ہائے تغییرزمانہ

ہائے تغییرزمانہ

گزشتہ دنوں ایک محفل میں کسی نے یہ شعر پڑھا:ہائے تغییر زمانہ، تھی جو سجدہ گاہِ عشقآج ڈھونڈا کیے پہروں، وہ گلی بھی نہ ملیسننے والے ہمیں جیسے تھے۔ تغیر کی جگہ تغییر پر چونکے کہ شاید شاعر صاحب بھی کسی ٹی وی چینل کے اینکر ہیں۔ تاہم ایک صاحب نے وضاحت کی کہ تغیر اور تغییر دو الگ الگ الفاظ ہیں اور دونوں عربی کے ہیں۔ مذکورہ شعر میں اگر تغیر استعمال کیا جائے تو وزن گڑبڑا جائے گا۔ تغیّر کا مطلب ہے: پلٹنا‘ بدلنا‘ انقلاب‘ پہلی حالت سے دوسری حالت میں جانے کا عمل۔ یہ مذکر ہے، اس کا استعمال اور معنیٰ عام ہیں۔ مثلاً اقبال کے ایک شعر کا مصرع ہے ’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘لیکن ایک اور شعر بھی ہے:میرے تغییر حال پر مت جاانقلابات ہیں زمانے کےمعلوم ہوا کہ یہاں بھی تغیر نہیں تغییر ہے (دو ’’ی‘‘ کے ساتھ)۔ تغییر مونث ہے جس کا مطلب ہے: حالت بدل دینا‘ تبدیل کرنا۔ اس کے ساتھ پلٹنا اور انقلاب دونوں میں مشترک ہیں۔ ہمیں تو مذکر‘ مونث اور شعر کا وزن پورا کرنے کی ضرورت کے سوا اور کوئی فرق نظر نہیں آیا۔اس تغییر کا ہم زلف ایک اور لفظ ہے، اور وہ ہے ’’تعیین‘‘۔ بھئی ’تعیّن‘ تو سب کی سمجھ میں آجاتا ہے اور وہ اس کے استعمال کا تعین بھی کرلیتے ہیں‘ لیکن یہاں بھی مذکر‘ مونث کا اختلاف ہے۔ یہ اختلاف قدرتی ہے۔ تعّین مذکر ہے جس کا مطلب ہے: مخصوص ہونا‘ مقرر ہونا‘ تقرر وغیرہ۔ مثلاً حکمران اپنے اہداف کا تعین بڑی آسانی سے کرلیتے ہیں مگر عمل مشکل ہوجاتا ہے۔ اسی سے ’’تعینات‘‘ ہے جس کا مطلب ہے: مقرر‘ مسلط۔ لیکن یہ جو ’’تعیین‘‘ ہے اس کا تو تلفظ بھی مشکل ہے۔ یہ مونث ہے اورمطلب ہے: ’’مقرر کرنا، مخصوص کرنا، معین کرنا، تقرر‘‘ وغیرہ۔ کچھ عرصہ پہلے تک کسی کو مقرر کیا جاتا تھا تو اس کے لیے کہا جاتا تھا کہ ’’تعینات‘‘ (تعی نات) کردیا گیا۔ یہ اسی تعیین سے ہے۔ مگر اب ٹی وی چینلز پر تعینات (تعیّن+ نات) سننے میں آرہا ہے۔ایک صاحب نے اسلام آباد سے تنوّع کا تلفظ پوچھا ہے۔ ایک چینل پر اسے تنوع (ت+ نوع۔ نوع سے پہلے ت ) کہا جارہا تھا۔ تنوّع کا مطلب ہے: رنگا رنگی، قسم قسم کا ہونا۔ نوع کا استعمال تو بہت عام ہے یعنی جنس، وضع، طور، ڈھنگ، ذات، شکل و صورت نوع انسانی اور بنی نوع انسان وغیرہ۔ متنوّع بھی اسی سے ہے۔ رہی چینلز کی بات، تو پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک خاتون بھارتی سبزیوں پر یورپی منڈی میں پابندی کی خبر دیتے ہوئے بتارہی تھیں کہ اس کی وجہ ’’جراثیم کَش‘‘ ادویات کا ضرورت سے زیادہ استعمال ہے۔ کَش اور کُش میں فرق پر پہلے بھی گفتگو ہوچکی ہے۔ حیرت تو اس پر ہے کہ پہلے کبھی پی ٹی وی پر زبان پر بہت توجہ دی جاتی تھی، مگر اب وہ بھی دوسرے چینلوں کے بہائو میں بہہ گیا ہے۔ایک لفظ اور اخبارات میں نظر آرہا ہے اور وہ ہے ’’گومگوں‘‘۔ جانے اس میں یہ نون غنہ کہاں سے آگیا! اردو خبر رساں ایجنسیاں اگر یہ لکھتی ہیں تو اخبارات میں بیٹھے ہوئے نائب مدیران اور پروف ریڈر حضرات کو دھیان دینا چاہیے۔ لیکن کیا آوے کا آوا ہی بگڑ گیا ہے؟ ویسے ہم کبھی کبھی امتحان کے طور پر پوچھ بیٹھتے ہیں کہ یہ ’’آوا‘‘ کیا چیز ہے؟ لاہور والوں کے علم میں ہوگا کہ وہاں ’’بدھو کا آوا‘‘ مشہور تھا۔ اب پتا نہیں، ہے کہ نہیں۔بھائیو! یہ گومگوں نہیں ’’گومگو‘‘ ہے۔ فارسی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے: ناگفتنی، پوشیدہ، مخفی۔ آسان الفاظ میں یہ ہے کہ ’’کہوں یا نہ کہوں‘‘۔ ’’گو‘‘ عام لفظ ہے۔ یہ لاحقہ فاعلی ہے‘ گفتن سے امر کا صیغہ اسم کے بعد آکر اسے اسم فاعلی بنادیتا ہے، مثلاً دعاگو۔ فارسی میں کسی لفظ سے پہلے میم لگا کر اس کی نفی بنالی جاتی ہے جیسے مباش۔ ’’سگ باش‘ برادر خرد مباش‘‘ اردو میں عام استعمال ہے یعنی ’’کتا بنادے، چھوٹا بھائی نہ بنا‘‘۔ اہلِ فارس میں شاید ایسا ہوتا ہو، ہمارے ہاں ایسا عموماً نہیں ہے۔ کسی نے بات بات پر اپنے چھوٹے بھائی کو دوڑایا ہوگا تو یہ محاورہ وجود میں آگیا۔ ’’گو‘‘ کا ایک مطلب اگرچہ‘ بالفرض بھی ہے، جیسے یہ شعر:گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگارلیکن تمہاری یاد سے غافل نہیں رہامیرؔ کا ایک شعر ہے:کم ہیں دنیا میں ایسے شیریں گوکاش وہ زبان میرے منہ میں ہومیرؔ صاحب نے یہ خیال امیر خسرو سے چرایا ہے، جو بہت پہلے کہہ گئے تھے کہ:زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانمچہ خوش بودے اگر بودے زبالش در دہان منشعروں کی بات چلی ہے تو اسلام آباد سے عزیزم وجیہہ احمد صدیقی نے توجہ دلائی ہے کہ گزشتہ شمارے میں اس مصرع ’’لب جاں بخش کے بوسے ملیں گے مٹی میں مل کے‘‘ میں مٹی کی جگہ خاک ہے کیونکہ مٹی سے مصرع بے وزن ہوجاتا ہے۔ اس تصحیح کا شکریہ‘ قارئین بھی نوٹ کرلیں۔اب ان اغلاط پر یہ فرمائش کیسے مان لیں کہ اس سلسلہ مضامین کو کتابی شکل میں شائع کیا جائے! بہت بہتر اور مستند کتابیں بازار میں دستیاب ہیں۔ اور اب تو ایک صاحب منظر عباسی بھی جسارت میں رواں ہوگئے ہیں۔ انہوں نے بھی کچھ گرفت کی ہے۔ ایک ٹی وی چینل پر آفتاب اقبال بھی زبان درست کررہے ہیں اور ہماری طرح غلطیاں بھی کررہے ہیں۔ ایک پروگرام میں وہ ’’داس‘‘ کا مطلب پجاری بتارہے تھے۔ داس غلام کو کہتے ہیں جس کا متبادل عربی اور اردو میں ’’عبد‘‘ ہے، مثلاً عبداللہ، عبدالرحمن۔ ہندی میں بھگوان داس یا رام داس انہی معنوں میں آتے ہیں۔

اطہر ہاشمی

http://fridayspecial.com.pk/21188
 
Top