(گیت) اجازت

سیما کرن

محفلین
دل کا ویران نگر چھوڑ کے جا سکتے ہو
تم کسی وقت بھی منہ موڑ کے جا سکتے ہو

تھک گئے ہو جو مرا بوجھ اٹھاتے ہوئے تم
میرے کندھوں پہ تھکن چھوڑ کے جا سکتے ہو

لازمی یہ بھی کہاں ہے کہ سزا تم کو ملے
تہمت اپنی مرے سر چھوڑ کے جا سکتے ہو

گھونسلے تیرے گرانا مری فطرت میں نہیں
تم پرندے ہو شجر چھوڑ کے جا سکتے ہو

تم گیا وقت نہیں ہو کہ پھر آ بھی نہ سکو
ایک امید یہ بھی چھوڑ کے جا سکتے ہو

✍:ڈاکٹر سیما شفیع
 
آپ نے اپنی اِس کاوش کو گیت کا عنوان دیا ہے ،مان لیا مگر اِس کی ہئیت غزل سے کچھ کچھ ملتی جلتی ہے لیکن کچھ اور غورکریں تو یہ غزل بھی نہیں ہے اور اگر غزل مان لیں تو قافیوں کی تکرار نے شاعر کی عجز بیانی کھول کر رکھ دی ہے اور خو د اپنے بارے میں فرمایا کہ شاعری میں آپ کی حیثیت مبتدی کی ہے تو پھر اِس کاوش کوبھرپور اصلاح کی ضرورت اساتذہ کی توجہ درکار ہے جو اُمید ہے رفتہ رفتہ میسر آجائے گی۔یعنی محفل کے سربرآوردہ لوگ جب اِس کاوش کو دیکھیں گے اور اپنی آراء سے نوازیں گے تو وہ تمام آراء رہنمائی کا کام دیں گی۔
۔۔۔۔۔۔کُل پانچ اشعار میں چار اشعار کے قافیے ’’چھوڑ ‘‘ ہیں۔(اِس کاوش کا سب سے بڑا عیب)
۔۔۔۔۔۔تہمت اپنی مرے سرچھوڑ کے جاسکتے ہویعنی آپ کہنا چاہتی تھیں کہ جوتہمتیں لوگ تم پر لگاتے ہیں وہ تم میرے سر تھوپ کر جاسکتے ہو اور کہہ یہ گئیں کہ مرے سرچھوڑ کے جاسکتے ہوتو سن لیجیے کہ تہمت لگائی جاتی ہے یا دھری جاتی ہے ۔ خواجہ میردرد کا مشہور شعراِس سلسلے میں سند ہے :’’تہمت ِ چند اپنے ذمے دھر چلے‘‘(اِسے ہم زبان و بیان کی غلطی کہیں گے)
۔۔۔۔۔۔۔گھونسلے تیرے گرانا میری فطرت میں نہیں۔تم پرندے ہو شجرچھوڑ کے جاسکتے ہوپہلے مصرعے میں جس شخصیت کے لیے ’’تیرے ‘‘ کہا اُسی شخص کے لیے دوسرے مصرعے میں ’’تم ‘‘ کا صیغہ استعمال کیا تو اِسے شترگربہ کہتے ہیں اور اِسے یوں ختم کیا جاسکتا تھا کہ پہلے مصرعے میں تو، تم ، تیرے جیسے الفاظ لائےہی نہ جائیں جیسے:’’آشیانے میں مٹادوں سو مری خُو یہ نہیں‘‘ اب دوسرے مصرعے میں آپ کہہ سکتی ہیں :’’تم پرندے ہو شجرچھوڑ کے جاسکتےہو‘‘ مگر مخاطب کو براہِ راست پرندہ کہنا بھی تو شاعری نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واللہ اعلم بالصواب!
 
آخری تدوین:

سیما کرن

محفلین
آپ نے اپنی اِس کاوش کو گیت کا عنوان دیا ہے ،مان لیا مگر اِس کی ہئیت غزل سے کچھ کچھ ملتی جلتی ہے لیکن کچھ اور غورکریں تو یہ غزل بھی نہیں ہے اور اگر غزل مان لیں تو قافیوں کی تکرار نے شاعر کی عجز بیانی کھول کر رکھ دی ہے اور خو د اپنے بارے میں فرمایا کہ شاعری میں آپ کی حیثیت مبتدی کی ہے تو پھر اِس کاوش کوبھرپور اصلاح کی ضرورت اساتذہ کی توجہ درکار ہے جو اُمید ہے رفتہ رفتہ میسر آجائے گی۔یعنی محفل کے سربرآوردہ لوگ جب اِس کاوش کو دیکھیں گے اور اپنی آراء سے نوازیں گے تو وہ تمام آراء رہنمائی کا کام دیں گی۔
۔۔۔۔۔۔کُل پانچ اشعار میں چار اشعار کے قافیے ’’چھوڑ ‘‘ ہیں۔(اِس کاوش کا سب سے بڑا عیب)
۔۔۔۔۔۔تہمت اپنی مرے سرچھوڑ کے جاسکتے ہویعنی آپ کہنا چاہتی تھیں کہ جوتہمتیں لوگ تم پر لگاتے ہیں وہ تم میرے سر تھوپ کر جاسکتے ہو اور کہہ یہ گئیں کہ مرے سرچھوڑ کے جاسکتے ہوتو سن لیجیے کہ تہمت لگائی جاتی ہے یا دھری جاتی ہے ۔ خواجہ میردرد کا مشہور شعراِس سلسلے میں سند ہے :’’تہمت ِ چند اپنے ذمے دھر چلے‘‘(اِسے ہم زبان و بیان کی غلطی کہیں گے)
۔۔۔۔۔۔۔گھونسلے تیرے گرانا میری فطرت میں نہیں۔تم پرندے ہو شجرچھوڑ کے جاسکتے ہوپہلے مصرعے میں جس شخصیت کے لیے ’’تیرے ‘‘ کہا اُسی شخص کے لیے دوسرے مصرعے میں ’’تم ‘‘ کا صیغہ استعمال کیا تو اِسے شترگربہ کہتے ہیں اور اِسے یوں ختم کیا جاسکتا تھا کہ پہلے مصرعے میں تو، تم ، تیرے جیسے الفاظ لائےہی نہ جائیں جیسے:’’آشیانے میں مٹادوں سو مری خُو یہ نہیں‘‘ اب دوسرے مصرعے میں آپ کہہ سکتی ہیں :’’تم پرندے ہو شجرچھوڑ کے جاسکتےہو‘‘ مگر مخاطب کو براہِ راست پرندہ کہنا بھی تو شاعری نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واللہ اعلم بالصواب!
💖🙏
 

سیما کرن

محفلین
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
معذرت خواہ ہوں شکیل احمد صاحب آپ کا میسج آج پڑھا دراصل وقت کی بڑی قلت رہتی ہے۔ زندگی بہت مصروف ہے کبھی کبھی وقت ملتا ہے کچھ لکھنے کا ۔ چونکہ میرا شعبہ طب ہے لہذا اتنا وقت نہیں ملتا کہ کہیں باقاعدہ شاگردی کرو ۔
آپ کا بہت شکریہ کہ میری غزل نما کو اپنی صحت مند تنقید سے نوازا ۔
ان شاء اللہ مشعل راہ ثابت ہو گی۔
 
Top