ہزار گردش ایام کا نشانہ ہوں

ہزار گردش ایام کا نشانہ ہوں

ہزار گردش ایام کا نشانہ ہوں
کنویں میں قید سہی یوسف زمانہ ہوں

شرف تو دیکھئے تنکوں کا ڈھیر ہو کر بھی
میں بے سہارا پرندوں کا آشیانہ ہوں

شکم بقا کی ضمانت نہیں ہے میرے لئے
یہ مت سمجھنا کہ محتاج آب و دانہ ہوں

نئے زمانوں کی تخلیق ہو رہی ہے یہاں
میں اپنی ذات میں قدرت کا کارخانہ ہوں

یہ کون جانے مری عرش تک رسائی ہے
کسی فقیر کا میں نالہ ء شبانہ ہوں

سید انصر​
 
یہ کون شاعر ہیں، ان کا تعارف؟
سید انصر صاحب سرائے عالمگیر پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں ۔آپ کا شمار اردو غزل کے جدید شعرا میں ہوتا ہے۔ کئیں ممالک میں مشاعروں کی صدارت کا کام سر انجام دے چکے ہیں۔ ادبی تنظیم کاروان ادب کے صدر ہیں اور آپ کے دو مجموعہ کلام دسترس غالبا ١٩٩٩ء اور برسوں بعد ٢٠٠٤ء میں طبع ہو چکے ہیں۔تیسرا مجموعہ کلام زیر طبع ہے۔ عطا اللہ عیسی خیلوی اور کئیں دیگر اساتذہ نے آپ کا کلام پڑھا ہے جس میں یہ غزل کہ

ہم سے کسی کے بخت کا تارا نہیں ملا
بچھڑا جو ایک بار دوبارہ نہیں ملا

کاغذ کی کشتیوں پر سواری کا شوق تھا
اب یہ شکایتیں ہیں کنارا نہیں ملا

انصر ہمارے وہم و گماں میں نہ تھا کہ تم
یہ کہہ کہ چھوڑ دو گے سہارا نہیں ملا

سر فہرست ہے۔ آپ کے کچھ اشعار باذوق قارین کی نذر

جو میں سوئے طیبہ چلوں کبھی تو سفر میں ایسا کمال ہو
نہ ستائیں راہ کے پیچ و خم نہ بدن تھکن سے نڈھال ہو

مری خاک خشت میں ڈھال کر اسے چن دو روضہ پاک میں
نہ ہی فاصلوں کا گلا رہے نہ جدائیوں کا ملال ہو

کسے خبر تھی کہ خیرات ختم ہونے پر
یہی سوالی مرے ہاتھ کاٹ ڈالیں گے

شاگرد میر کے ہیں تو حسرت کے یار بھی
جاری ہے مشق شعر و سخن، کاروبار بھی

اک روز دبے پاؤں چرا لے گئی دنیا
ہونٹوں کا تبسم ہی نہیں آنکھ کا نم بھی

الف عین محمد عبدالرؤوف گُلِ یاسمیں سید عمران سید عاطف علی وقار علی ذگر سیما علی
 
Top