنے دیں اس لیے کہ جزیرہ عربیہ رسالت کی سرزمین ہے اس لیے یہ جائز نہیں کہ ہم اسے کفار کی نجاستوں سے گندہ کریں ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جزیرہ عربیہ سے مشرکوں کو نکال دو ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2932 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 3089 ) ۔
اورہمارا دین ہمیں یھود ونصاری کے برتنوں میں کھانے سے منع کرتا ہے لیکن اگر ان کے علاوہ کوئ اوربرتن نہ ملیں تو ہم اسے اچھی طرح دھونے کے بعد استعمال کرسکتے ہیں ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اہل کتاب کے برتنوں کے بارہ میں پوچھا گیا توآپ نےفرمایا :
( اگرتم ان کے برتنوں کےعلاوہ کوئ اوربرتن حاصل کرلوتوان کے برتنوں میں نہ کھاؤ اوراگر ان کے علاوہ کوئ اوربرتن نہ مل سکیں توانہيں دھو کر ان میں کھا لیا کرو ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5056 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 3567 ) اورمندرجہ بالاالفاظ مسلم کے ہیں ۔
ہمیں ہمارا دین حنیف اس سے منع کرتا ہے کہ ہم لباس میں کفارسے مشابہت اختیار کریں اور یا پھر کھانے پینے اور عادات میں ان کی تقلید اورنقل کریں ، اس لیے کہ ہمارا مرتبہ کفار سےاونچا ہے اورکفار ہم سے نیچے ہیں ، اوراصول یہ ہے کہ بلندی والا نچلے درجے والے کی مشابہت اختیار نہیں کرتا ۔
بلکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تواس بات کی وعید سنائ ہے کہ جوبھی کفار سے مشابھت اختیارکرے گا وہ ان کے ساتھ جہنم میں جائے گا اوریہ جگہ بہت ہی بری ہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جوبھی کسی قوم سے مشابھت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہے ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 3512 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے دیکھیں صحیح ابوداود حديث نمبر ( 3401 ) ۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ قدرت و استطاعت رکھتے ہوئے کفار سے جنگ و لڑائ کریں اوران کے ممالک پر چڑھائ اورحملے کريں اوران پرحملہ کرنے سے قبل تین اختیارات دیں یا تواسلام قبول کرلیں تووہ ہماری طرح ہوں کے جوہمارے حقو ق ہیں وہی ان کے ہوں گے۔
یا پھر ذلیل ورسوا ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ ( ٹیکس ) دیں ، اوریا پھر لڑائ کریں جس سے ان کے خون و مال اور اولاد اورسرزمین حلال ہوجائے گی اوروہ مسلمانوں کے لیے مال غنیمت بنے گا ۔
بلاشبہ دین اسلام آسمانی دین ہے جوبندے اوراس کے رب کے درمیان بلاواسطہ تعلق قائم کرتا ہے تو بندہ جب چاہے اپنے رب کی عبادت کرے اورجب چاہے اسے پکارے اس لیے کہ وہ اپنے رب سے عبادت کا رابطہ قائم کيئے ہوئے ہے اوراس کی طرف متوجہ ہے اوراس کے سامنے ہی گریہ زاری کرتا ہے جوکسی بھی درویش وراھب و پیر وفقیر کے واسطے کا محتاج نہیں ! ! ۔
اورنہ ہی پیروں فقیروں کی کرامتوں کا محتا ج ہے بلکہ اللہ واحد قہار کے ساتھ بلاواسطہ متوجہ ہوا جاتا ہے ۔
اورجوکچھ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں پر یھودو نصاری کا تسلط ہے اس کا سبب مسلمانوں کا اپنے دین پر عمل کرنے میں سستی اورجہاد فی سبیل اللہ کی تیاری کا ترک کرنا اوردنیا کے مال متاع سے محبت ہے جس نے ان کے دلوں سے اللہ تعالی اوردار آخرت کی محبت ختم کر ڈالی ہے ۔
اس لیے آپ دیکھتےکہ آج مسلمانوں کا خون بلاقدروقیمت اوربلادریغ بہایا جارہا ہے ان کے گھربغیر کسی قیمت کےمنھدم کیے جارہے ہیں اوران کی روحیں تلکلیفیں جھیل رہی ہيں ۔
اوراللہ تعالی نے تو سچ کہا ہے کہ :
{ تمہیں جوبھی مصیبتیں آتی ہيں وہ تمہار ھاتھ کی کمائ ہے اوراللہ تعالی بہت سی معاف بھی کردیتا ہے } ۔
آج جوذلت و رسوائ ملی ہے وہ ہم مسلمانوں نےخود ہی کمائ ہے نہ کہ اس کا سبب اسلام ہے لیکن جب ہم اپنے دین کی طرف پلٹ آئيں گے توہماری عزت ومرتبہ بھی واپس لوٹ آئے گی ۔
سورة الاٴنعَام
کہہ کہ (لوگو) آؤ میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے پروردگار نے تم پر حرام کر دی ہیں (ان کی نسبت اس نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے) کہ کسی چیز کو خدا کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ سے بدسلوکی نہ کرنا بلکہ سلوک کرتے رہنا اور ناداری (کے اندیشے) سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا کیونکہ تم کو اور ان کو ہم ہی رزق دیتے ہیں اور بےحیائی کے کام ظاہر ہوں یا پوشیدہ ان کے پاس نہ پھٹکنا اور کسی جان (والے) کو جس کے قتل کو خدا نے حرام کر دیا ہے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی جس کا شریعت حکم دے) ان باتوں کا وہ تمہیں ارشاد فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو (۱۵۱) ۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم
بنواسرائيل میں اختلاف پیدا ہوا اورانہوں نے اپنے عقیدے اورشریعت میں تبدیلی اورتحریف کرڈالی توحق مٹ گيا اورباطل کاظہورہونے لگا اورظلم وستم اورفساد کا دوردوراہوا امت اورانسانیت کوایسے دین کی ضرورت محسوس ہوئ جو حق کوحق اورباطل کومٹائے اورلوگوں کوسراط مستقیم کی طرف چلائے تو رحمت الہی جوش میں آئ اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کومبعوث فرمایا :
اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :
{ اس کتاب کوہم نے آپ پراس لیے اتارا ہے کہ آپ ان کے لیے ہر اس چيزکو واضح کردیں جس میں وہ اختلاف کر رہے ہیں اور یہ ایمان داروں کے لیے راہنمائ اوررحمت ہے } النحل ( 64 ) ۔
اللہ تبارک وتعالی نے سب انبیاء ورسل اس لیے مبعوث فرمائے تا کہ وہ اللہ وحدہ کی عبادت کی دعوت دیں اورلوگوں کواندھیروں سے نور ھدایت کی طرف نکالیں ، توان میں سب سے پہلے نوح علیہ السلام اورآخری محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے :
{ ہم نے ہرامت میں رسول بھیجا کہ ( لوگو) صرف اللہ وحدہ کی عبادت کرو اورطاغوت سے بچو } النحل ( 36 ) ۔
اورانبیاءورسل میں آخر اورخاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے بعد کوئ نبی نہیں ۔
اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
{ ( لوگو) تمہارے مردوں میں سے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ تعالی کے رسول اور خاتم النبیین ہیں } الاحزاب (40)
اورہرنبی خاص طورپراس کی اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا لیکن اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوسب لوگوں کی طرف عام بھیجا گيا ہے جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
{ اورہم نے آپ کوتمام لوگوں کے لیے خوشخبریاں سنانے والا اورڈرانے والا بنا کربھیجا ہے لیکن لوگوں کی اکثریت اسے کا علم نہیں رکھتی } سبا ( 28 ) ۔
اوراللہ تبارک وتعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پرقرآن مجید نازل فرمایا تا کہ وہ انہیں ان کے رب کےحکم سے اندھیروں سے نوراسلام کی روشنی کی طرف نکالیں ۔
اللہ عزوجل نے فرمایا :
{ الر یہ عالی شان کتاب ہم نے آّپ کی طرف اس لیے اتاری ہے کہ آّپ لوگوں کوان کے رب کے حکم سےاندھیروں سے اجالے اورروشنی کی طرف لائيں ، زبردست اورتعریفوں والے اللہ کے راہ کی طرف } ابراھیم ( 1 ) ۔
محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب الھاشمی قریشی عام فیل جس میں ہاتھیوں والے کعبہ منھدم کرنے آئے تھے تواللہ تعالی نے انہيں نیست نابود کردیا میں مکہ مکرمہ کے علاقہ میں پیدا ہوئے ۔
آّپ ابھی ماں کے پیٹ میں ہی تھے توان کے والد کا انتقال ہوگيا اورآپ یتیمی کی حالت میں پیدا ہوئے اورانہیں حلیمہ سعدیہ نے دودھ پلایا ، پھر والد آمنہ بنت وھب کے ساتھ اپنے مامووں کی زيارت کے لیے مدینہ آئے اورمدینہ سے مکہ واپس آتے ہوئے راستے میں ابواء نامی جگہ پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ فوت ہوگئيں اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وقت عمر چھ برس تھی ، اس کے بعد دادا عبدالمطلب نے کفالت کا ذمہ لیا اور جب دادا فوت ہوا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر صرف آٹھ برس تھی ۔
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت ان کے چچا ابوطالب نے لے لی تووہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نگہبانی اورپرورش کرنے لگے اوران کی عزت وتکریم کرتے اورچالیس برس سےبھی زيادہ دفاع بھی کیا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا ابوطالب اس ڈرسے کہ آباء واجدادکے دین کوترک کرنے پر قریش اسے عار دلائيں گے اسلام قبول کیے بغیر ہی فوت ہوا ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹی عمرمیں مکہ والوں کی بکریا چرایا کرتے تھے ، پھر خدیجہ بنت خویلد رضي اللہ تعالی عنہا کا مال تجارت لے کر شام کی طرف گئے جس میں بہت زیادہ نفع ہوا ، اور خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائ وامانت ودیانت اوراخلاق بہت پسند آيا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کرلی اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پچیس برس اور خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کی عمرچالیس برس تھی ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کی زندگی میں اورکوئ شادی نہیں کی ۔
اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اچھی پرورش فرمائ اوراحسن وبہتر ادب سکھایا ، ان کی تربیت فرماکر انہیں علم وتعلیم سے نوازا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اخلاقی و پیدائشی اعتبارسے قوم میں سے احسن واعلی قرارپائے ، اورعظیم مروؤت اوروسیع حلم بردباری اوربات کے پکے اورسچے اورامانت کی سب سے زیادہ حفاظت کرنے والے تھے جس کی بنا پرقریش انہیں صادق اورامین کے لقب سے پکارتے رہے ۔
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوخلوت پسند ہونے لگی تووہ غار حراء میں کئ کئ دن رات گوشہ نشین رہ کراپنے رب کی عبادت بجالاتے اوراس سے دعائيں کرتے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بتوں ، شراب اوراخلاق رذیلہ سے نفرت اوربغض رکھتے اورپوری زندگی ان کی طرف التفات بھی نہیں فرمایا ۔
اورجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پینتیس 35 برس کی عمر کوپہنچے توسیلاب کی بناپرکعبہ کی دیواریں خستہ حال ہونے کی بنا پرقریش نے اس کی تعمیر نوکی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس میں شریک ہوئے ، جب حجر اسود کا مسئلہ آيا توقریش آپس میں اختلاف کرنے لگے جس میں انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم اورفیصل مانا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک چادرمنگوا کراس میں حجراسود رکھا پھر قبائل کے سرداروں کوحکم دیا کہ وہ اس کے کونے پکڑيں تواس طرح ان سب نے اسے اٹھایا اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے حجراسود کواس جگہ پرلگا دیا اوراس پر دیورا بنائ گئ اوراس طرح سب کے سب راضی ہوئے اورجھگڑا ختم ہوا ۔
اہل جاھلیت میں کچھ اچھی خصلت بھی تھیں مثلا کرم وفا اورشجاعت وبہادری ، اورکچھ دین ابراھیم علیہ السلام کے بقایا مثلا بیت اللہ کی تعظیم اورطواف ، حج اورعمرہ ، اورقربانی ذبح کرنی وغیر بھی موجود تھیں ۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی خصیص اورذمیم گندی خصلتیں بھی ان میں موجود تھیں ، مثلا زنا ، شراب نوشی ، سود خوری ، لڑکیوں کوزنددرگور کرنا ، ظلم وستم ، اورسب سے قبیح اورشنیع کام بتوں کی عبادت تھی ۔
دینی ابراھیم میں تبدیلی کرنے اوربتوں کی عبادت کرنے کی دعوت دینے والا سب سے پہلا شخص عمروبن لحیی الخزاعی تھا جس نے مکہ مکرمہ وغیرہ میں بت درآمد کیے اورلوگوں کوان بتوں کی عبادت کی طرف دعوت دی ان بتوں میں ود ، سواع ، یغوث ، یعوق ، اورنسر شامل ہیں ۔
اس کے بعد عربوں نے کئ اوربھی بت بنالیے جن کی عبادت کرنے لگے وادی قدید میں مناۃ ، اور وادی نخلہ میں عزي اورکعبہ کے اندر ھبل اورکعبہ کے ارد گرد بھی بت ہی بت اورلوگوں نے اپنے گھروں میں بھی بت رکھے ہوئے تھے اورلوگ اپنے فیصلے کاہنوں نجومیوں جادوگروں سے کرواتے ۔
جب اس صورت میں شرک وفساد عام ہوچکا تھا تواللہ تعالی نے اپنے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوان حالات میں مبعوث فرمایا توان کی عمر چالیس برس تھی بعثت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کوایک اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی طرف بلانے اوربتوں عبادت کوترک کرنے کي دعوت دینا شروع کی توقریش مکہ نے اس کا انکار کیا اورکہنے لگے :
{ کیا اس نے سب معبودوں کو ایک ہی معبودبنا دیا ہے بلا شبہ یہ تو بہت ہی عجیب سی چيز ہے } ص ( 5 ) ۔
تواس طرح ان بتوں کی اللہ تعالی کے علاوہ عبادت کی جانے لگي حتی کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوتوحید اسلام دے کرمبعوث فرمایا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام نے ان بتوں کوتوڑ کرنیت ونابود کیا توحق غالب اورباطل جاتا رہا ۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :
{ اورآپ کہہ دیجیئے کہ حق غالب ہوگيا اورباطل جاتا رہا اورپھرباطل توہے ہی مٹنے والا } الاسراء ( 81 ) ۔
توجب سب سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرغارحراء جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم وسلم عبادت کیا کرتےتھے فرشتہ آیا اوراس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوپڑھنے کا حکم دیا تورسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں توپڑھنا نہیں جانتا توفرشتے نے تکرار سے کئ بارکہا اورتیسری بار یہ وحی نازل ہوئ فرمان باری تعالی ہے :
{ اپنے رب کے نام سے پڑھو جس نے پیدا فرمایا ، جس نے انسان کوخون کے لوتھڑے سے پیدا فرمایا ، توپڑھ۔ اورتیرا رب بڑے کرم والا ہے ، جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا } العلق ( 1 - 4 ) ۔
تواس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم غارحراء سے واپس لوٹے توآپ کپکپاتے ہوئے اپنی بیوي خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کے پاس آئے اورانہیں سارا قصہ سنایا اورکہنے لگے مجھے تواپنی جان کاخطرہ محسوس ہورہا ہے تووہ انہیں اطمنان دلاتے ہوئے کہنے لگيں :
اللہ تعالی کی قسم اللہ تعالی آّپ کوکبھی بھی رسوا نہیں کرے گا ۔
اللہ کی قسم آپ توصلہ رحمی اور سچی بات کرتے ہیں ، اورآپ کمزوراور ضعیف لوگوں کا بوجھ اٹھاتے اورفقیر کی مدد کرتے اورمہمان کی مہان نوازی کرتے اور حق کی مدد کرتے ہیں ۔
توخدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا انہں لے کر چچازاد ورقہ بن نوفل کے پاس گئيں جو کہ جاھلیت میں نصرانی ہوگیا تھا ، جب انہوں ورقہ سے سارا قصہ بیان کیا تواس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوخوشخبری دیتے ہوئے کہا :
یہ تووہی پاکباز ناموس ہے جو موسی علیہ السلام پرنازل ہوا کرتا تھا ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کوتلقین کہ جب انہیں ان کی قوم اذيت دیں اورانہیں وہاں سے نکال دیں تو وہ صبر سے کام لیں ۔
اور وحی کچھ۔ مدت کے لیے رک گئ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم غمگین ہوگئے ۔
وہ ایک دن چل رہےتھے تواچانک ایک بار پھر آسمان وزمین کے درمیان فرشتے کودیکھا توگھرواپس آ کر چادر اوڑھ لی تواللہ تعالی نے یہ آيات نازل فرمائيں
{ اے کپڑا اوڑھنے والے ! کھڑا ہوجا اورآگاہ کردے ، اوراپنے رب کی بڑائياں بیان کر ، اوراپنے کپڑوں کوپاک صاف رکھا کر، اورناپاکی کوچھوڑ دے } المدثر( 1-4 ) ۔
پھر اس کے بعد وحی کا سلسلہ چل نکلا اورمسلسل وحی آتی رہی ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تیرہ برس تک اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی دعوت خاموشی سےدیتے رہے پھرا للہ تعالی نے کھل کراورظاہری دعوت دینے کا حکم نازل فرمایا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نرمی اوربڑے پیارسے لڑآئ وقتال کے بغیر حق کی دعوت دینی شروع کی اورسب سے پہلے اپنے عزیز اقارب اورپھر ان کے ارد گرد والے لوگوں کو اورپھر سب عرب کو اورپھر اس کے بعد پوری دنیا کے لوگوں کوحق کی دعوت دی ۔
اللہ تعالی نے دعوت حقہ کوظاہرکرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا :
{ جس کا آپ کوحکم دیا گيا ہے اسے کھول کرسنا دیں اورمشرکوں سے اعراض کرتے رہيں } الحجر ( 94 ) ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لانے والوں میں غنی اورشرف والے اورکمزورو ضعیف ، فقراء اور تھوڑے سے مردوعورتیں شامل تھیں ، ان سب کودین اسلام کی بنا پر اذیتیں دی گئيں اوربعض کوتو قتل بھی کردیا گیا ، اورکچھ نے حبشہ کی طرف ھجرت کی تاکہ قریش کی اذيت سے فرار ہوں اورچھٹکارا حاصل ہوسکے ، اور ان کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی اذیت سے دوچارکیا گيا حتی کہ اللہ تعالی نے دین اسلام کوغلبہ عطا کیا ۔
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرپچاس برس کی ہوئ اوربعثت کودس برس گذرگئے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کےچچا ابوطالب جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حمایت کرتا اورقریش کی اذیت وتکالیف سے بچاؤ تھا اس دنیا سے کوچ کرگیا ، پھر آّپ کی غمخوار بیوی خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا بھی اس دنیا سے اسی سال رخصت ہوگئيں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم پراذیتوں کے پہاڑٹوٹ پڑے اورقریش کی جرات اوربڑھ گئ جو کہ ابوطالب کے ہوتے ہوئے کچھ نہیں کرسکتے تھے اب ہرطرح کی تکلیف دینے لگے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اجروثواب کی نیت کرتے ہوئے صبر سے کام لیا ۔
لیکن جب قریش کی اذیت وتکالیف اورجرات میں اضافہ ہوا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے طائف کی جانب نکلے اوروہاں کے لوگوں کودعوت توحید دی لیکن کسی نے بھی وہ دعوت قبول نہ کی بلکہ الٹا اذيت و تکلیف دی اورپتھر برسائے حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں خوں الود ہوگئے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ واپس آکر حج وغیرہ کے موسم میں لوگوں کواسلام کی دعوت دینے میں مصروف ہوگئے ۔
پھر اللہ تعالی نے مسجد حرام سے لیکر مسجد اقصی تک براق پرسوار کر کے جبریل امین کی صحبت میں معراج کرائ اوروہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء کرام کونمازپڑھائ اورپھر انہیں آسمان دنیا پرلےجایا گيا جہاں انہوں نے آدم علیہ السلام اوراچھے اورسعادت مند لوگوں کی روحوں کوان کے دائيں جانب اور بدبخت اورشقی لوگوں کی روحوں کوان کے بائيں جانب دیکھا ۔
پھر دوسرے آسمان پرلےجائےگئے تووہاں عیسی اوریحیی علیہم السلام اورتیسرے آسمان میں یوسف علیہ السلام اورچھوتھے آسمان میں ادریس علیہ السلام اورپانچویں میں ھارون علیہ السلام اورچھٹےمیں موسی علیہ السلام اورساتویں میں ابراھیم علیہ السلام کودیکھا پھر انہیں سدرۃ المنتہی تک لے جايا گيا اوراس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رب نے ان سے کلام فرمائ اوران کی امت پردن رات میں پچاس نمازيں فرض کیں ، پھر اس میں تخفیف کرکے پانچ رکھیں لیکن اجر پچاس کا ہے رہنے دیا ۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر اللہ تعالی کے فضل کرم سے پانچ نمازوں پراستقرار ہوا ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح ہونے سے قبل ہی مکہ واپس تشریف لائے توجوکچھ رات ہوا تھا اس کا قصہ ان کے سامنے بیان کیا ،تومومنوں نے اس کی تصدیق اور کافروں نے تکذیب کی ، اسی معراج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے :
{ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کورات کے کچھ حصہ میں مسجد حرام سے مسجد تک کی سیر کرائ جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں کررکھیں ہں تاکہ ہم اپنی آیات دکھلائيں بلاشبہ وہ اللہ سننےاوردیکھنے والا ہے } الاسراء ( 1 )۔
پھر اللہ تعالی نے ایسے لوگ مہیا اورتیارکردیے جوکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد ونصرت کریں توموسم حج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے خزرج قبیلہ کے کچھ لوگوں سے ملے تووہ اسلام لائے اور مدینہ واپس جاکر اسلام کوپھیلایا اوردوسرے سال پھرموسم حج میں دس سے کچھ زيادہ آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوملے اورجب وہ واپس جانے لگے تونبی صلی اللہ علیہ وسمل نے ان کے ساتھ مصعب بن عمیررضي اللہ تعالی عنہ کوروانہ کیا تا کہ وہ لوگوں کوقرآن مجید کی تعلیم دیں اورانہیں اسلام سکھائيں تواس طرح مصعب رضي اللہ تعالی عنہ کے ھاتھو ں بہت سی خلقت مسلمان بن کراسلام میں داخل ہوئ جن میں قبیلہ اوس کے زعماء سعد بن معاذ اور اسید بن حضير رضي اللہ تعالی عنہم شامل تھے ۔
اس کے بعد آئندہ برس موسم حج میں اوس اورخزرج میں سے ستر70 سے زائد افراد آئے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کومدینہ ھجرت کر آنے کی دعوت دی کیونکہ اہل مکہ نے ان سے بائیکاٹ کیا اورانہیں تکالیف دے رکھی تھیں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے وعدہ فرمایا کہ میں تم سے ایام تشریق کی کسی رات عقبہ کے پاس ملوں گا ۔
جب رات کا تیسرا حصہ گذر گيا تووہ وعدہ کی جگہ پرآئے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے چجا عباس رضي اللہ تعالی عنہ کے ساتھ موجود پایا عباس رضي اللہ تعالی اس وقت مسلمان تونہیں ہوئے تھے لیکن ان کی خواہش تھی کہ وہ بھتیجے کے اس معاملے میں ان ساتھ لازمی رہیں ، توعباس رضی اللہ تعالی عنہ نے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اوراسی طرح قوم نے بھی اچھی بات چیت کی ، پھر انہوں نے اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ھجرت کریں تو وہ ان کی مدد اوران کا دفاع کریں گے تو انہیں جنت ملے گی توہر ایک نے اس پربیعت کی اوراس کے بعد وہاں سے چلے گئے ۔
'اس کے بعد پھر قریش کو اس کا علم ہوا توانہوں نے انہیں پکڑنے کے لیےان کا پیچھا کیا لیکن اللہ تعالی نے انہیں نجات دی اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ مدت تک مکہ میں رہے ۔
فرمان باری تعالی ہے :
{ اوریقینا اللہ تعالی بھی اس کی مدد و نصرت کرے گا جواس کی مدد کرتا ہے بلاشبہ اللہ تعالی قوی اورغالب ہے } الحج ( 40 ) ۔
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کومدینہ ھجرت کرنے کا حکم دیا توانہوں نے ھجرت کی لیکن کچھ کومکہ کے مشرکوں نے روک دیا ، اورپھر مکہ میں صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورابوبکر ، علی رضی اللہ تعالی عنہ باقی بچے جب اہل مکہ کوصحابہ کرام کی ھجرت کا علم ہوا تووہ اس سے خوفزدہ ہوئے کہ اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ جا ملیں گے لھذا انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کرنے کی سازش تیار کی ، تواللہ تعالی نے جبریل علیہ السلام کو بیھج کر اس کی خ۔بر کردی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضي اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کہ وہ ان کے بستر پررات گزاریں اوران امانتوں کوجو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں واپس لوٹائيں ۔
تواس طرح مشرکین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پرکھڑے پہرہ دیتے رہے تا کہ انہیں قتل کیا جائے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان سے ہی نکل کرابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ کے گھر پہنچے تواس طرح اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوان کی مکروفریب اورسازشوں سے محفوظ رکھا ، اللہ تعالی نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :
{ اورجب کافرآپ کے خلاف سازشیں کررہے تھے کہ آپ کوقید کردیں یا پھرقتل کردیں اوریاجلاوطن کردیں وہ توسازشیں کررہیں ہیں اوراللہ تعالی بھی تدبیرکررہا ہے اوراللہ تعالی سب سے بہتر تدبیرکرنے والا ہے } الانفال ( 30 ) ۔
پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ھجرت کا عزم کیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اورابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ غارثور کی طرف جانکلے اوراس میں تین راتیں ٹھرے اورعبداللہ بن ابی اریقط کواجرت دے کر حاصل کیا تا کہ وہ انہیں راستہ بتائے جو کہ اس وقت مشرک تھا اپنی دونوں سواریاں بھی اس کے سپرد کردیں ۔
تواس طرح قریش میں کھلبلی مچ گئ کہ یہ کیا ہوا انہوں نے ہرجگہ تلاش کیا لیکن اللہ تعالی نے ان کی حفاظت فرمائ اورکفار سے محفوظ رکھا جب تلاش ٹھنڈی پڑ گئ تووہ دونوں مدینہ کی طرف چل نکلے جب قریش پرمایوسی چھا گئ توانہوں نے انعام کا اعلان کہ جو بھی ان دونو ں یا کسی ایک کو پکڑ لائے اسے دو سو اونٹ دیے جائيں گے تولوگ مدینہ کے راہ پر انہیں تلاش کرنے لگے ، سراقہ بن مالک کو علم ہوا جوکہ مشرک تھا تو اس نے انہیں پکڑنے کی کوشش کی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خلاف دعا کی جس پراس کا گھوڑا گھٹنوں تک زمین میں دھنس گیا تواسے علم ہوگياکہ انہیں پکڑا نہیں جاسکتا تواس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی اپیل کی اورکہا کہ میں انہیں کوئ نقصان نہیں پہنچاؤں گا اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائ توسراقہ واپس آگیا اوردوسروں کو بھی روکنے لگا پھر فتح مکہ کے بعدسراقہ بن مالک رضي اللہ تعالی عنہ مسلمان ہوگئے ۔
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تومسلمانوں کوان کے آنے کی بہت زيادہ خوشی ہوئ اورانہوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا اورمردوں اورعورتوں اوربچوں خوشی اورفرحت سے نے ان کا استقبال کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم قباء میں ٹھرے اوروہاں پرمسلمانوں کے ساتھ مل کر مسجد قبا کی بنیاد رکھی اوروہاں دس راتوں سے زیادہ قیام فرمایا پھر جمعہ کے دن وہاں سےسوار ہوکر مدینہ کا رخ کیا اورنماز جمعہ بنوسالم بن عوف میں پڑھائ پھر اپنی اونٹنی پرسوار ہوکر مدینہ میں داخل ہوئے تولوگوں نے انہیں گھیررکھا اوراونٹنی کی لگام پکڑے ہوئے تھے تا کہ وہ ان کے پاس ٹھریں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہرایک سے یہی کہتے جا رہے تھے اسے چھور دو یہ اللہ کے حکم کی تابع ہے حتی کہ اونٹنی جس جگہ پرآج مسجد نبوی ہے پر بیٹھ گئ ۔
اوراس طرح اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوایسے موقع فراہم کیا کہ آپ اپنے مامووں کے پاس مسجد کے قریب رہائش پذیرہوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےابوایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے گھرمیں قیام فرمایا ، پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے اپنے اہل عیال اوربیٹیوں اورابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ کے گھروالوں کومدینہ لانے کے لیے کچھ صحابہ کوروانہ کیا ۔
پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمان اس جگہ پرجہاں اونٹنی بیٹھی تھی مسجد نبوی بنانےمیں مشغول ہوئے اورمسجد کا قبلہ بیت المقد س بنایا اورکھجور کے تنوں کوستون اورچھت کھجور کی ٹہنیوں کی بنائ ، پھربعد میں کچھ مہینوں بعدتحویل قبلہ ہوا تونماز بیت المقدس کی بجائے بیت اللہ کی جانب منہ کرکے پڑھی جانے لگی ۔
پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار اورمھاجرین کے درمیان مؤاخات قائم کی جوکہ مؤاخات مدینہ کے نام سے معروف ہے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یھودیوں کے ساتھ مصالحت کی اوراس پرایک معاھدہ لکھا جس میں صلح اورمدینہ کا دفاع شامل تھا ، اوریھودیوں کے عالم عبداللہ بن سلام رضي اللہ تعالی عنہ مسلمان ہوگئے لیکن عام یھودیوں نے اسلام لانے سے انکار کیا اوراسی سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے شادی کی ۔
اورھجرت کے دوسرے سال اذان مشروع ہوئ اور اللہ تعالی نے بیت اللہ کی طرف قبلہ کردیا اوررمضان کے روزے فرض کیے گئے ۔
اورجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں استقرار حاصل کرلیا اوراللہ تعالی نے اپنی مدد ونصرت سے تائيد فرمائ اورمھاجرین وانصار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہوگئے اوردلوں میں الفت ومحبت پیداہوکر دل جمع ہوگئے تودشمان اسلام یھودیوں منافقوں اورمشرکوں نے یک سو ہوکر ایک ہی کمان سے تیرو تفنگ چلانے شروع کردیے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کواذیت اورتکلیف اورلڑائ کی دعوت دینے لگے تواللہ تعالی انہیں صبر اوردرگزراور مہربانی کرنے کا حکم دیتا رہا لیکن جب ان کے ظلم و ستم میں اضافہ ہوا تواللہ تعالی نے بھی مسلمانوں کولڑآئ اورجہاد کی اجازت دیتے ہوئے یہ فرمان نازل فرمایا جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :
{ ان ( مسلمانوں ) لوگوں کوجن سے لڑآئ کی جارہی ہے انہیں بھی مقابلہ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں بلاشبہ اللہ تعالی ان کی مدد کرنے پر قادر ہے } الحج ( 39 ) ۔
پھر اللہ تعالی نے ان مسلمان کوپرقتال فرض کردیا کہ جو بھی ان سے قتال کرے اس سے لڑائ کرنا فرض ہے :
{ اللہ تعالی کے راہ میں ان لوگوں سے لڑو جوتم سے لڑتے ہیں اورزیادتی نہ کرو بلاشبہ اللہ تعالی زيادتی کرنے والوں کوپسند نہیں کرتا } البقرۃ ( 190 ) ۔
پھراللہ تعالی نے مسلمانوں پر سب مشرکوں سے قتال فرض کردیا فرمان باری تعالی ہے :
{ اورتم تمام مشرکوں سے جھاد کرو جس طرح وہ تم سب سے لڑتے ہیں } التوب۔ۃ ( 36 ) ۔
تواس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام دعوت الی اللہ اورجھاد فی سبیل اللہ کے ذریعے حد سے تجاوز کرنے والوں کی سازشوں اورمظلوم لوگوں سے ظلم کوختم کرنے لگے تواللہ تعالی نے ان کی مدد ونصرت فرمائ حتی کہ سارے کا سارا دین اللہ ہی کا ہوجائے ۔
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان دوھجری میدان بدرکے میں مشرکوں سے جنگ کی تو اللہ تعالی نے مدد فرمائ اورمشرکوں کی کمر ٹوٹ گئ ، اورتین ھجری میں بنوقینقاع کے یھودیوں نے غداری اورمعاھدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک مسلمان کوقتل کردیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مدینہ سے شام کی طرف جلاوطن کردیا ۔
پھرقریش نے بدرمیں اپنے مقتولین کا بدلے لینے کے لیے شوال تین ھجری میں مدینہ کے قریب میدان احد میں پڑاو کیا اور دوران جنگ تیراندازوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی جس کی بنا پرمسلمانوں کی مدد اورنصرت مکمل نہ ہوسکی اورمشرکین مکہ کی بھاگ نکلے اورمدینہ میں داخل نہ ہوسکے ۔
پھر بنونضیر کے یھودیوں نے معاھدہ توڑا اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک بڑا سا پتھر پھینک کر انہیں قتل کرنے کی کوشش کی تواللہ تعالی نے نجات دی بعدمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چار ھجری میں ان کا محاصرہ کرکے انہیں خیبر کی طرف جلا وطن کردیا ۔
پانچ ھجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنومصطلق کی دشمنی ختم کرنے کے لیے ان پرچڑھائ کردی تواللہ تعالی نے ان کی مدد فرمائ اوران کے مال کوغنیمت اورانہیں قیدی بنایا ۔
پھر اس کے بعد یھودیوں کے زعماء نے مختلف قبائل اورگروہوں کومسلمانوں کے خلاف اکٹھا کیا تا کہ اسلام کو اس کے گھرمیں ہی ختم کردیا جائے تومدینہ کے گرد مشرک ، حبشی ، اورغطفان کے یھودی اکٹھے ہوگئے تواللہ تعالی نے ان کی سازشوں کونیست ونابود کے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد و نصرت فرمائ اسی کے بارہ میں فرمان باری تعالی ہے :
{ اوراللہ تعالی نے کافروں کوغصے میں بھرے ہوئے ہی ( نامراد ) واپس لوٹا دیا انہوں نے کوئ فائدہ نہیں پایا اور اس جنگ اللہ تعالی خود ہی مومنوں کوکافی ہوگيا اللہ تعالی بڑي قوتوں والا اور غالب ہے } الاحزاب ( 25 ) ۔
پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوقریظہ کا بھی ان کی غداری اورمعاھدہ توڑنے کی بنا پرمحاصرہ کیا تواللہ تعالی نے مدد فرمائ اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کوقتل اوراولاد کوغلام اورمال کوغنیمت بنا لیا ۔
اورچھ ھجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کی زيارت اورطواف کا قصد کیا لیکن مشرکوں نے انہیں روک دیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر دس سال تک لڑائ نہ کرنے پر صلح کی تا کہ اس میں لوگ امن حاصل کریں اورجوکچھ چاہیں اختیار کریں تواس کی بنا پرلوگ فوج درفوج اسلام میں داخل ہوئے ۔
سات ھجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر پرچڑھائ کردی تا کہ یھودی کا قلع قمع کیا جاسکے جنہوں نے مسلمانوں کا جینا دوبھر کررکھا تھا توان کا بھی محاصرہ کیا اوراللہ تعالی کی مدد سے مال ودولت اورزمین غنیمت میں حاصل ہوا ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری دنیامیں بادشاہوں کو خطوط لکھ کر اسلام کی دعوت دی ۔
آٹھ ھجری ميں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ کی قیادت میں ایک لشکر ترتیب دے کر حد سے تجاوز کرنے والوں کی سرکوبی کے ليے روانہ کیا لیکن رومیوں نے بہت عظیم لشکر جمع کیا اورمسلمانوں کے بڑے بڑے قائد شھید کر دیے گئے اورباقی مسلمانوں کواللہ تعالی نے ان کے شرسے محفوظ رکھا ۔
اس کے بعد مشرکین مکہ نے معاھدہ توڑدیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم لشکر لے کے ان کی سرکوبی کے لیے نکلے اورمکہ فتح ہوا توبیت اللہ بتوں اورکافروں سے پاک صاف ہوگیا ۔
پھرشوال آٹھ ھجری میں غزوہ حنین ہوا تاکہ ثقیف اورھوازن کو سبق سکھایا جائے تواللہ تعالی نے انہیں شکست سے دوچارکرکے مسلمانوں کو بہت سارے مال غنیمت سے نوازا ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے جا کر طائف کا محاصرہ کیا لیکن اللہ کے حکم سے اس کی فتح نہ ہو سکی تواللہ تعالی نے ان کے لیے دعا فرمائ اوروہاں سے چل پڑے تواہل طائف بعد میں مسلمان ہوگئے ، پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے اور مال غنیمت تقسیم کیا اور عمرہ کرنے کے بعد مدینہ کی طرف واپس نکل کھڑے ہوئے ۔
نوھجری کوسخت تنگ دستی اورشدید قسم کی گرمی کے موسم میں غزوہ تبوک ہوا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کی سرکوبی کے لیے تبوک کی طرف رواں دواں ہوئے اوروہاں پہنچ کرپڑاؤ کیا اورکسی سازش کا سامنا نہیں کرنا پڑا اوربعض قبائل کے ساتھ مصالحت ہوئ اورمال غنیمت لے کر مدینہ کی طرف واپس پلٹے ، تواس طرح غزوہ تبوک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری غزوہ ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بنفس نفیس شرکت فرمائ ۔
اوراسی سال قبائل کے وفود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اوراسلام میں داخل ہوتے گئے جن میں وفد بنی تمیم ، وفد طئ ، وفد عبدالقیس ، اوروفد بنوحنیفہ شامل ہیں جو سب کے سب مسلمان ہوگئے ۔
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ کواس سال حج کا امیر بنا کر لوگوں کے ساتھ روانہ کیا اوران کے ساتھ علی رضي اللہ تعالی عنہ کوبھی روانہ کیا اورانہیں کہا کہ وہ لوگوں پرسورۃ البراۃ کی تلاوت کریں تا کہ مشرکوں سے برات ہوسکے ، اورانہیں یہ حکم دیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کردیں ، توعلی رضي اللہ تعالی عنہ نے یوم النحر ( عیدالاضحی کے دن ) کویہ کہا :
ہے لوگو کوئ بھی کافر جنت میں نہیں داخل ہوسکتا اوراس سال کے بعدکوئ بھی مشرک حج کے لیے نہیں آسکتا اورنہ ہی بیت کا طواف ننگے ہوکر کیا جائے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جس کا بھی کوئ معاھدہ ہے وہ اپنی مدت تک رہے گا ۔
دس ھجری کونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا عزم کیا اورلوگوں کوبھی اس کی دعوت دی تومدینہ وغیرہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت سے خلقت حج کے لیے نکلی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی الحلیفہ سے احرام باندھا اورذی الحجہ کے مہینہ میں مکہ پہنچے اور طواف ، سعی اورلوگوں کو مناسک حج سکھائے اورعرفات میں ایک عظیم اورجامع خطبہ ارشاد فرمایا جس میں عادلانہ اسلامی احکامات مقرر کرتے ہوئے فرمایا:
( لوگو میری بات سنو مجھے علم نہیں ہوسکتا ہے کہ میں آئندہ برس تم سے نہ مل سکوں ، لوگو بلاشبہ تمہارا مال اورخون اورعزت تم پراسی طرح حرام ہے جس طرح کہ آج کا یہ دن اور یہ مہینہ اورتمہارا یہ شہر حرام ہے ، خبردار جاہلیت کے سارے امور میرے قدموں کے نیچے ہيں اوراسی طرح جاھلیت کا خون بھی ختم اورسب سے پہلا جوخون معاف کیا جاتا ہے وہ ابن ربیعہ بن حارث کا خون ہے جس نے بنو سعد میں دودھ پیا تھا تواسے ھذیل نے قتل کردیا میں اسے معاف کرتا ہوں ۔
اورجاہلیت کا سود بھی ختم ہے اورسب سے پہلا جو سود ختم کرتا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے بلاشبہ یہ سب کا سب ختم کردیا گيا ہے ، تم عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی سے ڈرتے رہو اس لیے کہ تم نے انہیں اللہ تعالی کی امان سے حاصل کیا ہے اوران کی شرمگاہوں کوتم نے اللہ تعالی کے کلمہ سے حلال کیا ہے ۔
اوران عورتوں پرتمہارا حق یہ ہے کہ جسے تم ناپسند کرتے ہووہ تمہارا بستر نہ روندے ، اوراگر وہ یہ کام کریں توتم انہیں ایسی مار ماروجو کہ زخمی نہ کرے اورہڈی نہ توڑے اور تم پر ان کا کھانے پینے اورلباس اوررہائش کا اچھے طریقے سے انتظام کرنا ہے ۔
اورمیں تم میں وہ چھوڑ رہا ہوں اگر تم اسے تھامے رکھوگے تو گمراہ نہيں ہوسکتے وہ کتاب اللہ ہے ، اورتم سے میرے بارہ میں سوال ہوگا تو تم کیا کہوگے ؟
صحابہ نے جواب دیا ہے ہم اس کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے یقینی طور پرپہنچا دیااورتبلیغ کردی اوران کا حق ادا کردیا اورپھرآپ نے نصیحت بھی کردی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھا کر کہنے لگے اوراسے لوگو کی طرف بھی کررہے تھے اے اللہ گواہ رہ اے اللہ گواہ رہ یہ تین بار کہا ۔
اورجب اللہ تعالی نے دین اسلام کومکمل کردیا اوراس کے اصول مقرر کردیے توعرفات میں اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پریہ فرمان نازل کیا :
{ آج ميں نے تہارے دین کو کامل کردیا ہے اور تم پراپنا انعام تمام کردیا ہے اورتمہارے لیے اسلام کے دین کے ہونے پر راضی ہوگیا ہوں } المائدۃ ( 3 ) ۔
اوراس حج کوحجۃ الوداع کا نام دیا جاتا ہے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حج کے موقع پرلوگوں الوداع کہا اوراس کے بعد آپ نے کوئ اورحج نہیں کیا پھر حج سے فارغ ہونے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لے آئے ۔
گیارہ ھجری صفر کے مہینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسملم کومرض شروع ہوا توجب مرض شدت اختیارکرگياتونبی صلی اللہ علیہ وسملم نے ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ کوحکم دیا کہ وہ لوگوں کونماز پڑھائيں ۔
اورربیع الاول میں مرض اورشدت اختیارکرگیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم بار12 ربیع الاول بروز سوموارچاشت کے وقت رفیق اعلی سے جاملے انا للہ وانا الیہ راجعون ، اس سے مسلمانوں کوبہت ہی زيادہ غم وحزن پہنچا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو منگل والے دن بدھ کی رات غسل دیا گيا اورمسلمانوں نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اورعائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے حجرہ میں دفن کردیاگیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم تواس دنیا سے جاچکے لیکن ان کا دین قیامت تک باقی رہے گا ۔
پھرمسلمانوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی غار اورھجرت میں ان کے رفیق ابوبکرصدیق رضي اللہ تعالی عنہ کوخلیفہ چنا اوران کے بعد مسند خلافت پرعمربن خطاب اورپھر عثمان غنی اوران کے بعد علی رضي اللہ تعالی عنہم اجمعین خلیفہ بنے ، اورانہیں خلفاء راشدا کانام دیا جاتا ہے اوریہی خلفاء راشدین المھدیین ہيں ۔
اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت ساری نمعتوں کے ساتھ احسان کیا ہے اورانہیں اخلاق کریمہ کی وصیت اوردرس دیا جس طرح کہ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
{ کیا اس نے آپ کویتیم پاکر جگہ نہیں دی ؟ اورتجھے راہ سے بھولا ہوا پاکرھدایت نہیں دی ؟ اورتجھے نادار پاکر تونگر نہیں بنایا ؟ پس یتیم پرتو بھی سختی نہ کیا کر ، اورنہ سوال کرنے والے کوڈانٹ ڈپٹ ، اور اپنے رب کی نعمتوں کوبیان کرتا رہ } الضحی ( 6 – 11 ) ۔
اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسے اخلاق عظیمہ سے نوازا جو کہ ان کےعلاوہ کسی اورمیں نہیں پائے جاتے حتی کہ اس کی تعریف رب العزت نے کچھ اس طرح فرمائ ہے :
{ اوربلاشبہ آّپ توخلق عظیم کے مالک ہيں } القلم ( 4 ) ۔
تواس اخلاق کریمہ اورصفات حمیدہ کی بنا پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگو کے دلوں میں اپنے رب کے حکم سے الفت ومحبت ڈال دی اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اللہ تعالی کی رحمت کے باعث آّپ ان پر نرم دل ہیں اوراگر آپ بدزبان اورسخت دل ہوتے تویہ سب آپ کے پاس سے دورچلے جاتے توآّپ ان سے درگزر کریں اوران کے لیے استغفار کریں پھرجب آپ کا پختہ ارادہ ہوجائے تو اللہ تعالی پربھروسہ کریں بلا شبہ اللہ تعالی توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے } آل عمران ( 159 ) ۔
اوراللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوسب لوگوں کی طرف رسول بناکرمبعوث کیا اوران پرقرآن مجید نازل فرماکر دعوت الی کا حکم دیا جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں فرمایا ہے :
{ اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) یقینا ہم نے آّپ کو (رسول بنا کر) گواہیاں دینے والا ، خوشخبریاں سنانےوالا اورآگاہ کرنے والا بھیجا ہے ، اوراللہ تعالی کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا روشن چراغ } الاحزاب ( 45 - 46 ) ۔
اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کودوسرے انبیاء پرچھ فضائل سے نوازا ہے جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( مجھے دوسرے انبیاء پرچھ چيزوں کے ساتھ فضیلت دی گئ ہے ، مجھے جوامع الکلم دیے گئے ہیں ، اورمیری رعب و دبدبہ کے ساتھ مدد کی گئ ہے ، اورمیرے لیے غنیمت حلال کی گئ ہے ، اورمیرے لیے زمین پاک اورمسجد بنائ گئ ہے ، اور میں سب لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گيا ہوں ، اور میرے ساتھ نبوت کا خاتمہ کیا گيا ہے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 523 ) ۔
تواس لیے سب لوگوں پرواجب ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لائيں اوران کی شریعت کی اتباع کریں تا کہ انہیں جنت میں داخلہ مل سکے فرمان باری تعالی ہے :
{ اورجواللہ تعالی کی اوراس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کرے گا اسےاللہ تعالی جنتوں میں لے جائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت ہی بڑی عظیم کامیابی ہے } النساء ( 13 ) ۔
اہل کتاب میں سے جوبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لائے اللہ تعالی نے اس کی تعریف کی اوراسے اجرعظیم کی خوشخبری سنائ ہے جس طرح کہ اس فرمان میں ہے :
{ جن کو ہم نے اس سے پہلے کتاب عنائت فرمائ وہ اس پربھی ایمان رکھتے ہیں ، اورجب اس کی آيات ان کے پاس پڑھی جاتي ہیں تووہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا ایمان ہے کہ یہ ہمارے رب کی طرف سے حق ہیں تم تو اس سے پہلے ہی مسلمان ہیں ، یہ اپنے کیے ہوئے صبر کے بدلے میں دوہرا اجر دیئے جائيں گے ، یہ نیکی سے بدی کوٹال دیتے ہیں اورہم نے انہیں جوکچھ دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہتے ہیں } القصص ( 52- 54 ) ۔
اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( تین قسم کے لوگوں کودوہرا اجر دیا جائے گا ، اہل کتاب میں سے وہ شخص جو اپنے نبی پرایمان لایا اورنبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوپایا توان پربھی ایمان لایا اوراس کی اتباع اورتصدیق کی تواسے درہرا اجر ہے ۔ الخ ) ۔
اورجوبھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لاتا وہ کافر ہے ، اورکافر کی سزا جہنم ہے جس طرح کہ اللہ تعالی نے فرمایا :
{ اورجوبھی اللہ تعالی اوراس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پرایمان نہیں رکھتا توہم نے بھی ایسے کافروں کے لیے دہکتی ہوئ آگ تیار کررکھی ہے } الفتح ( 13 ) ۔
اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
( اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جان ہے کسی نصرانی اوریھودی تک میری دعوت پہنچے اوروہ اس پرایمان نہ لائے جو مجھے دے کر بھیجا گيا ہے اوروہ اسی حالت میں مرجائے توجہنمی ہے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 154 ) ۔
بعض اوقات مسلمان دوسروں کی نظروں اوراپنے دین پر عمل کرنے کی بنا پر ایذا و تکلیف سے دوچار ہوتے ہيں ، لیکن انہیں جتنی بھی اذیت آئے تکالیف آئيں ان کے لیے کسی بھی صورت میں یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے اندر ہی ذلیل ہوں اوراسلام کوناپسند کرنا شروع کردیں ۔
بلکہ وہ تو اس میں صبر کرتے ہيں اوراللہ تعالی کے لیے اوراس کے راستے میں ہی اسے برداشت بھی کرتے ہوئے اس کے اجروثواب کی نیت رکھتے ہیں ۔
ان کے مالک ورب و الہ کا فرمان ہے :
{ تم نہ توسستی کرو اورنہ ہی غمگین ہو تم ہی غالب رہوگے اگر تم ایمان دار ہو } آل عمران ( 139 ) ۔
اوربعض کفار جوکچھ مسلمانوں کے ساتھ کرتے ہیں وہ تین اسباب میں سے ایک سبب کی بنا پر ہے :
یا تووہ کافر اسلام اوراس کی عظمت سے جاھل ہے اوراسے یہ علم نہيں کہ دین اسلام ہی دین حق ہے تواس جھالت کی بنا وہ مسلمانوں کو اذیت وتکلیف دیتا ہے ۔
یا پھر اسے یہ علم ہے کہ دین اسلام ہی دین حق ہے لیکن وہ دشمنی و عناد اورتکبر کی بنا پر مسلمانوں کو اذیت دیتا ہے ۔
اوریا پھر اسے اسلام اورمسلمانوں کی فضیلت کا علم ہے لیکن وہ یہ کام اسلام اورمسلمانوں سے حسد کی وجہ سے کرتا ہے ۔
اوراس کے باوجود مسلمان اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ دین اسلام عزت و کرامت کا دین ہے اوردنیا وآخرت میں یہی دین رفعت وبلندی ہے جو بھی اس پرعمل پیرا ہوگا اللہ تعالی اسے عزت و بلندی عطا کرے گا اورجواس سے پیچھے ہٹے گا تو وہ صرف اپنے آپ کوہی نقصان پہنچائے گا ۔
ہمیں اسلام نے تعلیمات دیتے ہوئے یہ تعلیم بھی دی ہے ہم مسلمان ہی قوی اور عزت والے ہوں گے ، اوراسی کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :
( قوت والا مومن اللہ تعالی کے ہاں ایک ضعیف اورکمزور مومن کے مقابلہ میں زیادہ محبوب اوربہتر ہے اورخیرو بھلائ تودونوں میں ہے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 4816 ) ۔
ہمیں اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ : ہم میں سے بڑے چھوٹوں پر رحم کریں اوران کے ساتھ رحمدلی سے پیش آئيں ۔
اس کا حکم دیتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جو چھوٹوں پررحم اوربڑوں کی عزت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1842 ) اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ترمذی ( 1565 ) میں اسے صحیح کہا ہے ۔
اورہمیں اسلام یہ بھی حکم دیتا ہے کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بھی رحمدلی سے پیش آئيں اوراس کے مقابلہ میں ہم کفار پر سخت ہوں اوران کے ساتھ شدت سے پیش آئيں ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :
{ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے رسول ہیں اورجولوگ ان کے ساتھ ہيں وہ کفار پر تو بہت ہی سخت ہیں اورآپس میں بہت ہی نرمی کرنے والے رحمدل ہيں } الفتح ( 29 )
اورہمارا دین ہمیں یہ اجازت دیتا ہے کہ ہم یھودیوں اورعیسائيوں کی عورتوں سے شادی کرلیں لیکن یہ جائز نہیں کہ ہم یھودیوں اورعیسائیوں کو اپنی بیٹیاں دیں ۔
اس لیے کہ یھودی اورعیسائ ہم سے کم مرتبہ رکھتے ہیں اورہماری عورتیں ان سے اعلی درجہ رکھتی ہيں ، اوراس لیے نیچے والا اوپروالے سے بلند نہیں نہیں ہوسکتا ، اوراسلام علوبلندی والا ہے اس کے اوپر کوئ نہيں جاسکتا ، اورہم ان کے انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں لیکن وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہيں رکھتے ۔
ہمیں ہمارا دین یہ حکم دیتا ہے کہ ہم انہيں جزیرہ عربیہ نے نکال باہر کریں اوران میں سے کسی ایک کوبھی نہ رہنے دیں اس لیے کہ جزیرہ عربیہ رسالت کی سرزمین ہے اس لیے یہ جائز نہیں کہ ہم اسے کفار کی نجاستوں سے گندہ کریں ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جزیرہ عربیہ سے مشرکوں کو نکال دو ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2932 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 3089 ) ۔
اورہمارا دین ہمیں یھود ونصاری کے برتنوں میں کھانے سے منع کرتا ہے لیکن اگر ان کے علاوہ کوئ اوربرتن نہ ملیں تو ہم اسے اچھی طرح دھونے کے بعد استعمال کرسکتے ہیں ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اہل کتاب کے برتنوں کے بارہ میں پوچھا گیا توآپ نےفرمایا :
( اگرتم ان کے برتنوں کےعلاوہ کوئ اوربرتن حاصل کرلوتوان کے برتنوں میں نہ کھاؤ اوراگر ان کے علاوہ کوئ اوربرتن نہ مل سکیں توانہيں دھو کر ان میں کھا لیا کرو ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5056 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 3567 ) اورمندرجہ بالاالفاظ مسلم کے ہیں ۔
ہمیں ہمارا دین حنیف اس سے منع کرتا ہے کہ ہم لباس میں کفارسے مشابہت اختیار کریں اور یا پھر کھانے پینے اور عادات میں ان کی تقلید اورنقل کریں ، اس لیے کہ ہمارا مرتبہ کفار سےاونچا ہے اورکفار ہم سے نیچے ہیں ، اوراصول یہ ہے کہ بلندی والا نچلے درجے والے کی مشابہت اختیار نہیں کرتا ۔
بلکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تواس بات کی وعید سنائ ہے کہ جوبھی کفار سے مشابھت اختیارکرے گا وہ ان کے ساتھ جہنم میں جائے گا اوریہ جگہ بہت ہی بری ہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جوبھی کسی قوم سے مشابھت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہے ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 3512 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے دیکھیں صحیح ابوداود حديث نمبر ( 3401 ) ۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ قدرت و استطاعت رکھتے ہوئے کفار سے جنگ و لڑائ کریں اوران کے ممالک پر چڑھائ اورحملے کريں اوران پرحملہ کرنے سے قبل تین اختیارات دیں یا تواسلام قبول کرلیں تووہ ہماری طرح ہوں کے جوہمارے حقو ق ہیں وہی ان کے ہوں گے۔
یا پھر ذلیل ورسوا ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ ( ٹیکس ) دیں ، اوریا پھر لڑائ کریں جس سے ان کے خون و مال اور اولاد اورسرزمین حلال ہوجائے گی اوروہ مسلمانوں کے لیے مال غنیمت بنے گا ۔
بلاشبہ دین اسلام آسمانی دین ہے جوبندے اوراس کے رب کے درمیان بلاواسطہ تعلق قائم کرتا ہے تو بندہ جب چاہے اپنے رب کی عبادت کرے اورجب چاہے اسے پکارے اس لیے کہ وہ اپنے رب سے عبادت کا رابطہ قائم کيئے ہوئے ہے اوراس کی طرف متوجہ ہے اوراس کے سامنے ہی گریہ زاری کرتا ہے جوکسی بھی درویش وراھب و پیر وفقیر کے واسطے کا محتاج نہیں ! ! ۔
اورنہ ہی پیروں فقیروں کی کرامتوں کا محتا ج ہے بلکہ اللہ واحد قہار کے ساتھ بلاواسطہ متوجہ ہوا جاتا ہے ۔
اورجوکچھ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں پر یھودو نصاری کا تسلط ہے اس کا سبب مسلمانوں کا اپنے دین پر عمل کرنے میں سستی اورجہاد فی سبیل اللہ کی تیاری کا ترک کرنا اوردنیا کے مال متاع سے محبت ہے جس نے ان کے دلوں سے اللہ تعالی اوردار آخرت کی محبت ختم کر ڈالی ہے ۔
اس لیے آپ دیکھتےکہ آج مسلمانوں کا خون بلاقدروقیمت اوربلادریغ بہایا جارہا ہے ان کے گھربغیر کسی قیمت کےمنھدم کیے جارہے ہیں اوران کی روحیں تلکلیفیں جھیل رہی ہيں ۔
اوراللہ تعالی نے تو سچ کہا ہے کہ :
{ تمہیں جوبھی مصیبتیں آتی ہيں وہ تمہار ھاتھ کی کمائ ہے اوراللہ تعالی بہت سی معاف بھی کردیتا ہے } ۔
آج جوذلت و رسوائ ملی ہے وہ ہم مسلمانوں نےخود ہی کمائ ہے نہ کہ اس کا سبب اسلام ہے لیکن جب ہم اپنے دین کی طرف پلٹ آئيں گے توہماری عزت ومرتبہ بھی واپس لوٹ آئے گی ۔
سورة الاٴنعَام
کہہ کہ (لوگو) آؤ میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے پروردگار نے تم پر حرام کر دی ہیں (ان کی نسبت اس نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے) کہ کسی چیز کو خدا کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ سے بدسلوکی نہ کرنا بلکہ سلوک کرتے رہنا اور ناداری (کے اندیشے) سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا کیونکہ تم کو اور ان کو ہم ہی رزق دیتے ہیں اور بےحیائی کے کام ظاہر ہوں یا پوشیدہ ان کے پاس نہ پھٹکنا اور کسی جان (والے) کو جس کے قتل کو خدا نے حرام کر دیا ہے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی جس کا شریعت حکم دے) ان باتوں کا وہ تمہیں ارشاد فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو (۱۵۱) ۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم
بنواسرائيل میں اختلاف پیدا ہوا اورانہوں نے اپنے عقیدے اورشریعت میں تبدیلی اورتحریف کرڈالی توحق مٹ گيا اورباطل کاظہورہونے لگا اورظلم وستم اورفساد کا دوردوراہوا امت اورانسانیت کوایسے دین کی ضرورت محسوس ہوئ جو حق کوحق اورباطل کومٹائے اورلوگوں کوسراط مستقیم کی طرف چلائے تو رحمت الہی جوش میں آئ اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کومبعوث فرمایا :
اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :
{ اس کتاب کوہم نے آپ پراس لیے اتارا ہے کہ آپ ان کے لیے ہر اس چيزکو واضح کردیں جس میں وہ اختلاف کر رہے ہیں اور یہ ایمان داروں کے لیے راہنمائ اوررحمت ہے } النحل ( 64 ) ۔
اللہ تبارک وتعالی نے سب انبیاء ورسل اس لیے مبعوث فرمائے تا کہ وہ اللہ وحدہ کی عبادت کی دعوت دیں اورلوگوں کواندھیروں سے نور ھدایت کی طرف نکالیں ، توان میں سب سے پہلے نوح علیہ السلام اورآخری محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے :
{ ہم نے ہرامت میں رسول بھیجا کہ ( لوگو) صرف اللہ وحدہ کی عبادت کرو اورطاغوت سے بچو } النحل ( 36 ) ۔
اورانبیاءورسل میں آخر اورخاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے بعد کوئ نبی نہیں ۔
اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
{ ( لوگو) تمہارے مردوں میں سے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ تعالی کے رسول اور خاتم النبیین ہیں } الاحزاب (40)
اورہرنبی خاص طورپراس کی اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا لیکن اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوسب لوگوں کی طرف عام بھیجا گيا ہے جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
{ اورہم نے آپ کوتمام لوگوں کے لیے خوشخبریاں سنانے والا اورڈرانے والا بنا کربھیجا ہے لیکن لوگوں کی اکثریت اسے کا علم نہیں رکھتی } سبا ( 28 ) ۔
اوراللہ تبارک وتعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پرقرآن مجید نازل فرمایا تا کہ وہ انہیں ان کے رب کےحکم سے اندھیروں سے نوراسلام کی روشنی کی طرف نکالیں ۔
اللہ عزوجل نے فرمایا :
{ الر یہ عالی شان کتاب ہم نے آّپ کی طرف اس لیے اتاری ہے کہ آّپ لوگوں کوان کے رب کے حکم سےاندھیروں سے اجالے اورروشنی کی طرف لائيں ، زبردست اورتعریفوں والے اللہ کے راہ کی طرف } ابراھیم ( 1 ) ۔
محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب الھاشمی قریشی عام فیل جس میں ہاتھیوں والے کعبہ منھدم کرنے آئے تھے تواللہ تعالی نے انہيں نیست نابود کردیا میں مکہ مکرمہ کے علاقہ میں پیدا ہوئے ۔
آّپ ابھی ماں کے پیٹ میں ہی تھے توان کے والد کا انتقال ہوگيا اورآپ یتیمی کی حالت میں پیدا ہوئے اورانہیں حلیمہ سعدیہ نے دودھ پلایا ، پھر والد آمنہ بنت وھب کے ساتھ اپنے مامووں کی زيارت کے لیے مدینہ آئے اورمدینہ سے مکہ واپس آتے ہوئے راستے میں ابواء نامی جگہ پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ فوت ہوگئيں اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وقت عمر چھ برس تھی ، اس کے بعد دادا عبدالمطلب نے کفالت کا ذمہ لیا اور جب دادا فوت ہوا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر صرف آٹھ برس تھی ۔
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت ان کے چچا ابوطالب نے لے لی تووہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نگہبانی اورپرورش کرنے لگے اوران کی عزت وتکریم کرتے اورچالیس برس سےبھی زيادہ دفاع بھی کیا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا ابوطالب اس ڈرسے کہ آباء واجدادکے دین کوترک کرنے پر قریش اسے عار دلائيں گے اسلام قبول کیے بغیر ہی فوت ہوا ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹی عمرمیں مکہ والوں کی بکریا چرایا کرتے تھے ، پھر خدیجہ بنت خویلد رضي اللہ تعالی عنہا کا مال تجارت لے کر شام کی طرف گئے جس میں بہت زیادہ نفع ہوا ، اور خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائ وامانت ودیانت اوراخلاق بہت پسند آيا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کرلی اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پچیس برس اور خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کی عمرچالیس برس تھی ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کی زندگی میں اورکوئ شادی نہیں کی ۔
اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اچھی پرورش فرمائ اوراحسن وبہتر ادب سکھایا ، ان کی تربیت فرماکر انہیں علم وتعلیم سے نوازا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اخلاقی و پیدائشی اعتبارسے قوم میں سے احسن واعلی قرارپائے ، اورعظیم مروؤت اوروسیع حلم بردباری اوربات کے پکے اورسچے اورامانت کی سب سے زیادہ حفاظت کرنے والے تھے جس کی بنا پرقریش انہیں صادق اورامین کے لقب سے پکارتے رہے ۔
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوخلوت پسند ہونے لگی تووہ غار حراء میں کئ کئ دن رات گوشہ نشین رہ کراپنے رب کی عبادت بجالاتے اوراس سے دعائيں کرتے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بتوں ، شراب اوراخلاق رذیلہ سے نفرت اوربغض رکھتے اورپوری زندگی ان کی طرف التفات بھی نہیں فرمایا ۔
اورجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پینتیس 35 برس کی عمر کوپہنچے توسیلاب کی بناپرکعبہ کی دیواریں خستہ حال ہونے کی بنا پرقریش نے اس کی تعمیر نوکی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس میں شریک ہوئے ، جب حجر اسود کا مسئلہ آيا توقریش آپس میں اختلاف کرنے لگے جس میں انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم اورفیصل مانا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک چادرمنگوا کراس میں حجراسود رکھا پھر قبائل کے سرداروں کوحکم دیا کہ وہ اس کے کونے پکڑيں تواس طرح ان سب نے اسے اٹھایا اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے حجراسود کواس جگہ پرلگا دیا اوراس پر دیورا بنائ گئ اوراس طرح سب کے سب راضی ہوئے اورجھگڑا ختم ہوا ۔
اہل جاھلیت میں کچھ اچھی خصلت بھی تھیں مثلا کرم وفا اورشجاعت وبہادری ، اورکچھ دین ابراھیم علیہ السلام کے بقایا مثلا بیت اللہ کی تعظیم اورطواف ، حج اورعمرہ ، اورقربانی ذبح کرنی وغیر بھی موجود تھیں ۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی خصیص اورذمیم گندی خصلتیں بھی ان میں موجود تھیں ، مثلا زنا ، شراب نوشی ، سود خوری ، لڑکیوں کوزنددرگور کرنا ، ظلم وستم ، اورسب سے قبیح اورشنیع کام بتوں کی عبادت تھی ۔
دینی ابراھیم میں تبدیلی کرنے اوربتوں کی عبادت کرنے کی دعوت دینے والا سب سے پہلا شخص عمروبن لحیی الخزاعی تھا جس نے مکہ مکرمہ وغیرہ میں بت درآمد کیے اورلوگوں کوان بتوں کی عبادت کی طرف دعوت دی ان بتوں میں ود ، سواع ، یغوث ، یعوق ، اورنسر شامل ہیں ۔
اس کے بعد عربوں نے کئ اوربھی بت بنالیے جن کی عبادت کرنے لگے وادی قدید میں مناۃ ، اور وادی نخلہ میں عزي اورکعبہ کے اندر ھبل اورکعبہ کے ارد گرد بھی بت ہی بت اورلوگوں نے اپنے گھروں میں بھی بت رکھے ہوئے تھے اورلوگ اپنے فیصلے کاہنوں نجومیوں جادوگروں سے کرواتے ۔
جب اس صورت میں شرک وفساد عام ہوچکا تھا تواللہ تعالی نے اپنے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوان حالات میں مبعوث فرمایا توان کی عمر چالیس برس تھی بعثت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کوایک اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی طرف بلانے اوربتوں عبادت کوترک کرنے کي دعوت دینا شروع کی توقریش مکہ نے اس کا انکار کیا اورکہنے لگے :
{ کیا اس نے سب معبودوں کو ایک ہی معبودبنا دیا ہے بلا شبہ یہ تو بہت ہی عجیب سی چيز ہے } ص ( 5 ) ۔
تواس طرح ان بتوں کی اللہ تعالی کے علاوہ عبادت کی جانے لگي حتی کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوتوحید اسلام دے کرمبعوث فرمایا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام نے ان بتوں کوتوڑ کرنیت ونابود کیا توحق غالب اورباطل جاتا رہا ۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :
{ اورآپ کہہ دیجیئے کہ حق غالب ہوگيا اورباطل جاتا رہا اورپھرباطل توہے ہی مٹنے والا } الاسراء ( 81 ) ۔
توجب سب سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرغارحراء جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم وسلم عبادت کیا کرتےتھے فرشتہ آیا اوراس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوپڑھنے کا حکم دیا تورسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں توپڑھنا نہیں جانتا توفرشتے نے تکرار سے کئ بارکہا اورتیسری بار یہ وحی نازل ہوئ فرمان باری تعالی ہے :
{ اپنے رب کے نام سے پڑھو جس نے پیدا فرمایا ، جس نے انسان کوخون کے لوتھڑے سے پیدا فرمایا ، توپڑھ۔ اورتیرا رب بڑے کرم والا ہے ، جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا } العلق ( 1 - 4 ) ۔
تواس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم غارحراء سے واپس لوٹے توآپ کپکپاتے ہوئے اپنی بیوي خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کے پاس آئے اورانہیں سارا قصہ سنایا اورکہنے لگے مجھے تواپنی جان کاخطرہ محسوس ہورہا ہے تووہ انہیں اطمنان دلاتے ہوئے کہنے لگيں :
اللہ تعالی کی قسم اللہ تعالی آّپ کوکبھی بھی رسوا نہیں کرے گا ۔
اللہ کی قسم آپ توصلہ رحمی اور سچی بات کرتے ہیں ، اورآپ کمزوراور ضعیف لوگوں کا بوجھ اٹھاتے اورفقیر کی مدد کرتے اورمہمان کی مہان نوازی کرتے اور حق کی مدد کرتے ہیں ۔
توخدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا انہں لے کر چچازاد ورقہ بن نوفل کے پاس گئيں جو کہ جاھلیت میں نصرانی ہوگیا تھا ، جب انہوں ورقہ سے سارا قصہ بیان کیا تواس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوخوشخبری دیتے ہوئے کہا :
یہ تووہی پاکباز ناموس ہے جو موسی علیہ السلام پرنازل ہوا کرتا تھا ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کوتلقین کہ جب انہیں ان کی قوم اذيت دیں اورانہیں وہاں سے نکال دیں تو وہ صبر سے کام لیں ۔
اور وحی کچھ۔ مدت کے لیے رک گئ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم غمگین ہوگئے ۔
وہ ایک دن چل رہےتھے تواچانک ایک بار پھر آسمان وزمین کے درمیان فرشتے کودیکھا توگھرواپس آ کر چادر اوڑھ لی تواللہ تعالی نے یہ آيات نازل فرمائيں
{ اے کپڑا اوڑھنے والے ! کھڑا ہوجا اورآگاہ کردے ، اوراپنے رب کی بڑائياں بیان کر ، اوراپنے کپڑوں کوپاک صاف رکھا کر، اورناپاکی کوچھوڑ دے } المدثر( 1-4 ) ۔
پھر اس کے بعد وحی کا سلسلہ چل نکلا اورمسلسل وحی آتی رہی ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تیرہ برس تک اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی دعوت خاموشی سےدیتے رہے پھرا للہ تعالی نے کھل کراورظاہری دعوت دینے کا حکم نازل فرمایا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نرمی اوربڑے پیارسے لڑآئ وقتال کے بغیر حق کی دعوت دینی شروع کی اورسب سے پہلے اپنے عزیز اقارب اورپھر ان کے ارد گرد والے لوگوں کو اورپھر سب عرب کو اورپھر اس کے بعد پوری دنیا کے لوگوں کوحق کی دعوت دی ۔
اللہ تعالی نے دعوت حقہ کوظاہرکرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا :
{ جس کا آپ کوحکم دیا گيا ہے اسے کھول کرسنا دیں اورمشرکوں سے اعراض کرتے رہيں } الحجر ( 94 ) ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لانے والوں میں غنی اورشرف والے اورکمزورو ضعیف ، فقراء اور تھوڑے سے مردوعورتیں شامل تھیں ، ان سب کودین اسلام کی بنا پر اذیتیں دی گئيں اوربعض کوتو قتل بھی کردیا گیا ، اورکچھ نے حبشہ کی طرف ھجرت کی تاکہ قریش کی اذيت سے فرار ہوں اورچھٹکارا حاصل ہوسکے ، اور ان کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی اذیت سے دوچارکیا گيا حتی کہ اللہ تعالی نے دین اسلام کوغلبہ عطا کیا ۔
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرپچاس برس کی ہوئ اوربعثت کودس برس گذرگئے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کےچچا ابوطالب جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حمایت کرتا اورقریش کی اذیت وتکالیف سے بچاؤ تھا اس دنیا سے کوچ کرگیا ، پھر آّپ کی غمخوار بیوی خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا بھی اس دنیا سے اسی سال رخصت ہوگئيں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم پراذیتوں کے پہاڑٹوٹ پڑے اورقریش کی جرات اوربڑھ گئ جو کہ ابوطالب کے ہوتے ہوئے کچھ نہیں کرسکتے تھے اب ہرطرح کی تکلیف دینے لگے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اجروثواب کی نیت کرتے ہوئے صبر سے کام لیا ۔
لیکن جب قریش کی اذیت وتکالیف اورجرات میں اضافہ ہوا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے طائف کی جانب نکلے اوروہاں کے لوگوں کودعوت توحید دی لیکن کسی نے بھی وہ دعوت قبول نہ کی بلکہ الٹا اذيت و تکلیف دی اورپتھر برسائے حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں خوں الود ہوگئے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ واپس آکر حج وغیرہ کے موسم میں لوگوں کواسلام کی دعوت دینے میں مصروف ہوگئے ۔
پھر اللہ تعالی نے مسجد حرام سے لیکر مسجد اقصی تک براق پرسوار کر کے جبریل امین کی صحبت میں معراج کرائ اوروہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء کرام کونمازپڑھائ اورپھر انہیں آسمان دنیا پرلےجایا گيا جہاں انہوں نے آدم علیہ السلام اوراچھے اورسعادت مند لوگوں کی روحوں کوان کے دائيں جانب اور بدبخت اورشقی لوگوں کی روحوں کوان کے بائيں جانب دیکھا ۔
پھر دوسرے آسمان پرلےجائےگئے تووہاں عیسی اوریحیی علیہم السلام اورتیسرے آسمان میں یوسف علیہ السلام اورچھوتھے آسمان میں ادریس علیہ السلام اورپانچویں میں ھارون علیہ السلام اورچھٹےمیں موسی علیہ السلام اورساتویں میں ابراھیم علیہ السلام کودیکھا پھر انہیں سدرۃ المنتہی تک لے جايا گيا اوراس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رب نے ان سے کلام فرمائ اوران کی امت پردن رات میں پچاس نمازيں فرض کیں ، پھر اس میں تخفیف کرکے پانچ رکھیں لیکن اجر پچاس کا ہے رہنے دیا ۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر اللہ تعالی کے فضل کرم سے پانچ نمازوں پراستقرار ہوا ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح ہونے سے قبل ہی مکہ واپس تشریف لائے توجوکچھ رات ہوا تھا اس کا قصہ ان کے سامنے بیان کیا ،تومومنوں نے اس کی تصدیق اور کافروں نے تکذیب کی ، اسی معراج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے :
{ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کورات کے کچھ حصہ میں مسجد حرام سے مسجد تک کی سیر کرائ جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں کررکھیں ہں تاکہ ہم اپنی آیات دکھلائيں بلاشبہ وہ اللہ سننےاوردیکھنے والا ہے } الاسراء ( 1 )۔
پھر اللہ تعالی نے ایسے لوگ مہیا اورتیارکردیے جوکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد ونصرت کریں توموسم حج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے خزرج قبیلہ کے کچھ لوگوں سے ملے تووہ اسلام لائے اور مدینہ واپس جاکر اسلام کوپھیلایا اوردوسرے سال پھرموسم حج میں دس سے کچھ زيادہ آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوملے اورجب وہ واپس جانے لگے تونبی صلی اللہ علیہ وسمل نے ان کے ساتھ مصعب بن عمیررضي اللہ تعالی عنہ کوروانہ کیا تا کہ وہ لوگوں کوقرآن مجید کی تعلیم دیں اورانہیں اسلام سکھائيں تواس طرح مصعب رضي اللہ تعالی عنہ کے ھاتھو ں بہت سی خلقت مسلمان بن کراسلام میں داخل ہوئ جن میں قبیلہ اوس کے زعماء سعد بن معاذ اور اسید بن حضير رضي اللہ تعالی عنہم شامل تھے ۔
اس کے بعد آئندہ برس موسم حج میں اوس اورخزرج میں سے ستر70 سے زائد افراد آئے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کومدینہ ھجرت کر آنے کی دعوت دی کیونکہ اہل مکہ نے ان سے بائیکاٹ کیا اورانہیں تکالیف دے رکھی تھیں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے وعدہ فرمایا کہ میں تم سے ایام تشریق کی کسی رات عقبہ کے پاس ملوں گا ۔
جب رات کا تیسرا حصہ گذر گيا تووہ وعدہ کی جگہ پرآئے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے چجا عباس رضي اللہ تعالی عنہ کے ساتھ موجود پایا عباس رضي اللہ تعالی اس وقت مسلمان تونہیں ہوئے تھے لیکن ان کی خواہش تھی کہ وہ بھتیجے کے اس معاملے میں ان ساتھ لازمی رہیں ، توعباس رضی اللہ تعالی عنہ نے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اوراسی طرح قوم نے بھی اچھی بات چیت کی ، پھر انہوں نے اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ھجرت کریں تو وہ ان کی مدد اوران کا دفاع کریں گے تو انہیں جنت ملے گی توہر ایک نے اس پربیعت کی اوراس کے بعد وہاں سے چلے گئے ۔
'اس کے بعد پھر قریش کو اس کا علم ہوا توانہوں نے انہیں پکڑنے کے لیےان کا پیچھا کیا لیکن اللہ تعالی نے انہیں نجات دی اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ مدت تک مکہ میں رہے ۔
فرمان باری تعالی ہے :
{ اوریقینا اللہ تعالی بھی اس کی مدد و نصرت کرے گا جواس کی مدد کرتا ہے بلاشبہ اللہ تعالی قوی اورغالب ہے } الحج ( 40 ) ۔
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کومدینہ ھجرت کرنے کا حکم دیا توانہوں نے ھجرت کی لیکن کچھ کومکہ کے مشرکوں نے روک دیا ، اورپھر مکہ میں صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورابوبکر ، علی رضی اللہ تعالی عنہ باقی بچے جب اہل مکہ کوصحابہ کرام کی ھجرت کا علم ہوا تووہ اس سے خوفزدہ ہوئے کہ اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ جا ملیں گے لھذا انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کرنے کی سازش تیار کی ، تواللہ تعالی نے جبریل علیہ السلام کو بیھج کر اس کی خ۔بر کردی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضي اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کہ وہ ان کے بستر پررات گزاریں اوران امانتوں کوجو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں واپس لوٹائيں ۔
تواس طرح مشرکین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پرکھڑے پہرہ دیتے رہے تا کہ انہیں قتل کیا جائے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان سے ہی نکل کرابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ کے گھر پہنچے تواس طرح اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوان کی مکروفریب اورسازشوں سے محفوظ رکھا ، اللہ تعالی نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :
{ اورجب کافرآپ کے خلاف سازشیں کررہے تھے کہ آپ کوقید کردیں یا پھرقتل کردیں اوریاجلاوطن کردیں وہ توسازشیں کررہیں ہیں اوراللہ تعالی بھی تدبیرکررہا ہے اوراللہ تعالی سب سے بہتر تدبیرکرنے والا ہے } الانفال ( 30 ) ۔
پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ھجرت کا عزم کیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اورابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ غارثور کی طرف جانکلے اوراس میں تین راتیں ٹھرے اورعبداللہ بن ابی اریقط کواجرت دے کر حاصل کیا تا کہ وہ انہیں راستہ بتائے جو کہ اس وقت مشرک تھا اپنی دونوں سواریاں بھی اس کے سپرد کردیں ۔
تواس طرح قریش میں کھلبلی مچ گئ کہ یہ کیا ہوا انہوں نے ہرجگہ تلاش کیا لیکن اللہ تعالی نے ان کی حفاظت فرمائ اورکفار سے محفوظ رکھا جب تلاش ٹھنڈی پڑ گئ تووہ دونوں مدینہ کی طرف چل نکلے جب قریش پرمایوسی چھا گئ توانہوں نے انعام کا اعلان کہ جو بھی ان دونو ں یا کسی ایک کو پکڑ لائے اسے دو سو اونٹ دیے جائيں گے تولوگ مدینہ کے راہ پر انہیں تلاش کرنے لگے ، سراقہ بن مالک کو علم ہوا جوکہ مشرک تھا تو اس نے انہیں پکڑنے کی کوشش کی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خلاف دعا کی جس پراس کا گھوڑا گھٹنوں تک زمین میں دھنس گیا تواسے علم ہوگياکہ انہیں پکڑا نہیں جاسکتا تواس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی اپیل کی اورکہا کہ میں انہیں کوئ نقصان نہیں پہنچاؤں گا اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائ توسراقہ واپس آگیا اوردوسروں کو بھی روکنے لگا پھر فتح مکہ کے بعدسراقہ بن مالک رضي اللہ تعالی عنہ مسلمان ہوگئے ۔
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تومسلمانوں کوان کے آنے کی بہت زيادہ خوشی ہوئ اورانہوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا اورمردوں اورعورتوں اوربچوں خوشی اورفرحت سے نے ان کا استقبال کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم قباء میں ٹھرے اوروہاں پرمسلمانوں کے ساتھ مل کر مسجد قبا کی بنیاد رکھی اوروہاں دس راتوں سے زیادہ قیام فرمایا پھر جمعہ کے دن وہاں سےسوار ہوکر مدینہ کا رخ کیا اورنماز جمعہ بنوسالم بن عوف میں پڑھائ پھر اپنی اونٹنی پرسوار ہوکر مدینہ میں داخل ہوئے تولوگوں نے انہیں گھیررکھا اوراونٹنی کی لگام پکڑے ہوئے تھے تا کہ وہ ان کے پاس ٹھریں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہرایک سے یہی کہتے جا رہے تھے اسے چھور دو یہ اللہ کے حکم کی تابع ہے حتی کہ اونٹنی جس جگہ پرآج مسجد نبوی ہے پر بیٹھ گئ ۔
اوراس طرح اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوایسے موقع فراہم کیا کہ آپ اپنے مامووں کے پاس مسجد کے قریب رہائش پذیرہوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےابوایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے گھرمیں قیام فرمایا ، پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے اپنے اہل عیال اوربیٹیوں اورابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ کے گھروالوں کومدینہ لانے کے لیے کچھ صحابہ کوروانہ کیا ۔
پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمان اس جگہ پرجہاں اونٹنی بیٹھی تھی مسجد نبوی بنانےمیں مشغول ہوئے اورمسجد کا قبلہ بیت المقد س بنایا اورکھجور کے تنوں کوستون اورچھت کھجور کی ٹہنیوں کی بنائ ، پھربعد میں کچھ مہینوں بعدتحویل قبلہ ہوا تونماز بیت المقدس کی بجائے بیت اللہ کی جانب منہ کرکے پڑھی جانے لگی ۔
پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار اورمھاجرین کے درمیان مؤاخات قائم کی جوکہ مؤاخات مدینہ کے نام سے معروف ہے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یھودیوں کے ساتھ مصالحت کی اوراس پرایک معاھدہ لکھا جس میں صلح اورمدینہ کا دفاع شامل تھا ، اوریھودیوں کے عالم عبداللہ بن سلام رضي اللہ تعالی عنہ مسلمان ہوگئے لیکن عام یھودیوں نے اسلام لانے سے انکار کیا اوراسی سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے شادی کی ۔
اورھجرت کے دوسرے سال اذان مشروع ہوئ اور اللہ تعالی نے بیت اللہ کی طرف قبلہ کردیا اوررمضان کے روزے فرض کیے گئے ۔
اورجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں استقرار حاصل کرلیا اوراللہ تعالی نے اپنی مدد ونصرت سے تائيد فرمائ اورمھاجرین وانصار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہوگئے اوردلوں میں الفت ومحبت پیداہوکر دل جمع ہوگئے تودشمان اسلام یھودیوں منافقوں اورمشرکوں نے یک سو ہوکر ایک ہی کمان سے تیرو تفنگ چلانے شروع کردیے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کواذیت اورتکلیف اورلڑائ کی دعوت دینے لگے تواللہ تعالی انہیں صبر اوردرگزراور مہربانی کرنے کا حکم دیتا رہا لیکن جب ان کے ظلم و ستم میں اضافہ ہوا تواللہ تعالی نے بھی مسلمانوں کولڑآئ اورجہاد کی اجازت دیتے ہوئے یہ فرمان نازل فرمایا جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :
{ ان ( مسلمانوں ) لوگوں کوجن سے لڑآئ کی جارہی ہے انہیں بھی مقابلہ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں بلاشبہ اللہ تعالی ان کی مدد کرنے پر قادر ہے } الحج ( 39 ) ۔
پھر اللہ تعالی نے ان مسلمان کوپرقتال فرض کردیا کہ جو بھی ان سے قتال کرے اس سے لڑائ کرنا فرض ہے :
{ اللہ تعالی کے راہ میں ان لوگوں سے لڑو جوتم سے لڑتے ہیں اورزیادتی نہ کرو بلاشبہ اللہ تعالی زيادتی کرنے والوں کوپسند نہیں کرتا } البقرۃ ( 190 ) ۔
پھراللہ تعالی نے مسلمانوں پر سب مشرکوں سے قتال فرض کردیا فرمان باری تعالی ہے :
{ اورتم تمام مشرکوں سے جھاد کرو جس طرح وہ تم سب سے لڑتے ہیں } التوب۔ۃ ( 36 ) ۔
تواس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام دعوت الی اللہ اورجھاد فی سبیل اللہ کے ذریعے حد سے تجاوز کرنے والوں کی سازشوں اورمظلوم لوگوں سے ظلم کوختم کرنے لگے تواللہ تعالی نے ان کی مدد ونصرت فرمائ حتی کہ سارے کا سارا دین اللہ ہی کا ہوجائے ۔
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان دوھجری میدان بدرکے میں مشرکوں سے جنگ کی تو اللہ تعالی نے مدد فرمائ اورمشرکوں کی کمر ٹوٹ گئ ، اورتین ھجری میں بنوقینقاع کے یھودیوں نے غداری اورمعاھدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک مسلمان کوقتل کردیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مدینہ سے شام کی طرف جلاوطن کردیا ۔
پھرقریش نے بدرمیں اپنے مقتولین کا بدلے لینے کے لیے شوال تین ھجری میں مدینہ کے قریب میدان احد میں پڑاو کیا اور دوران جنگ تیراندازوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی جس کی بنا پرمسلمانوں کی مدد اورنصرت مکمل نہ ہوسکی اورمشرکین مکہ کی بھاگ نکلے اورمدینہ میں داخل نہ ہوسکے ۔
پھر بنونضیر کے یھودیوں نے معاھدہ توڑا اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک بڑا سا پتھر پھینک کر انہیں قتل کرنے کی کوشش کی تواللہ تعالی نے نجات دی بعدمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چار ھجری میں ان کا محاصرہ کرکے انہیں خیبر کی طرف جلا وطن کردیا ۔
پانچ ھجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنومصطلق کی دشمنی ختم کرنے کے لیے ان پرچڑھائ کردی تواللہ تعالی نے ان کی مدد فرمائ اوران کے مال کوغنیمت اورانہیں قیدی بنایا ۔
پھر اس کے بعد یھودیوں کے زعماء نے مختلف قبائل اورگروہوں کومسلمانوں کے خلاف اکٹھا کیا تا کہ اسلام کو اس کے گھرمیں ہی ختم کردیا جائے تومدینہ کے گرد مشرک ، حبشی ، اورغطفان کے یھودی اکٹھے ہوگئے تواللہ تعالی نے ان کی سازشوں کونیست ونابود کے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد و نصرت فرمائ اسی کے بارہ میں فرمان باری تعالی ہے :
{ اوراللہ تعالی نے کافروں کوغصے میں بھرے ہوئے ہی ( نامراد ) واپس لوٹا دیا انہوں نے کوئ فائدہ نہیں پایا اور اس جنگ اللہ تعالی خود ہی مومنوں کوکافی ہوگيا اللہ تعالی بڑي قوتوں والا اور غالب ہے } الاحزاب ( 25 ) ۔
پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوقریظہ کا بھی ان کی غداری اورمعاھدہ توڑنے کی بنا پرمحاصرہ کیا تواللہ تعالی نے مدد فرمائ اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کوقتل اوراولاد کوغلام اورمال کوغنیمت بنا لیا ۔
اورچھ ھجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کی زيارت اورطواف کا قصد کیا لیکن مشرکوں نے انہیں روک دیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر دس سال تک لڑائ نہ کرنے پر صلح کی تا کہ اس میں لوگ امن حاصل کریں اورجوکچھ چاہیں اختیار کریں تواس کی بنا پرلوگ فوج درفوج اسلام میں داخل ہوئے ۔
سات ھجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر پرچڑھائ کردی تا کہ یھودی کا قلع قمع کیا جاسکے جنہوں نے مسلمانوں کا جینا دوبھر کررکھا تھا توان کا بھی محاصرہ کیا اوراللہ تعالی کی مدد سے مال ودولت اورزمین غنیمت میں حاصل ہوا ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری دنیامیں بادشاہوں کو خطوط لکھ کر اسلام کی دعوت دی ۔
آٹھ ھجری ميں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ کی قیادت میں ایک لشکر ترتیب دے کر حد سے تجاوز کرنے والوں کی سرکوبی کے ليے روانہ کیا لیکن رومیوں نے بہت عظیم لشکر جمع کیا اورمسلمانوں کے بڑے بڑے قائد شھید کر دیے گئے اورباقی مسلمانوں کواللہ تعالی نے ان کے شرسے محفوظ رکھا ۔
اس کے بعد مشرکین مکہ نے معاھدہ توڑدیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم لشکر لے کے ان کی سرکوبی کے لیے نکلے اورمکہ فتح ہوا توبیت اللہ بتوں اورکافروں سے پاک صاف ہوگیا ۔
پھرشوال آٹھ ھجری میں غزوہ حنین ہوا تاکہ ثقیف اورھوازن کو سبق سکھایا جائے تواللہ تعالی نے انہیں شکست سے دوچارکرکے مسلمانوں کو بہت سارے مال غنیمت سے نوازا ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے جا کر طائف کا محاصرہ کیا لیکن اللہ کے حکم سے اس کی فتح نہ ہو سکی تواللہ تعالی نے ان کے لیے دعا فرمائ اوروہاں سے چل پڑے تواہل طائف بعد میں مسلمان ہوگئے ، پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے اور مال غنیمت تقسیم کیا اور عمرہ کرنے کے بعد مدینہ کی طرف واپس نکل کھڑے ہوئے ۔
نوھجری کوسخت تنگ دستی اورشدید قسم کی گرمی کے موسم میں غزوہ تبوک ہوا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کی سرکوبی کے لیے تبوک کی طرف رواں دواں ہوئے اوروہاں پہنچ کرپڑاؤ کیا اورکسی سازش کا سامنا نہیں کرنا پڑا اوربعض قبائل کے ساتھ مصالحت ہوئ اورمال غنیمت لے کر مدینہ کی طرف واپس پلٹے ، تواس طرح غزوہ تبوک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری غزوہ ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بنفس نفیس شرکت فرمائ ۔
اوراسی سال قبائل کے وفود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اوراسلام میں داخل ہوتے گئے جن میں وفد بنی تمیم ، وفد طئ ، وفد عبدالقیس ، اوروفد بنوحنیفہ شامل ہیں جو سب کے سب مسلمان ہوگئے ۔
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ کواس سال حج کا امیر بنا کر لوگوں کے ساتھ روانہ کیا اوران کے ساتھ علی رضي اللہ تعالی عنہ کوبھی روانہ کیا اورانہیں کہا کہ وہ لوگوں پرسورۃ البراۃ کی تلاوت کریں تا کہ مشرکوں سے برات ہوسکے ، اورانہیں یہ حکم دیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کردیں ، توعلی رضي اللہ تعالی عنہ نے یوم النحر ( عیدالاضحی کے دن ) کویہ کہا :
ہے لوگو کوئ بھی کافر جنت میں نہیں داخل ہوسکتا اوراس سال کے بعدکوئ بھی مشرک حج کے لیے نہیں آسکتا اورنہ ہی بیت کا طواف ننگے ہوکر کیا جائے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جس کا بھی کوئ معاھدہ ہے وہ اپنی مدت تک رہے گا ۔
دس ھجری کونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا عزم کیا اورلوگوں کوبھی اس کی دعوت دی تومدینہ وغیرہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت سے خلقت حج کے لیے نکلی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی الحلیفہ سے احرام باندھا اورذی الحجہ کے مہینہ میں مکہ پہنچے اور طواف ، سعی اورلوگوں کو مناسک حج سکھائے اورعرفات میں ایک عظیم اورجامع خطبہ ارشاد فرمایا جس میں عادلانہ اسلامی احکامات مقرر کرتے ہوئے فرمایا:
( لوگو میری بات سنو مجھے علم نہیں ہوسکتا ہے کہ میں آئندہ برس تم سے نہ مل سکوں ، لوگو بلاشبہ تمہارا مال اورخون اورعزت تم پراسی طرح حرام ہے جس طرح کہ آج کا یہ دن اور یہ مہینہ اورتمہارا یہ شہر حرام ہے ، خبردار جاہلیت کے سارے امور میرے قدموں کے نیچے ہيں اوراسی طرح جاھلیت کا خون بھی ختم اورسب سے پہلا جوخون معاف کیا جاتا ہے وہ ابن ربیعہ بن حارث کا خون ہے جس نے بنو سعد میں دودھ پیا تھا تواسے ھذیل نے قتل کردیا میں اسے معاف کرتا ہوں ۔
اورجاہلیت کا سود بھی ختم ہے اورسب سے پہلا جو سود ختم کرتا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے بلاشبہ یہ سب کا سب ختم کردیا گيا ہے ، تم عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی سے ڈرتے رہو اس لیے کہ تم نے انہیں اللہ تعالی کی امان سے حاصل کیا ہے اوران کی شرمگاہوں کوتم نے اللہ تعالی کے کلمہ سے حلال کیا ہے ۔
اوران عورتوں پرتمہارا حق یہ ہے کہ جسے تم ناپسند کرتے ہووہ تمہارا بستر نہ روندے ، اوراگر وہ یہ کام کریں توتم انہیں ایسی مار ماروجو کہ زخمی نہ کرے اورہڈی نہ توڑے اور تم پر ان کا کھانے پینے اورلباس اوررہائش کا اچھے طریقے سے انتظام کرنا ہے ۔
اورمیں تم میں وہ چھوڑ رہا ہوں اگر تم اسے تھامے رکھوگے تو گمراہ نہيں ہوسکتے وہ کتاب اللہ ہے ، اورتم سے میرے بارہ میں سوال ہوگا تو تم کیا کہوگے ؟
صحابہ نے جواب دیا ہے ہم اس کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے یقینی طور پرپہنچا دیااورتبلیغ کردی اوران کا حق ادا کردیا اورپھرآپ نے نصیحت بھی کردی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھا کر کہنے لگے اوراسے لوگو کی طرف بھی کررہے تھے اے اللہ گواہ رہ اے اللہ گواہ رہ یہ تین بار کہا ۔
اورجب اللہ تعالی نے دین اسلام کومکمل کردیا اوراس کے اصول مقرر کردیے توعرفات میں اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پریہ فرمان نازل کیا :
{ آج ميں نے تہارے دین کو کامل کردیا ہے اور تم پراپنا انعام تمام کردیا ہے اورتمہارے لیے اسلام کے دین کے ہونے پر راضی ہوگیا ہوں } المائدۃ ( 3 ) ۔
اوراس حج کوحجۃ الوداع کا نام دیا جاتا ہے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حج کے موقع پرلوگوں الوداع کہا اوراس کے بعد آپ نے کوئ اورحج نہیں کیا پھر حج سے فارغ ہونے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لے آئے ۔
گیارہ ھجری صفر کے مہینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسملم کومرض شروع ہوا توجب مرض شدت اختیارکرگياتونبی صلی اللہ علیہ وسملم نے ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ کوحکم دیا کہ وہ لوگوں کونماز پڑھائيں ۔
اورربیع الاول میں مرض اورشدت اختیارکرگیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم بار12 ربیع الاول بروز سوموارچاشت کے وقت رفیق اعلی سے جاملے انا للہ وانا الیہ راجعون ، اس سے مسلمانوں کوبہت ہی زيادہ غم وحزن پہنچا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو منگل والے دن بدھ کی رات غسل دیا گيا اورمسلمانوں نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اورعائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے حجرہ میں دفن کردیاگیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم تواس دنیا سے جاچکے لیکن ان کا دین قیامت تک باقی رہے گا ۔
پھرمسلمانوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی غار اورھجرت میں ان کے رفیق ابوبکرصدیق رضي اللہ تعالی عنہ کوخلیفہ چنا اوران کے بعد مسند خلافت پرعمربن خطاب اورپھر عثمان غنی اوران کے بعد علی رضي اللہ تعالی عنہم اجمعین خلیفہ بنے ، اورانہیں خلفاء راشدا کانام دیا جاتا ہے اوریہی خلفاء راشدین المھدیین ہيں ۔
اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت ساری نمعتوں کے ساتھ احسان کیا ہے اورانہیں اخلاق کریمہ کی وصیت اوردرس دیا جس طرح کہ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
{ کیا اس نے آپ کویتیم پاکر جگہ نہیں دی ؟ اورتجھے راہ سے بھولا ہوا پاکرھدایت نہیں دی ؟ اورتجھے نادار پاکر تونگر نہیں بنایا ؟ پس یتیم پرتو بھی سختی نہ کیا کر ، اورنہ سوال کرنے والے کوڈانٹ ڈپٹ ، اور اپنے رب کی نعمتوں کوبیان کرتا رہ } الضحی ( 6 – 11 ) ۔
اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسے اخلاق عظیمہ سے نوازا جو کہ ان کےعلاوہ کسی اورمیں نہیں پائے جاتے حتی کہ اس کی تعریف رب العزت نے کچھ اس طرح فرمائ ہے :
{ اوربلاشبہ آّپ توخلق عظیم کے مالک ہيں } القلم ( 4 ) ۔
تواس اخلاق کریمہ اورصفات حمیدہ کی بنا پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگو کے دلوں میں اپنے رب کے حکم سے الفت ومحبت ڈال دی اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اللہ تعالی کی رحمت کے باعث آّپ ان پر نرم دل ہیں اوراگر آپ بدزبان اورسخت دل ہوتے تویہ سب آپ کے پاس سے دورچلے جاتے توآّپ ان سے درگزر کریں اوران کے لیے استغفار کریں پھرجب آپ کا پختہ ارادہ ہوجائے تو اللہ تعالی پربھروسہ کریں بلا شبہ اللہ تعالی توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے } آل عمران ( 159 ) ۔
اوراللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوسب لوگوں کی طرف رسول بناکرمبعوث کیا اوران پرقرآن مجید نازل فرماکر دعوت الی کا حکم دیا جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں فرمایا ہے :
{ اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) یقینا ہم نے آّپ کو (رسول بنا کر) گواہیاں دینے والا ، خوشخبریاں سنانےوالا اورآگاہ کرنے والا بھیجا ہے ، اوراللہ تعالی کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا روشن چراغ } الاحزاب ( 45 - 46 ) ۔
اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کودوسرے انبیاء پرچھ فضائل سے نوازا ہے جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( مجھے دوسرے انبیاء پرچھ چيزوں کے ساتھ فضیلت دی گئ ہے ، مجھے جوامع الکلم دیے گئے ہیں ، اورمیری رعب و دبدبہ کے ساتھ مدد کی گئ ہے ، اورمیرے لیے غنیمت حلال کی گئ ہے ، اورمیرے لیے زمین پاک اورمسجد بنائ گئ ہے ، اور میں سب لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گيا ہوں ، اور میرے ساتھ نبوت کا خاتمہ کیا گيا ہے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 523 ) ۔
تواس لیے سب لوگوں پرواجب ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لائيں اوران کی شریعت کی اتباع کریں تا کہ انہیں جنت میں داخلہ مل سکے فرمان باری تعالی ہے :
{ اورجواللہ تعالی کی اوراس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کرے گا اسےاللہ تعالی جنتوں میں لے جائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت ہی بڑی عظیم کامیابی ہے } النساء ( 13 ) ۔
اہل کتاب میں سے جوبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لائے اللہ تعالی نے اس کی تعریف کی اوراسے اجرعظیم کی خوشخبری سنائ ہے جس طرح کہ اس فرمان میں ہے :
{ جن کو ہم نے اس سے پہلے کتاب عنائت فرمائ وہ اس پربھی ایمان رکھتے ہیں ، اورجب اس کی آيات ان کے پاس پڑھی جاتي ہیں تووہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا ایمان ہے کہ یہ ہمارے رب کی طرف سے حق ہیں تم تو اس سے پہلے ہی مسلمان ہیں ، یہ اپنے کیے ہوئے صبر کے بدلے میں دوہرا اجر دیئے جائيں گے ، یہ نیکی سے بدی کوٹال دیتے ہیں اورہم نے انہیں جوکچھ دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہتے ہیں } القصص ( 52- 54 ) ۔
اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( تین قسم کے لوگوں کودوہرا اجر دیا جائے گا ، اہل کتاب میں سے وہ شخص جو اپنے نبی پرایمان لایا اورنبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوپایا توان پربھی ایمان لایا اوراس کی اتباع اورتصدیق کی تواسے درہرا اجر ہے ۔ الخ ) ۔
اورجوبھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لاتا وہ کافر ہے ، اورکافر کی سزا جہنم ہے جس طرح کہ اللہ تعالی نے فرمایا :
{ اورجوبھی اللہ تعالی اوراس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پرایمان نہیں رکھتا توہم نے بھی ایسے کافروں کے لیے دہکتی ہوئ آگ تیار کررکھی ہے } الفتح ( 13 ) ۔
اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
( اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جان ہے کسی نصرانی اوریھودی تک میری دعوت پہنچے اوروہ اس پرایمان نہ لائے جو مجھے دے کر بھیجا گيا ہے اوروہ اسی حالت میں مرجائے توجہنمی ہے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 154 ) ۔