مظفر وارثی ہاتھ آنکھوں پہ رکھ لینے سے خطرہ نہیں ٹلتا۔

عمراعظم

محفلین
پسندیدگی کے لیئے شکریہ محترمہ۔ محفل میں آپ کی آمد بہت کم ہو رہی ہے؟ اللہ آپ کے معاملات میں آسانیاں فرمائے۔آمین
 

محمداحمد

لائبریرین
کیا اچھی غزل ہے۔

مظفر وارثی نے کیا خوب غزلیں کہیں ہیں۔ واہ واہ واہ

بہت شکریہ عمر اعظم بھائی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
دعووں کے ترازو میں تو عظمت نہیں تُلتی
فیتے سے تو کردار کو ناپا نہیں جاتا

فرمان سے پیڑوں پہ کبھی پھل نہیں لگتے
تلوار سے موسم کوئی بدلا نہیں جاتا

چور اپنے گھروں میں تو نہیں نقب لگاتے
اپنی ہی کمائی کو تو لُوٹا نہیں جاتا

اوروں کے خیالات کی لیتے ہیں تلاشی
اور اپنے گریبانوں میں جھانکا نہیں جاتا

ظلمت کو گھٹا کہنے سے بارش نہیں ہوتی
شعلوں کو ہواؤں سے تو ڈھانپا نہیں جاتا

طوفان میں ہو ناؤ تو کچھ صبر بھی آئے
ساحل پہ کھڑے ہو کے تو ڈوبا نہیں جاتا

دریا کے کنارے تو پہنچ جاتے ہیں پیاسے
پیاسوں کے گھروں تک کوئی دریا نہیں جاتا

اللہ جسے چاہے اُسے ملتی ہے مظفر
عزت کو دوکانوں سے خریدا نہیں جاتا


لاجواب ۔۔۔۔! سدا بہار۔۔۔!
 
بہت عمدہ غزل۔ ایک ایک شعر فکر پر ابھارتا۔ بہت خوب۔
ہاتھ آنکھوں پہ رکھ لینے سے خطرہ نہیں جاتا
دیوار سے بھونچال کو روکا نہیں جاتا

دعووں کے ترازو میں تو عظمت نہیں تُلتی
فیتے سے تو کردار کو ناپا نہیں جاتا

فرمان سے پیڑوں پہ کبھی پھل نہیں لگتے
تلوار سے موسم کوئی بدلا نہیں جاتا

اوروں کے خیالات کی لیتے ہیں تلاشی
اور اپنے گریبانوں میں جھانکا نہیں جاتا

فولاد سے فولاد تو کٹ سکتا ہے لیکن
قانون کو قانون سےبدلا نہیں جاتا

ظلمت کو گھٹا کہنے سے بارش نہیں ہوتی
شعلوں کو ہواؤں سے تو ڈھانپا نہیں جاتا

طوفان میں ہو ناؤ تو کچھ صبر بھی آئے
ساحل پہ کھڑے ہو کے تو ڈوبا نہیں جاتا

دریا کے کنارے تو پہنچ جاتے ہیں پیاسے
پیاسوں کے گھروں تک کوئی دریا نہیں جاتا

اللہ جسے چاہے اُسے ملتی ہے مظفر
عزت کو دوکانوں سے خریدا نہیں جاتا
 
ہاتھ آنکھوں پہ رکھ لینے سے خطرہ نہیں جاتا
دیوار سے بھونچال کو روکا نہیں جاتا

دعووں کے ترازو میں تو عظمت نہیں تُلتی
فیتے سے تو کردار کو ناپا نہیں جاتا

فرمان سے پیڑوں پہ کبھی پھل نہیں لگتے
تلوار سے موسم کوئی بدلا نہیں جاتا

چور اپنے گھروں میں تو نہیں نقب لگاتے
اپنی ہی کمائی کو تو لُوٹا نہیں جاتا

اوروں کے خیالات کی لیتے ہیں تلاشی
اور اپنے گریبانوں میں جھانکا نہیں جاتا

فولاد سے فولاد تو کٹ سکتا ہے لیکن
قانون کو قانون سےبدلا نہیں جاتا

ظلمت کو گھٹا کہنے سے بارش نہیں ہوتی
شعلوں کو ہواؤں سے تو ڈھانپا نہیں جاتا

طوفان میں ہو ناؤ تو کچھ صبر بھی آئے
ساحل پہ کھڑے ہو کے تو ڈوبا نہیں جاتا

دریا کے کنارے تو پہنچ جاتے ہیں پیاسے
پیاسوں کے گھروں تک کوئی دریا نہیں جاتا

اللہ جسے چاہے اُسے ملتی ہے مظفر
عزت کو دوکانوں سے خریدا نہیں جاتا

مظفر وارثی

بہت خوبصورت غزل ہے۔
 
Top