ہجرتِ سرکارِ دوعالم ﷺ کی وجوہات اور حکمتیں

ہجرتِ سرکارِ دوعالم ﷺ کی وجوہات اور حکمتیں
از: ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی​
ڈاکٹر اقبالؔ سرکارِ دوعالم ﷺ کی ہجرت کے اسباب و علل بیان کرتے ہوئے رموز ِ بے خودی میں لکھتے ہیں :​
عقدۂ قومیتِ مسلم کشود​
از وطن آقاے ما ہجرت نمود​
"ہمارے آقا ﷺ نے اپنے وطن سے ہجرت فرماکر مسلمان قومیت کے عقدہ کی گرہ کھول دی۔ "​
حکمتش یک ملتِ گیتی نورد​
بر اساسِ کلمۂ تعمیر کرد​
" حضورﷺ کی حکمت نے کلمۂ توحید کی بنیاد پر ایک ایسی ملت تعمیر فرمائی جو عالمگیر تھی۔"​
تازبخشش ہاے آں سلطانِ دیں​
مسجدِ ماشد ہمہ روے زمیں​
" یہاں تک کہ دین کے اس بادشاہ کی جود و سخا کے طفیل ساری روے زمین ہماری مسجد بنادی گئی۔"​
آں کہ در قرآں خدا اورا ستود​
آں کہ حفظِ جان اور موعود بود​
" وہ ذاتِ اقدس جس کی تعریف اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمائی ہے اور اس کی جان کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے۔"​
دشمناں بے دست و پا ازہیبتش​
لرزہ بر تن از شکوہِ فطرتش​
" اس کی ہیبت سے دشمن ہر وقت بے دست و پا رہتے تھےاور جس کی فطرت کے دبدبے سے ان پر لرزہ طاری رہتا تھا۔"​
پس چرا از مسکن آبا گریخت؟​
تو گماں داری کہ از اعدا گریخت​
" بایں ہمہ حضور ﷺ نےاپنے آبائی وطن سے کیوں رختِ سفر باندھا، تیرا گمان ہے کہ حضورﷺ دشمنوں کے خوف سے ڈر کر بھاگ گئے۔"​
قصہ گویاں حق ز ما پوشیدہ اند​
معنیِ ہجرت غلط فہمیدہ اند​
" ہجرت کا واقعہ بیان کرنے والوں نے حق کو ہم سے چھپا لیا ہے اور ہجرت کا غلط معنی سمجھاہے۔"​
اس لیے یہ گمان کرنا سراسر غلط اور بے سروپا ہے کہ مختارِ کائنات ﷺ نے دشمنوں کے خوف اور ڈر سے مکۂ مکرمہ کو چھوڑا اور وہاں سے بہت دور یثرب کی ایک بستی میں اقامت گزیں ہوگئے جس کا اللہ محافظ ہو ، جس کا اللہ مدد گار ہو اس کو کسی دشمن کا کیا خوف ہوسکتا ہے اور بڑے سے بڑا دشمن اسے کیا گزند پہنچا سکتا ہے۔ حضور رحمتِ عالم ﷺ ی تیرہ سالہ مکّی زندگی کاہر دن حضور ﷺ کی بہادری اور شجاعت و بسالت پر شاہد عادل ہے۔ اس عرصہ میں تبلیغِ اسلام کے سلسلے میں حضور ﷺ نے ہزاروں زہرہ گداز مشکلات کا سامنا کیا۔ لیکن ہر موقع پر مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺ نے ایسی شجاعت و استقامت کا مظاہرہ فرمایا کہ دشمن بھی انگشت بدنداں رہ جاتے۔ ان کے بغض و عناد کے اسلحہ خانے میں کون ساایسا مہلک ہتھیار تھا جو انھوں نے ہادیِ برحق ﷺ کے خلاف نہ آزمایا ہو ، مکۂ مکرمہ کی سنگلاخ وادیاں ہوں یا طائف کے کوچہ و بازار ، شعبِ ابو طالب میں محصوری کے تین سال ہوں یا حرمِ کعبہ کا کوئی گوشہ ، راہِ حق کے اس مسافرکا قدمِ ناز کبھی نہیں پھسلا منزلِ توحید کا یہ عظیم ترین راہی مشکل ترین حالات میں بھی اپنی منزل سے کبھی بد ظن نہیں ہوا۔ رحمتِ عالم ﷺ کی ہجرت کی وجہ یہ تھی کہ مکۂ مکرمہ کے ماحول میں جہاں کفر و شرک کے تنگ دل اور سنگ دل پرستاروں کو بالا دستی حاصل تھی وہاں دعوتِ توحید کا شجر بار آور نہیں ہوسکتاتھا۔ خاندانی برتری کا بھوت جہاں سروںپر سوار تھا۔ وہاں اسلامی مساوات کا نظریہ کیوں کر نشوونما پاسکتاتھا۔ جہاں دولت و طاقت کی نخوت کے باعث عظمتِ انسانی کی ساری قدریں پامال ہوتی رہتی تھیںوہاں اسلامی عدل و احسان کے اصولوں کو کیوں کر پذیرائی حاصل ہوسکتی تھی۔ جہاں سرمایہ دارانہ نظام کی چیرہ دستیوں نے سارے معاشرے کو غریب و امیر دوطبقوں میں تقسیم کردیا ہو۔ وہاں اسلام کے کریمانہ اور فیاضانہ نظامِ معیشت پر عمل کیوں کر ممکن تھا ۔ جہاں ہر شخص اپنے قبیلے کی قوت و طاقت کے بل بوتے پر ہر ظلم روا رکھتا ہو وہاں اسلامی انصاف کے نازک نظام کو کیوں کر عملی جامہ پہنایا جاسکتا تھا۔ جہاں غریبوں اور زیردستوں کو ستانا اور لوٹنا سیادت کی نشانی ہو، جہاں مَے خواری اور قمار بازی ، دولت و ثروت کی علامت ہو ، جہاں فسق و فجور کا ارتکاب متمول خاندانوں کے نوجوانوں کا محبوب ترین مشغلہ ہو ، جہاں قحبہ گر عورتوں کے گھروں پر جھنڈے جھولتے ہوں ، وہاںاسلام کے اعلیٰ ترین ، اَخلاقی ، معاشی ، معاشرتی اور انسانیت پرور نظامِ حیات کانفاذ کیوں کر ممکن تھا۔​
اس لیے ضروری تھا کہ رہبرِ نوعِ انسانی ﷺ ایک ایسے مقام کو اپنی رہایش کے لیے اختیار کرے جہاں کی آزاد فضا میں اسلام اپنے تمام عقائد ، قوانین اور اَخلاقی ضوابط نیز سیاسی عادلانہ اصولوں کو بہ آسانی نافذ کرسکے اور اس کے لیے یثرب کی سرزمین جو قدمِ نازِ مصطفیٰ ﷺکی برکتوں کے طفیل بعد میں مدینۂ طیبہ کے نام سے موسوم ہوا۔ سازگار علاقہ تھا۔ جہاں پر رسولِ رحمت ﷺ نے اللہ عزوجل کے حکم سے ہجرت فرمائی اور آج ایمان و اسلام کی جو بہارِ جاوداں اکنافِ عالم میں پھیلی ہوئی ہے یہ سب کے سب ہجرت کے بعد سے ہی شروع ہوئی یعنی رسولِ رحمت ﷺ کی ہجرت دراصل مسلم اُمّہ کی آفاقیت اور عالم گیریت کی خشتِ اول ہے ۔​
 
خوب۔ تاہم حضرت اقبال کے مذکورہ اشعار ، اس عظیم واقعہ کے علل و حکمتوں کی طرف ایک موہوم سے اشارہ سے زیادہ نہیں۔
 
Top