ہجوم کا سری لنکن شہری پر بہیمانہ تشدد، قتل کرنے کے بعد آگ لگادی

جاسم محمد

محفلین
ایسے واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں اور بسا اوقات کسی سے ذاتی دشمنی ہو تو اس کے متعلق بھی کوئی افواہ اڑا دی جاتی ہے اور پھر، چل سو چل۔
مغرب میں وچ ہنٹ کا تاریک دور بھی تب ختم ہوا جب کثرت سے ایسے واقعات سامنے آئے جن میں ملزمہ کوئی چڑیل یا جادوگرنی ثابت نہیں ہوئی۔ لیکن پھر بھی محض اس کی جائیداد ہتھیانے یا کسی اور تنازعہ کی وجہ سے اس پر الزامات لگا کر سر عام جلا دیا گیا
 

الف نظامی

لائبریرین
ڈاکٹر محمد مشتاق لکھتے ہیں:

۱ ۔ کسی شخص کو اس وقت تک ’’گستاخ رسول ‘‘ قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک مقررہ شرعی ضابطے پر اس کا جرم ثابت نہ ہو ۔

۲ ۔ اگر گستاخ رسول اس جرم سے پہلے مسلمان تھا تو اس کے اس جرم پر ارتداد کے احکام کا اطلاق ہوگا اور اگر وہ پہلے ہی غیر مسلم تھا تو پھر اس فعل پر سیاسۃ کے احکام کا اطلاق ہوگا ۔

۳ ۔ حد ارتداد کو ملزم کے اقرار یا دو ایسے مسلمان مردوں کی گواہی ، جن کا کردار بے داغ ہو ، سے ہی ثابت کیا جاسکتا ہے ، جبکہ سیاسۃ کو عورتوں اور غیر مسلموں کی گواہی ، نیز قرائن اور واقعاتی شہادتوں سے بھی ثابت کیا جاسکتا ہے ۔

۴ ۔ پہلی صورت میں سزا بطور حد موت ہے لیکن سزا کے نفاذ سے پہلے عدالت مجرم کو توبہ کے لیے کہے گی اور اگر عدالت اس کی توبہ سے مطمئن ہو تو اس کی سزا ساقط کردے گی ۔ دوسری صورت میں کوئی مقررہ سزا نہیں ہے بلکہ جرم کی شدت و شناعت اور مجرم کے حالات کو دیکھتے ہوئے عدالت مناسب سزا سنائے گی ، جو بعض حالات میں سزاے موت بھی ہوسکتی ہے ۔ سیاسۃً دی جانے والی سزا کو حکومت معاف کرسکتی ہے اگر مجرم کا طرز عمل تخفیف کا متقاضی ہو ۔

۵ ۔ حد ارتداد حق اللہ ہے اور سیاسۃ کی سزا حق الامام ہے ، اور حنفی فقہا کے مسلمہ اصولوں کے مطابق حقوق اللہ اور حقوق الامام دونوں سے متعلق سزاؤں کا نفاذ حکومت کا کام ہے ۔ ۶ ۔ اگر کسی شخص نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر ایسے شخص کو قتل کیا جو پہلے مسلمان تھا لیکن توہین رسالت کے نتیجے میں مرتد ہوگیا تھا اور اس کا جرم مقررہ ضابطے پر ثابت ہوا تھا ، تو قاتل کو قصاص کی سزا نہیں دی جائے گی لیکن قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر اس قاتل کو سیاسۃً مناسب سزا دی جاسکے گی ۔ اگر مقتول کا جرم مقررہ ضابطے پر ثابت نہیں ہوا تھا تو سیاسۃ کے علاوہ قاتل کو قصاص کی سزا بھی دی جائے گی ۔

۷ ۔ اگر مقتول پہلے سے ہی غیر مسلم تھا اور اس کے خلاف الزام ثابت نہیں ہوا تھا ، یا اسے عدالت کی جانب سے سزاے موت نہیں سنائی گئی تھی ، یا اس سزا میں تخفیف کی گئی تھی ، تو قاتل کو قصاص کی سزا بھی دی جائے گی اور سیاسۃً کوئی اور مناسب سزا بھی سزا بھی دی جاسکے گی ۔ اگر مقتول کا جرم بھی ثابت تھا اور اسے سزاے موت بھی سنائی گئی تھی ، تو قاتل کو قصاص کی سزا نہیں دی جائے گی لیکن قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر تادیب کے لیے اسے سیاسۃً مناسب سزا دی جاسکے گی ۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
انسانیت کا درد رکھنے والے وہ پاکستانی مسلمان بھی خوب ہیں جن کا موقف ہے کہ اس بیچارے پریانتھا کو ہجوم کی بجائے عدالت کے ذریعہ مارنا چاہیئے تھا۔
 

علی وقار

محفلین
حیرت ہے کہ اب بھی ابہام برقرار ہے۔ غلط کو غیر مشروط طور پر غلط کہنا چاہیے۔ غامدی صاحب نے درست فرمایا کہ یہاں اگر مگر کا سوال نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
سوال یہ بنتا ہے کہ کیا مقدس آیات اور متن والا پوسٹر عوامی مقامات اور دیواروں پر لگانا شرعا جائز ہے یا نہیں؟ اس میں بے ادبی کا پہلو موجود ہے یا نہیں۔
جب کسی ایشو پر اشتعال پھیلتا ہو، فساد سے بچنا پہلی ترجیح ہونی چاہئے،
قادیانیوں کی عبادت گاہوں پر لکھا کلمہ طیبہ تو مولوی حضرات پولیس کی موجودگی میں مٹا دیتے ہیں۔ لیکن اگر یہی کام کسی اور جگہ ہو تو اشتعال انگیزی و توہین کا جرم بن جاتا ہے۔ ایسا کیسے؟
 

زیک

مسافر
یہ وقت بھی کتنا ظالم ہے! وہی وزیراعظم جو مغرب کو توہین مذہب کے خلاف مسلمانوں کے تشدد کی تاویلات دے رہا تھا آج جاوید غامدی کی ویڈیو انسٹاگرام پر لگانے پر مجبور ہو گیا۔


وہی علما جو ممتاز قادری کے گن گاتے تھے اب ایک غیرملکی سفارتخانے جا کر ایسے قتل کو خلاف اسلام قرار دے رہے ہیں۔ یہ وقت بھی کتنا ظالم ہے
 

جاسم محمد

محفلین
یہ وقت بھی کتنا ظالم ہے! وہی وزیراعظم جو مغرب کو توہین مذہب کے خلاف مسلمانوں کے تشدد کی تاویلات دے رہا تھا آج جاوید غامدی کی ویڈیو انسٹاگرام پر لگانے پر مجبور ہو گیا۔


وہی علما جو ممتاز قادری کے گن گاتے تھے اب ایک غیرملکی سفارتخانے جا کر ایسے قتل کو خلاف اسلام قرار دے رہے ہیں۔ یہ وقت بھی کتنا ظالم ہے
D9-A2-A56-F-CFF5-4531-BCC5-DE4499-B2-CA49.jpg
 
تقریباً تمام گرجا گھروں میں اس واقعے کی شدید مذمت کی گئی۔ اور پاکستان کے بہیمانہ غیر اسلامی قوانین کی مزید مذمت کی گئی۔

کیا اس طرح قتل اللہ تعالی کے فرمان سے بغاوت ہے؟
سورۃ المائیدہ، آیت نمبر 32
مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم بَعْدَ ذَلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ
اس سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اورجس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کی زندگی بخشی اورہمارے رسولوں ان کے پاس کھلے حکم لا چکے ہیں پھر بھی ان میں سے بہت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں

مندرجہ بالاء آیت ،فساد فی الارض اللہ، اور قتل کے علاوہ کسی بھی دوسری وجہ سے قتل کو سارے انسانوں کے قتل کے مساوی قرار دیتی ہے۔

اس طرح کے قتل کو پروموٹ کرنا اور ایسے ملاؤں کا ساتھ دینا اللہ کے فرمان سے انکار ہے جو اس طرح توہین مذہب کی آڑ میں قتل جائز قرار دیتے ہیں اور ایسے قاتلوں کو ہیرو بناتے ہیں، ایسے قاتلوں کو اکساتے ہیں کہ توہین ہوئی ہے تو جاؤ قتل کرو۔ پھر مقدمات کے لئے چندے جمع کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر شیطانی پیغامات پھیلاتے ہیں۔ یہ الرحمان کا رحم نہیں یہ الرحیم کا رحم نہیں۔

بسم اللہ الرحمان الرحیم
اعوذ باللہ من شیطان الرجیم

والسلام
 
حیرت ہے کہ اب بھی ابہام برقرار ہے۔ غلط کو غیر مشروط طور پر غلط کہنا چاہیے۔ غامدی صاحب نے درست فرمایا کہ یہاں اگر مگر کا سوال نہیں۔
غامدی صاحب نے درست فرمایا ہے۔ مجھ میں اتنی اخلاقی جراءت ہے کہ کہہ سکوں کہ پاکستان کا توہین رسالت کا قانون اللہ تعالی کے احکام سے بغاوت ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ وقت بھی کتنا ظالم ہے! وہی وزیراعظم جو مغرب کو توہین مذہب کے خلاف مسلمانوں کے تشدد کی تاویلات دے رہا تھا آج جاوید غامدی کی ویڈیو انسٹاگرام پر لگانے پر مجبور ہو گیا۔


وہی علما جو ممتاز قادری کے گن گاتے تھے اب ایک غیرملکی سفارتخانے جا کر ایسے قتل کو خلاف اسلام قرار دے رہے ہیں۔ یہ وقت بھی کتنا ظالم ہے
 
توہین رسالت پر سزا کا واویلا مچانے والے توہین ہولو کاسٹ پر سزا کا ماتم کیوں نہیں مناتے؟؟؟
اس کی وجہ ہے۔ مسلمان محمد ازم نامی اسلام کے پیرو کار ہیں ، جب کہ بہت سے مسلمان ان اصولوں کے قائیل ہیں جو شیطانیت اور ملاء ازم کے اصول ہیں ۔ یہی وہ اصول ہیں جم کے خلاف رسول اکرم کی تعلیمات ہیں۔

ہم آج سن ہجری اس لئے استعمال کرتے ہیں کہ یہ یادگار ہے اس -- واقعہ --- کی جس کی بنیاد ہے

-- بیان کی سزا موت --

ایک وقت وہ بھی تھا کہ رسول اکرم کی تعلیمات سے متنفر ہو کر ابو سفیان نے رسول اکرم کو ہلاک کرنے کا حکم دیا ، جس کی بناء پر رسول اکرم ن7ے ہجرت فرمائی۔ ابو سفیان نے اپنے بیٹے امیر معاویہ کو ، رسول اکرم کا تعاقب کرنے اور قتل کرنے کا حکم دیا۔ مکہ کی اکثریت ، ابو سفیان کے ساتھ تھی۔

واقعہ تھا ، ہجرت نبوی
اور وجہ ہرت تھی
---- بیہان کی سزا موت ---


بعد میں ابو سفیان (ر) تو مسلمان ہو گیا لیکن بنو امیہ اسی سفیان ازم کے مطابق ، اللہ تعالی سے بغاوت کرتے رہے۔

آج کے مسلمان نے یہ طے کرنا ہے کہ وہ

--- بیان کی سزا ، موت --- کے سفیان ازم والے اسلام پر چلتے رہیں گے

یا

پھر محمد ازم کے مطابق ، اللہ کے فرمان ، قرآن حکیم کے اسلام پر عمل کرتے رہیں گے۔

اسی سفیانی ازم پر چلنے والوں کو دنیا کس نظر سے دیکھتی ہے؟

طے کرلیجئے ، سفیانی ازم جس سے ، ابو سفیان نے بھی توبہ کی اور رضی اللہ تعالی عنہ کا درجہ پایا
یا اللہ تعالی کا اسلام؟ جس میں امن ہے، انسانیت ہے، انصاف ہے اور شیطانیت سے دور رہنے کا حکم دیتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مسلمانو، اس مقتول و"محروق" سے اگر کوئی غلطی گستاخی ہو گئی ہو تو بندھے ہاتھوں سے استدعا ہے کہ معاف کر دو!
266386658-6722961187745457-3271624567742262106-n.jpg
 
Top