ہمارا فیملی ادب

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
کچھ عرصہ پہلے میں نے اپنے بلاگ پر لکھا تھا "ادیبوں کا کھیل" ابوظہبی جانے سے پہلے ہم تینوں بہن بھائی۔ میں بنت شبیر اور طارم نایاب مل کر ادیبوں کا کھیل کھیلتے تھے ہم جو کچھ لکھتے تھے ایک دوسرے کو سناتے تھے۔ اب اردو محفل پر آنے کی وجہ سے ان کے شوق پھر سے تازہ ہو گے ہیں۔ ان کے ساتھ ہماری کزن بنت صغیر اور سندس صغیر بھی شامل ہو گئی ہیں۔ ہم نے سوچا کیوں نا مل کر اردو محفل پر ایک دھاگہ بنایا جائے جس میں ہم اپنی فیملی کا ادب یعنی جو کچھ ہم لکھتے ہیں وہ یہاں پوسٹ کریں ایک تو ان کی پریکٹس بھی ہو جائے گی اور ان کا شوق بھی تازہ رہے گا اور انشاءاللہ ایک دن پھر ان کا نام بھی اچھے لکھاڑیوں میں شامل ہو جائے گا۔ آج سے یا کل سے ان کی چھوٹی چھوٹی تحریریں اس دھاگے کی رونق بنے گئی

تبصرے و تجاویز کے لیے یہ دھاگا استعمال کریں
 

سندس صغیر

محفلین
اگر بجلی نہ ہو تو میں کیا کروں :question:
آج پھر بجلی نہی ہے جب بھی پڑھنے کی بات کرو نجانے کیوں بجلی چلی جاتی ہے۔ شاید یہ واپڈا والوں کو منظور نہیں ہے کہ ہم بھی پڑھنا لکھنا شروع کریں۔ شاید وہ جانتے ہیں کہ اگر ہم پڑھ لکھ گے تو اپنے مطالبات کے لیے آواز اٹھائیں گے۔ شاید اسی لیے بجلی کی بندش کر دی جاتی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم کوئی ٹیوب لائیٹ یا پنکھا نہیں ورنہ ہم ترستے ہی رہتے کہ کوئی ہمیں چلائے۔ خیر اللہ کا شکر ہے کہ ہم بجلی کے بغیر ہی چلتے ہیں ورنہ بہت سے کام جو ہم بجلی کے بغیر کر سکتے ہیں وہ نا کر سکتے۔ اینی بات اپنے شعر سے ختم کرتی ہوں۔
:p
اندھیروں کا سلسلہ چلتا رہا
گھر میں اک دیا جلتا رہا
کسی کو ایک موم بتی نہ ملی
اور کوئی یوپی ایس کے مزے لوٹتا رہا:p
 

بنت صغیر

محفلین
بحران

اردو محفل کے تمام محفلین کو بنتِ صغیر کی طرف سے السلام و علیکم!
آج میں پاکستان میں موجود کچھ مسائل میں سے ایک کے بارے میں لکھنے جا رہی ہوں۔ جہاں ہر چیز میں کچھ اچھائیاں ہوتی ہیں وہاں کچھ برائیاں بھی ہوتی ہیں۔ہمارا ملک پاکستان اتنا پیارا اور قدرتی خوبصورتی سے مالا مال ہے۔ لیکن چند لوگوں کی وجہ سے ہمارا ملک بحران کا شکار ہوگیا ہے ہر کوئی پریشان اور افراتفری میں نظر آتا ہے۔ جہاں دنیا کے دوسرے ممالک ترقی میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ یں لگے ہوئے ہیں وہی ہمارے پاکستان کی عوام بجلی، پانی اور گیس کے لیے ہر طرف احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر پاکستان میں یہ سب چیزیں بغیر کسی بندش کے فراہم کر دی جائے تو پاکستان کی عوام تو سب کچھ بھول بھال کر خوشی سے پاگل ہی ہو جائے۔بجلی اور گیس کا بحران تو ہے ہی لیکن لوگ پینے کے صاف پانی کے لیے بھی ترستے نظر آتے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ صاف پانی کا بھی ہے۔ بعض جگہوں میں پانی فراہم ہی نہیں کیا جاتا اگر غلطی سے پانی آ بھی جائے۔ تو وہ بھی پینے کے قابل نہیں ہوتا۔ مجبوراَ لوگوں کو وہی پانی پینا پڑتا ہے جسکی وجہ سے بہت ساری پیٹ کی بیماریاں عام ہوگئی ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی تو آپس کی لڑائیاں ہی ختم نہیں ہوتی ، عوام کس کے پاس اپنی فریاد لے کر جائیں ہر طرف سے عوام ہی پس رہی ہے۔ اگر کہی دھماکہ ہوا تو مرے گی عوام، مہنگائی ہوگئی تو وہ بھی عوام کے لیے ہی، ان حکمرانوں نے تو عوام کے کانوں سے دھوئیں نکال دیے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی عوام کی آوازکوئی سننے والا ہی نہیں ہے۔ جتنا چاہے شور مچاؤ یا احتجاج کرو کسی کے کان کے نیچے جوں تک نہیں رینگے گی۔ آج کل پاکستان میں اپنی مدد آپ کے تحت ہی سب کچھ ہو رہا ہے۔ آخرمیں خدا سے یہی دعا ہے کہ " اے اللہ پاکستان کے لوگوں کو پریشانیوں سے بچالیں اور پاکستان میں جو بحران ہیں ان کا احتتام کسی اچھی جگہ پر ہو تاکہ پاکستان بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے اور لوگ بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔
 

طارم نایاب

محفلین
پاکستان میں ہمیں بہت سے مسائل کا سامنہ کرنا پڑھتا ہے۔ لیکن آج میں جس مسلئے پر لکھ رہی ہوں وہ ہے گیس کا مسئلہ۔ لوگ ترقی کر کے آگے جاتے ہیں۔لیکن ہم پیچھے کی طرف آ رہے ہیں۔ ہم نے پٹرول والی گاڑیاں، گیس پر تو کر دی ہیں لیکن اس کے بعد گھروں تک گیس کی رسائی کم بلکہ نا ہونے کے برابر کر دی ہے۔ میں نے پڑھا تھا کہ سوئی کے مقام سے گیس نکالی جاتی ہے( صرف پڑھا ہی تھا) مجھے لگتا ہے کہ اب اسی سوئی سے گیس کی سلائی کر دی گئی ہے۔ کیونکہ ہمیں جب اس کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہمیں ملتی ہی نہیں جی ہاں سردیوں میں تو گیس کا منہ تک نہیں دیکھنے کو ملتا۔ ہم کھانا بنانے کے لیے سلنڈر والی گیس (وہ بھی اتنی مہنگی کے بس) اور لکڑیاں جلا کر گزارا کرتے ہیں۔ لکڑیاں جلا جلا کر ہمارا ٹمپریچر بھی ہائی ہو جاتا ہے۔ گھر کا تمام پُرانا فرنیچر، امی جی کے جیز کا سامان، بھائی کی اکیڈمی اور بڑے بھائی کے سکول میں جتنا فالتوں فرنیچر تھا وہ سب ہم نے سردیوں میں گیس کی نذر کر دیا۔ افف کیا کروں دن کا کھانا بنانا جو میرے سر ہے اس لیے گیس کی ہی فکر رہتی ہے۔ گیس نا ہونے کے باوجود ہم بہت لزیز اور مزے کا کھانا بناتے ہیں۔ آپ کہہ رہے ہو گے کہ کیا اپنے منہ میا مٹھوں بن رہی ہے۔ لیکن یہ سب میں نہیں کھانا کھانے والے کہتے ہیں۔ او ہو یہ میں کس طرف چل نکلی ۔ تو جناب بات ہو رہی تھی گیس کی۔ سردیوں میں تو یہ سمجھ لیں کہ ہم صرف گیس کے میٹر کا بل ہی دیتے ہیں۔ گیس تو ہوتی نہیں لیکن بل وقت پر آ جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سردیوں میں ہمارے پاکستان میں گیس کا آنا ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے۔ دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے پاکستان کا۔ گیس اپنے ملک کی مادنیات ہونے کے باوجود بھی ہمیں در کار نہیں ہے۔ ہم کس چیز کی امید کریں ، کاش کے پاکستان کے حکومت کو کچھ عقل آ جائے اور وہ ہم غریبوں پر تھوڑا سا رحم کھا لیں تاکہ لکڑیوں اور سلنڈر سے ہماری جان چھوٹ جائے۔​
 

بنت شبیر

محفلین
میں نے اپنے بڑوں سے سنا تھا کہ مشکلات ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی ہم دنیا کے کسی بھی کونے میں کیوں نا چھپ جائے اس لیے بھاگنے کا کوئی فائدہ نہیں ہمیں مشکلات کا مقابلہ کرنا چاہے۔ آج میں اسی سلسلے میں بات کرنے جا رہی ہوں۔ پاکستان اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام مسلمانوں کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن پھر بھی ہم کتنے نا شکرے ہیں۔ میں مانتی ہوں کہ ہمارے ملک میں بہت سی چیزوں کی کمی ہے اور بہت سے وسائل نہیں ہیں۔ جیسا کہ ہمارے ملک میں بجلی نہیں ہے، تو کیا ہوا اگر بجلی کی وجہ سے فیکٹریاں بند پڑی ہیں، تو کیا ہوا بجلی نا آنے کی وجہ سے میرے جیسے قابل طلبہ اور طالبات رات کو پڑھ نہیں سکتے۔(اس لیے رات کو ایم پی تھری میں گانے سنتے ہیں) تو کیا ہوا ہم کپڑے پریس نہیں کر سکتے۔ ٹی وی پر اچھی نیوز نہیں دیکھ سکتے، تو کیا ہو بجلی نا ہونے کی وجہ سے بہت سے کام نہیں کر سکتے۔ تو کیا ان وجوہات کی وجہ سے ہم اپنے ملک کو چھوڑ دیں۔ ہیں تو ہم پاکستانی نا۔ اب ہم اپنے ملک چھوڑ تو نہیں سکتے۔ گیس کا بہت بڑا مسئلہ ہے سردیوں میں تو ہمیں گیس کی شکل تک دیکھنی نصیب نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ سے ہم کھانا نہیں بنا سکتے، تو کیا ہوا اگر ہم دوسرے بہت سے کام نہیں کر سکتے پانی نا ہونے کی وجہ سے اگر دو تین ہفتے نہا نا سکے۔ تو کیا ہم اپنا ملک چھوڑ دیں ،عوام سڑکوں پر آ جائے، توڑ پھوڑ کریں۔ ان چھوٹے چھوٹے مسائل کی وجہ سے ہمیں اپنے ملک کو بُرا نہیں کہنا چاہے۔
آپ یہ سب پڑھ کے اندازہ لگا رہے ہونگے کہ میں حق پر بات کر رہی ہوں یا ناحق بات کر رہی ہوں۔ ناشکریہ ہم اس لیے ہیں کہ پہلے ہم ان چیزوں کے بغیر گزارا کرتے تھے۔ اور اس وقت بھی پاکستان کے مسائل پر بات کرتے تھے اب یہ چیزیں ہمیں مل رہی ہیں اور پھر بھی ہم اس پر ناراض ہوتے ہیں۔ تنقید تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن اس کا حل کوئی نہیں بتاتا۔ میرا سب کو یہ مشورہ ہے یا تو مسائل کا مقابلہ کریں۔ یا ان کا حل نکالیں اور یا پھر خاموش رہیں
 

مقدس نور

محفلین
عینی میری دُم
ہم چار بہن بھائی ہیں میرے علاوہ سب شگوفے ہیں۔ ہم سب میں آخری مطلب سب سے چھوٹ میری بہن عینی ہے۔ جس کا اصلی نام قرۃ العین ہے۔ وہ ہر وقت میرے پیچھے ہی پڑی رہتی ہے۔ حالانکہ جب میں واش روم میں جاتی ہوں تو درازے کے باہر بیٹھ جاتی ہے۔ اس لیے میں نے اس کا نام ہی رکھ دیا ہے عینی میری دُم۔ جب کبھی میرے سکول میں چھٹیاں ہو اور اس کے سکول میں نا ہو تو اس کی وجہ سے میں کہیں نہیں جا سکتی۔ نا تو اپنے ننھال جا سکتی ہوں اور نا ہی کسی اور رشتہ دار کے گھر۔ وہ بہت بہت بہت زیادہ شرارتی ہے، وہ ہر الٹے کام میں حصہ لیتی ہے اور مجھ سے بہت بدتمیزی بھی کرتی ہے میری کوئی بات نہیں مانتی وہ صرف نو سال کی ہے اور دوسری کلاس میں پڑھتی ہے۔ جیسے مکھیاں شہید کے پیچھے بھاگتی ہیں اسی طرح وہ میرے پیچھے بھاگتی ہے۔ اتنی باتونی ہے کہ جب صبح اس کی آنکھ کھلتی ہے تو اس کے بعد سوتے تک اس کی زبان بند نہیں ہوتی۔ :chatterbox: میں جب کہیں جاتی ہوں۔ تو وہ میرے پیچھے پیچھے آتی ہے میں اس کو منع کرتی ہوں اور کبھی کبھی ایک لگا بھی دیتی ہوں۔ تو وہ مجھے کہتی ہے اگر میں تم سے بڑی ہوتی تو تمہاری خوب پٹائی کرتی۔ اور اگر تم مجھ سے چھوٹی ہوتی تو تم بھی تو میرے پیچھے نہیں آتی کیا؟ اس سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ وہ ایسے باتیں کرتی ہیں مجھے لگتا ہے کہ میں اس سے چھوٹی ہوں اور وہ مجھ سے بڑی ہے۔
لیکن ایک بات سچ ہے کہ وہ واحد ہے جس کی وجہ سے گھر میں رونق ہوتی ہے۔ یہ نا ہو تو گھر میں مزہ بھی نہیں آتا۔ سچ کہوں کہ مجھے اس کی عادت ہو گئی ہے جب تک وہ کوئی شرات نا کرے تو مجھے مزہ ہی نہیں آتا۔ اب تو میں اس کو صرف تنگ کرنے کے لیے اور انجوائے کرنے کے لیے چھیڑتی ہوں تاکہ وہ اچھی اچھی باتیں کریں۔ اس کا ایک شوق ہے کہ وہ بڑی ہو کر ٹیچر بنے اور بچوں کو خوب مارے جس طرح میں اس کو مارتی ہوں:p ویسے تو عینی مری دم ہے لیکن مجھے اس سے پیار بھی بہت ہے
 

مقدس نور

محفلین

میرے پاپا
میر ے پاپا کا نام راجہ بشا رت شبیر ہے وہ بہت پیا رے اور بہت خوبصورت ہے وہ ہم سب سے بہت پیار کر تے ہے وہ ہمیں ما رتے بھی نہیں ہا ں تھوڑا سا ڈانٹتے ضرور ہے ہم سب کو اپنے ماما پاپا سے بہت پیا ر کر تے ہیں مجھے آج تک پاپا سے مار نہیں پڑ ی وہ ہمیں ہر چیز لا کر دیتے ہیں وہ سب کی ہر خو اہش پوری کر تے ہے وہ مجھےسب کے ساتھ بھی پیسے دیتے ہیں اور سب سے چھپ کر بھی دیتے ہیں وہ سب سے زیادہ مجھ سے پیار کر تے ہیں چیزیں بھی لے کر دیتے ہیںسب کے سا تھ بھی اور چھپ کر بھی وہ مجھے شا پنگ پر بھی لے کر جا تے ہیں کبھی کبھی صر ف پاپا اور میں اکیلے جا تے ہیں پر کبھی کبھی عینی میرے دمجھےپاپا کے سا تھ نہیں جا نے دیتی پا پا مجھے ہر جگہ لے کر جا تے ہیں وہ روزا نہ با ر ہ بجے میر ے کمر ے میں آ تے ہیں اور مجھے پیا ر کر کے چلے جا تے ہیں وہ مجھے زیادہ نہیں ڈانتے ہر عید پر مجھے ہر دن کا جوڑا اور میچنگ چیزیں لے کر دیتے ہیں۔ کپڑوں کی نسبت مجھے جوتے زیادہ لے ک دیتے ہیں۔ اس عید پر میں نے پانچ جوڑے جوتوں کے لیے تھے۔ میں اپنی عید کی شاپنگ پاپا کے ساتھ کرتی ہوں۔ ماما کے ساتھ نہیں کرتی۔ کیونکہ ماماہر چیز نہیں لےکر دیتی لیکن پاپا سب کچھ لے کر دیتے ہیں۔ جو میں چاہتی ہوں جب میں پاپا کے ساتھ شاپنگ کر کے گھر آتی ہوں تو ماما سے خوب ڈانٹ پرتی ہے کہ اتنی چیزیں لانی لازمی تھیں۔ ہر دن کا الگ جوڑا تو نہیں ہوتا لیکن میں ماما کی بات سنی ان سنی کر دیتی
میرے پاپا دنیا کے سب سے اچھے پاپا ہیں ان جیسا کوئی نہیں ہے میں اپنے پاپا سے بہت پیارکرتی ہوں اور ہمیشہ کرتی رہوں گی کیونکہ وہ سب سے اچھے ہیں

 

بنت شبیر

محفلین
برتن برتن​
ہرگھر میں دوسرے مسائل کے ساتھ ساتھ خواتین کے ساتھ جو سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے وہ ہے گھر کا کام۔ مثلا برتن دھونا ، گھر کی صفائی کرنا، کھانا پکانا اور سب سے اہم کام کپڑے دھونا۔ اور اگر گھر میں ایک سے زیادہ خواتین ہو تو اور انہوں نے آپس میں کام کو بانٹا بھی نا ہو تو عجیب سی صورت پیش آتی ہے یعنی ہر کوئی دوسرے کی طرف دیکھتا ہے کہ شاید وہ پہلے کام کر لیے اور میں کام سے بچ جاؤں۔ یعنی کام چوری کا چانس زیادہ ہوتا(ویسے تو کام چور کسی وقت بھی کام کی چوری کر لیتے ہیں) اور صبح کا کام دن اور دن کا کام رات تک پہنچ جاتا ہے۔ لیکن الحمداللہ ہمارے گھر میں ایسا کوئی چکر نہیں ہے وہ اس لیے کہ گھر کے جو دو مشکل کام ہیں (صبح کی صفائی و برتن اور کپڑے دھونا) ان کے لیے ہمارے بابا جانی نے ایک عدد خالہ کا بندوبست کیا ہوا ہے۔ (نوٹ : گھر کے کام کے لیے خالہ جی کو اس لیے رکھی ہیں کہ دونوں بھابھیاں اور میں سکول اور کالج چلی جاتی ہیں باقی گھر میں ایک بہن بچتی ہے امی جی کو ہم کوئی کام نہیں کرنے دیتے اس لیے خالہ جی کو منتھلی پر رکھا ہوا ہے) ہماری یہ مشکل آسان کر دیتی ہیں:victory: ۔ باقی کے جو کام بچ جاتے ہیں وہ سب نے آپس میں بھانٹے ہوئے ہیں۔ کام اس لیے بانٹے ہیں کہ گھر میں کسی طرح کی کوئی جنگ نا ہو۔ بھابھیاں اور آپی اپنا کام بغیر کسی شور کے وقت پر کر لیتی ہیں۔ لیکن جب میری باری آتی ہے تو نا پوچھیں کیا ہوتا ہے۔ پورے دن میں میرا کام صرف اور صرف دن کے برتن دھونا ہی ہوتا ہے۔ جس کی فکر مجھے کالج کے آخری پیریڈ سے ہی لگ جاتی ہے:unsure: (اف اللہ) کہ گھر جا کر برتن بھی دھونے ہیں:eek: ۔ حالاکہ برتن بہت کم ہوتے ہیں۔ یعنی چار یا پانچ پلیٹیں اور ایک دو گلاس اور ایک عدد دیچکی بھی ہوتی ہے لیکن میں اس کو نہیں دھوتی کیوں کہ وہ مجھ سے ٹھیک طرح صاف نہیں ہوتی۔ میں کالج سے آتے ساتھ ہی برتن دھونا شروع کر دیتی ہوں۔ ماما ڈانٹتی ہیں کہ پہلے کھانا کھا لو کپڑے بدل لو۔ لیکن میں سب سے پہلے برتن دھوتی ہوں۔ اس لیے نہیں کہ مجھے احساس ذمہ دار ہے بلکہ اس لیے کہ میری پلیٹ مجھے دھونا نا پڑے کیونکہ وہ پھر شام کے برتنوں میں شامل ہو جاتی ہے:p ۔ اور یہ تو میرے اصولوں کے خلاف ہے کہ میں دن کے برتنوں کے علاوہ کوئی برتن دھو دوں۔ ہمارے عمر بھائی چھٹی والے دن بہت دیر سے اٹھتے ہیں:sleepy: ۔ یعنی جب ہم دن کا کھانا کھانے لگتے ہیں تب وہ ناشتہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن میں ان کے برتن بھی سائیڈ پر کر دیتی ہوں کیونکہ ناشتہ صبح کیا جاتا ہے اور وہ برتن ناشتے میں شامل ہوتے ہیں میری زمہ داری تو صرف دن کے برتن ہیں:bee: ۔ میں کھانے کے بعد چائے پیتی ہوں، چائے بھی میں خود بناتی ہوں(اف تنا کام کرتی ہوں):cry: لیکن وہ چائے کے برتن بھی شام کے برتنوں میں شامل ہوتے ہیں اس لیے میں نہیں دھوتی کیوں کہ میں اصولوں کی پکی ہوں۔:dancing:
نوٹ: آپ تمام لڑکیوں کو میری نصحت ہے کہ گھر کا کام کیا کریں ورنہ اگلے گھر جا کر کیا کریں گی):cdrying:
 

طارم نایاب

محفلین
والدین
والدین کائنات کی ایک خوبصورت ترین ہستی ہیں۔ میرے والدین میرے لیے کل کائنات اور زندگی کا سرمایہ ہیں ماں جنت اور باپ اس کا دروازہ ہے ۔ اللہ پاک نے ان ہستیوں کو اتنی عزت بخش دی ہے کہ حضرت موسیٰ کی والدہ کی وفات کے بعد جب حضرت موسیٰ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کے لیے پہاڑی پر بے فکری سے چل رہے ہوتے ہیں اور ان کا پاؤں پھسل جاتا ہے تو آواز آتی ہے "اے موسیٰ سنبھل کے اب وہ ماں نہیں ہے جو دعائیں کیا کرتی تھی (اللہ تعالیٰ کمی پیشی معاف فرمائے آمین) لیکن ؎آج کی اولاد جب اپنے پاؤں پر چلنا شروع کر دے تو وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ وہی ہستیاں ہیں جنہوں نے ان کو پال پوس کر اس قابل بنایا ہے اگر ہم اپنے والدین کو خوش رکھے گے ان کے بڑھاپے میں ان کا خیال رکھے گئے تو وہ اور اللہ پاک دونوں خوش ہوں گے۔ اور زندگی آسان سے آسان تر ہوتی جائے گی۔ جو لوگ بڑے ہو کر یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ وہی ہستیاں ہیں جنوں نے بچپن میں ان کا اتنا خیال رکھا اچھی سے اچھی چیزیں ، کپڑے، جوتے اور ہر خواہش کا اخترام کیا۔ اب جب وہ بوڑھے ہو گے ہیں تو ہم ان کی خدمت کرنے کے بجائے اپنے کاموں میں مصروف ہو گے ہیں۔ اور اگر والدین کچھ کہہ دیں تو آگے سے بدتمیزی کرتے ہیں۔ بچپن میں جب وہ ماں سے سوال کرتے تھے تو ماں ان کو جواب دیتی تھی اور اگر ایک سوال کو دس دفعہ کریں تو ماں دس دفعہ جواب دیتی تھی لیکن اب جب ماں ایک سوال ہی دوسری دفعہ کر دے تو آگے سے ڈانٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے والدین کی خدمت کریں اسی طرح جس طرح انہوں نے بچپن میں ہم کو پالا۔اگر زندگی میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو والدین کا اخترام اپنے فرائض میں سب سے پہلے ادا کریں
 

مقدس نور

محفلین
ماما

میری ماما بہت اچھی ماماہیں میں ماما کا ہر کام میں ہا تھ بٹھاتی ہوں کیونکہ میر ی ماما بہت اچھی ماماہے وہ میرا بہت خیا ل رکھتی ہوں اس وجہ سے میں صفائی بھی کر تی ہوںاورر و ٹی بھی بنا تی ہوں اور بھی بہت سے کا م کر تی ہوں ماما ہم سب سے بہت پیار کر تی ہے وہ ہم سب کا بہت بہت زیا دہ خیا ل ر کھتی ہے ماما پُرے گھر کو اکیلے سنبھا لتی ہے ماما مجھ سے بھی بہت پیار کر تی ہے پر بھائی سے اور چھو ٹے بہن بھائی سے زیادہ پیار کرتی ہیں۔ ماما کےہاتھ میں بہت ذائقہ ہے وہ بہت مزے کے کھانےبناتی ہیں۔ مجھے تو اپنی ماما کے ہاتھ کی ہر چیزبہت پسند ہے۔ میں پوری کوشش کرتی ہوں کہ ماما کو بھی آرام کا موقع دے سکوں پر میں دے نہیں سکتی۔ کیونکہ جیسے ماما گھر کو سنبھالتی ہیں ویسے میں نہیں کر سکتی۔ کیوں کہ ماما ماما ہی ہوتی ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مجھے بہت جلد غصہ آ جاتا ہے۔میں اپنی ماما اور پاپا کو جان سے بھی زیادہ چاہتی ہوں۔ زیادہ تر ہم سب کو ڈانٹ پڑتی ہے پر پر ماما مذاق بھی کرتی ہیں۔ میری ماما سب سے الگ اور پیاری ہیں۔ میں اپنی ماما سے بہت پیار کرتی ہوں بلکےہم سب ہی بہت پیار کرتے ہیں۔ جب ہم سب گھر سے باہر جاتے ہیں تو ماما کو ایک بات بول کر جاتے ہیں" ماما ہم جا رہے ہیں دعا کرنا" تو ماما بولتی ہیں جاؤ اور ساتھ بہت زیادہ دعائیں بھی دیتی ہیں۔ ماما دعا دیں یا بدعا تو عرش میں دعا ہی سمجھی جاتی ہے۔ "ماما" اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ایسی ہستی دی ہے اور باپ بھی جس کا ہم الل سے لاکھ شکر بھی ادا کریں تو وہ کم ہے میں اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ دنیا میں ہر کسی کے ماں پاب کو ہمیشہ زندہ رکھے اور ان کو ان کے بچوں سے الگ نا کریں۔ آمین
کیونکہ اگر ماں باپ نہ ہوں تو اور کوئی بھی ماں باپ جیسا پیار نہیں دے سکتا۔ میں خود کوشش کرتی ہوں کہ ماما کے قدموں کے تلے جو جنت ہیں اس کو حاصل کر سکوں پر میں کیا کروں میں ہر بار ناکام ہو جاتی ہوں۔ ماما ہم سب کو ہر تکلیف سے بجاتی ہیں وہ ہم سے بہت پیارکرتی ہیں اور دعائیں دیتی ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں ماں کی دعا جنت کی ہوا۔ یہ تو ہے کہ کبھی کبھی تھوڑا سا غصہ کرتی ہیں لیکن ان کے غصے میں بھی پیار ہوتا ہے اس لیے ماما کی ڈانٹ کھانے کے لیے میں کبھی صفائی ٹھیک سے نہیں کرتی تو کبھی آٹانہیں گوندھتی۔
میں اللہ تعالیٰ سے پھر یہ دعا کرتی ہوں کہ اللہ میرے والدین سمیت ہر انسان کے والدین کو لمبی عمر بلخیر عطا فرمائے آمین
میری ماما دنیا کی سب سے اچھی ماما ہیں اور میں ان سے بہت پیار کرتی ہوں
 

بنت شبیر

محفلین
بنت شبیر کے ٹوٹکے
میں نے سوچا کہ لڑکیوں کو کام کرنے کے دوران بہت سے مسائل ہوتے ہیں اس لیے میں کچھ ٹوٹکے لکھنے لگی ہوں۔ میرے ٹوٹکوں کا تعلق آپا ذبیدہ کے ٹوٹکوں سے بالکل نہیں ہے۔ میں کچھ ٹوٹکے لکھ رہی ہوں جو ہماری زندگی کو آسان بنا دینگے۔:)
ٹوٹکا نمبر ایک
آج میں آپ کو کچن کی صفائی کرنے کا آسان طریقہ بتاؤں گی۔ جس پر عمل کرنے سے آپ نہایت کم وقت پر اپنے کچن کو چمکا سکیں گی۔ :tongue:
1۔ کچن کی صفائی کرنے سے پہلے کسی بھی بڑے فیملی ممبر کو کچن میں نا آنے دیں۔ (اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ آپ اپنی مرضی سے کام کر سیکیں گئی ورنہ ، ایسا کر دو ، ویسا کر دو، ایسے نہیں ایسے نہیں ، کی آوازیں سنا پڑے گی):surprised:
2۔چولہے کے سٹینڈ پہ ناشتے کے بعد جو تھوڑا خوش آٹا، چینی ، پتی وغیرہ کے ذرات رہ جاتے ہیں انہیں زور سے پھونک مار کر چولہے کے نیچے کر دیں اور موٹا موٹا کپڑا مار دیں (دیکھیں کتنی جلدی چولہا صاف ہو گیا)
3۔چینی، پتی کے ڈبے الماری سے الگ الگ اتار کر صاف کرنے میں بہت وقت لگتا ہے ۔ تو اس کے صاف کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ڈبے کے سامنے والی سائیڈ کو تبدیل کر دیں( یعنی جو حصہ سامنے کی طرف نظر آ رہا تھا اس کو پیچھے کی طرف کر دیں):soldier:
4۔ دیچکیوں والے حصے سے تو آپ دور ہی رہیں (کیونکہ یہ بڑی بہنوں کا کام ہے):happy:
5۔ فیریج کی صفائی صرف اور صرف اس وقت کریں جب وہاں کچھ کھانے کو پڑا ہو ورنہ اس سے دور ہی اچھے۔:sick3:
6۔ جھاڑو دینے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ کچن کا جو فرش نظر آ رہا ہے اس پر جو کچرا پڑا ہے وہ تھوڑا چولہے والے اسٹینڈ کے نیچے، کچھ فریج کے نیچے اور کچھ دروازے کے پیچھے کر دیں۔ کچن کا کچرا کبھی بھی کچن سے باہر نا لیے کر جائیں ورنہ آپ کو صحن کی صفائی بھی کرنی پڑے گی:dancing:
7۔ آخری ٹوٹکا جو کہ آپ کو ہمیشہ یاد رکھنا پڑے گا کہ یہ جتنا بھی کام کرنا ہے یہ چھپ کر ہی کرنا ہے اگر کسی نے دیکھ لیا تو آئندہ آپ کی نگرانی کی جائے گی:feelingbeatup:
نوٹ۔ شادی شدہ لڑکیاں ایسے ٹوٹکوں سے باز ہی رہیں۔:shameonyou:
نوٹ۔ نئے ٹوٹکوں کے ساتھ جلد حاضر ہوں گی آپ کی جانی پہچھانی شخصیت بنت شبیر:wave:
 

بنت شبیر

محفلین
مسلمانوں کی زندگی کے اس تاریک ترین لمحہ میں قدرت نے سرسید احمد خان جیسے جرات مند رہنما کو پیدا کیا۔ انھوں نے اپنی خداداد بصیرت سے یہ محسوس کر لیا کہ مسلمانوں کو اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کے لئے کس قدر کھٹن اور طویل رستہ طے کرنا ہے۔​
سر سید احمد خان 17 اکتوبر 1817 کو دہلی میں پیدا ہوئے آپ حسینی سید تھے۔ بچپن میں سر سید کو تعلیم سے زیادہ لگاؤ نہیں تھا۔ تاہم چونکہ ان کے خاندان کی دہلی کے علمی و ادبی مراکز سے گہری وابستگی تھی۔ اس لئے انہیں سازگار ماحول میسر آگیا۔ سر سید احمد خان نے قومی زندگی میں قدم رکھا تو اس وقت مسلمان پریشان حال تھے۔ سر سید احمد خان نے مسلمانوں کو تعلیم کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی۔ شروع شروع میں انہوں نے مسلمانوں کو سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دیا تاکہ وہ اپنی تمام توجہ حصولِ تعلیم پر خرچ کر دیں اور زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر اپنی معاشی کمزوریوں پر قابوں پر سکیں۔سر سید ہندوستان کو ایک خوبصورت دلہن کی دو آنکھیں تصور کیا کرتے تھے لیکن اردو ہندی تنازعہ اور کچھ دوسرے مسائل کے بعد سرسید جان گے تھے کے ہندو اور مسلم دونوں الگ الگ قومیں ہیں اور کانگرس صرف ہندوں کی جماعت ہے۔ سر سید نے مسلمانوں کو ان کے مقام دلانے کے لیے بہت محنت کی انہوں نے صرف باتیں ہی نہیں کی بلکہ کام کر کے دیکھایا۔وہ ہمیشہ مسلمانوں کو تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتے تھے۔سر سید کو رسول اللہ ﷺ سے والہانہ عشق تھا۔ ان دنوں ویلم میور نے "لائف آف محمد ﷺ" کتاب لکھی جس میں بہت سے اعتراضات کئے تھے۔ سر سید احمد خان نے خطبات احمدیہ میں ان سب کا مکمل اور تسلی بخش جواب دیا ۔ سر سید احمد خان ایک عظیم شخصیت تھے انہوں نے 27 مارچ 1898 میں وفات پائی۔​
 
Top