گیارہ مہینے ساڈے تے ایک مہینہ تہاڈا

پاکستان کا 65واں جشن آزادی …ہوں…کیا پدی اور پدی کا شوربہ ؟آزادی کاجشن منانے کا حق ان قوموں کو ہے جو مریخ پر پہنچ گئی ہیں نہ کہ تم جیسے نالائقوں کوجو آج تک ایک میخ بھی ایجاد نہیں کرسکے ؟وہ ستاروں پر کمند ڈال رہے ہیں اور تم گلیوں میں گند ڈال رہے ہو،ان کے درمیان اولمپکس کے طلائی طمغوں کا مقابلہ ہے اور تمہارے درمیان لوڈ شیڈنگ کی دوڑ لگی ہے ،ان کا صدر سیاہ فام ہے اور تمہاری پوری قوم کے منہ پر کالک مل دی گئی ہے،وہ ڈرون پھینکتے ہیں اور تم ”بھر دو جھولی میری ڈالروں سے“ کا راگ الاپتے رہتے ہو،انہوں نے آئن سٹائن، نیوٹن ،گلیلیو،ردر فورڈ ،بل گیٹس اور سٹیو جابز پیدا کئے اور تم نے لغاری ،مزاری ،کھچی،کھوسے اور گیلانی پیدا کئے ؟وہ ”گاڈ پارٹیکل“ دریافت کئے بیٹھے ہیں اور تمہاری دریافت لوٹے سے آگے نہیں گئی ،انہوں نے آئی فون ایجاد کیا اور تم نے فون سے بیلنس چوری کرنے کا طریقہ ایجادکیا۔​
تم جمہوریت کا ڈھول گلے میں ڈال کر کسی پاگل ملنگ کی طرح اسے پیٹتے رہتے ہو حالانکہ جس پیٹ کے آگے تم نے یہ ڈھول باندھ رکھا ہے اس کی بھوک ڈھول بجانے سے نہیں مٹتی ؟بیلٹ بکس میں ووٹ ڈالنے سے روٹیاں باہر نہیں آتیں بلکہ اپنا پیٹ کاٹ کر کمانی پڑتی ہیں؟تمہاری بیہودہ اور سڑی ہوئی ذہنیت کا تو یہ عالم ہے کہ یہ نہیں جانتے کہ فوجی ڈکٹیٹر کے زمانے میں تو لوڈ شیڈنگ کا نام و نشان نہیں تھا ،ترقی کی شرح 8فیصد تھی اور ڈالر 60روپے سے اوپر نہیں گیا تھا جبکہ آج تمہاری لعنتی جمہوریت میں ڈالر سو روپے کا ہو گیا ہے اورپٹرول کا حال یہ ہے کہ اپنے اوپر چھڑک کر آگ لگانے کے لئے بھی افورڈ نہیں ہوتا۔ یہ جمہوریت عوام کی نہیں بلکہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں، نوابوں، سرداروں،چوہدریوں، میاؤں اور زرداریوں کی جمہوریت ہے جس میں تم ہمیشہ ان حکمرانوں اور آگے سے ان کے بچوں کے بھی غلام ہی رہو گے ؟یہ آ ج کل کے ماڈرن نمرود اور فرعون ہیں جن کا اگر بس چلے تو مرتے وقت تم جیسوں کو اپنے ساتھ اہرام میں دفن کروالیں اور پھر وہاں بھی تمہارے جیسے غلام ان کی ”ممیوں“ کو ہی ووٹ دیں؟تمہارے ملک سے تو لیبیا ،مصر ،عراق ،سوڈان اوریمن جیسے ملک بہتر ہیں جہاں کے لوگوں نے اپنے حکمرانوں کو پنجروں میں بند کر کے نشان عبرت بنا ڈالا ہے ،یہاں تو تم جیسی بے غیرت عوام کو پنجروں میں بند کر دینا چاہئے جو ایسے سفاک حکمرانوں کو نہ صرف برداشت کرتے ہیں بلکہ نام نہاد ووٹ کی طاقت سے ہر مرتبہ منتخب کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم نے جمہوریت کو مضبوط کیا ہے؟​
میرا بس چلے تو ان حکمرانوں کی بجائےتم جیسے عوام کو الٹا لٹکا دوں جو پچھلے 65سالوں سے جشن آزادی مناتے جا رہے ہیں مگر ان بھک منگوں کو یہ نہیں پتہ کہ جشن کسے کہتے ہیں اور آزادی کس چڑیا کا نام ہے ۔یہ 65سال پہلے بھی غلام تھے اور جس قسم کے ان کے کرتوت ہیں آئیندہ 65سال ان کی نسلیں بھی غلام ہی رہیں گی“یہ وہ باتیں ہیں جو ہم سارا سال اپنے ٹی وی چینلز، اخبارات اور ڈرائینگ رومز میں بیٹھ کر پاکستان کے بارے میں کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارا دل نہیں بھرتا ۔جب تک ہم اپنے ملک کے بارے میں ناکامیوں کی اعلی مثالیں نہ ڈھونڈ لیں ،فقروں میں ”تھرڈ فارم“ اورعام الفاظ کی جگہ بد ترین adjective استعمال نہ کر لیں ،ہماری تسلی نہیں ہوتی۔اپنے ملک کو گالی دینے سے ہمیں عجیب طماینت کا احساس ہوتا ہے ،یوں لگتا ہے جیسے ہم نے اپنے حصے کا احتجاج بھرپور انداز میں ریکارڈ کر وادیا ہے ،ہمارا کام بس اتنا ہی تھا ،اب بھی اگر ملک ٹھیک نہیں ہوتا تو (خاکم بدہن) جہنم میں جائے ۔​
وہ تمام لوگ جنہیں اس ملک نے کروڑ پتی ارب پتی بنایا ،جو جہازی سائز کی گاڑیاں لئے پھرتے ہیں اور قلعے نما مکانوں میں رہتے ہیں ،نہ جانے کس منہ سے یہ بات کرتے ہیں یہ ملک رہنے کے قابل نہیں ۔یہ ملک واقعی رہنے کے قابل نہیں مگر اس کیلئے جسے یہ نہیں پتہ کہ اس نے آج روٹی کیسے کھانی ہے ،یا اس کیلئے جس کے پیارے کو بس میں سے اتار کر گولیوں سے اس لئے بھون دیا جاتا ہے کیونکہ اس کا تعلقکسیخاص مسلک سے تھا ،یا اس کے لئے جس کے جوان بیٹے کو ٹارگٹ کلنگ یا معصوم بچے کوخود کش دھماکے میں مار دیا گیاہو …اگر یہ مظلوم ملک کو برا بھلا کہیں تو بات سمجھ میں بھی آتی ہے کیونکہ ان کے غم کا مداوا دنیا کی کوئی دلیل نہیں کر سکتی ۔مگرحیرت مجھے ان پر ہے جو دانشوری کے زعم میں پاکستان کے وجود پر ہی سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں ۔آزادی کے 65برسوں بعد بھی ان کا تھیسزیہی ہے کہ ملک غلط بنا تھا،بندہ پوچھے کہ کیا کبھی آپ نے اپنے والدین سے یہ پوچھا کہ آپ کی ولادت جائز طریقے سے ہوئی تھی یا نا جائز؟ لیکن ملک کے بارے میں چونکہ ہرکسیکے پاس ہر بات کرنے کا لائسنس ہوتا ہے اس لئے ملک کی ولادت سے متعلق کچھ بھی کہا جا سکتا ہے ،قائد اعظم کو ”جناح صاحب“ کہہ کر اپنی علمیت کا دھاک بٹھائی جا سکتی ہے۔​
پاکستان کے علاوہ دنیا کے باقی تمام ملکوں کی مثالیں دینا بھی ہمارا محبوب مشغلہ ہے ،اور تو اور ہم عرب دنیا کے نام نہاد انقلابات کو بھی رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اگر حکمرانوں نے اپنے لچھن ٹھیک نہ کئے تو یہاں بھی مصر کا التحریر چوک آباد کیا جائے گا۔لاحول ولا۔مصریوں نے حسن مبارک جیسے ڈکٹیٹر کو تیس سال برداشت کیا،عراق نے صدام حسین کو چوبیس سال بھگتا،یمن کے علی عبد اللہ صالح نے تینتیس سال عوام کے سینوں پر مونگ دلنے کے بعد اقتدار چھوڑا،سوڈان کے عمر البشیر تئیس سال سے صدارت کے مزے لوٹ رہے ہیں اور اب اعلان فرمایا ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے اور لیبیا کے معمر قذافی تو ان سب کے باپ تھے جو تینتالیس سال تک اقتدار سے چمٹے رہے ۔کئی عرب ممالک میں دہائیوں سے ایمرجنسی نافظ ہے ،بنیادی حقوق کا کوئی تصور نہیں ،شخصی آزادی کو وہاں مذاق سمجھا جاتا ہے اور ہم ہیں کہ”خونی انقلاب“ کے نام پر ہی صدقے واری ہوئے جاتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ خونی انقلاب کتنے لاکھ بے گناہوں کا خون مانگتا ہے ۔اور قطع نظر اس سے کیا پاکستان میں کوئی بھی فوجی آمر دس گیارہ سال سے زیادہ نکال پایا ہے ؟ ہمیں تو اس بات پر فخر ہونا چاہئے کہ دنیامیں سب سے زیادہ فوجی آمروں کے خلاف اس قوم نے تحریکیں چلائیں۔​
لیکن افسوس کہ ہم اپنی قابل فخر باتوں کو بھی اپنے کھاتے میں لکھنے کی بجائے امریکہ اور اسٹبلشمنٹ کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں اور نئے سرے سے ملک کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں۔کسی زمانے میں ٹی وی پر ایک اشتہار چلا کرتا تھا جس کی پنچ لائن تھی ”سیل ،سیل،سیل…گیارہ مہینے ساڈے تے اک مہینہ تہاڈا۔“​
ہمیں بھی چاہئے کہ اور کچھ نہیں تو کم از کم ملک کو ایک مہینے کی رعایت ہی دے دیں ۔گیارہ مہینے تک ہم اس ملک کو لتاڑتے رہتے ہیں ،آزادی کے مہینے میں اگر اس لعن طعن سے پرہیز کریں تو کیا حرج ہے ؟​
بشکریہ:روزنامہ جنگ
 

زبیر مرزا

محفلین
میں چاہ کر بھی نہیں لکھ سکتا کہ میری آنکھیں آنسوں سے دھندلائی ہوئی ہیں
ملک رہ کر اس کو کوسا جا سکتا اس پر لعن طعن کی جاسکتی ہے مگر ۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔۔ اس کے حق میں اس کی محبت میں ایک لفظ بھی نہیں بول سکتا
کیونکہ مجھے بیرون ملک رہنے کا طعنہ دے کر چُپ کرانے والے بہت ہیں - میں صرف پاکستان زرمبادلہ بھیج سکتا ہوں
اس کی سلامتی کی دُعائیں کرسکتا ہوں اس کو بُرا کہنے والے جملوں پرتڑپ سکتا ہوں مگر اس کی محبت میں بول نہیں سکتا کیونکہ اس سے
نفرت کا کھل کر اظہار کرنے والے اندورن ملک اور بیرون ملک پاکستانیوں کو میری مثبت سوچ احمقانہ اورزہرلگتی ہے
 
میں چاہ کر بھی نہیں لکھ سکتا کہ میری آنکھیں آنسوں سے دھندلائی ہوئی ہیں
ملک رہ کر اس کو کوسا جا سکتا اس پر لعن طعن کی جاسکتی ہے مگر ۔۔۔ ۔۔ میں ۔۔۔ ۔۔۔ اس کے حق میں اس کی محبت میں ایک لفظ بھی نہیں بول سکتا
کیونکہ مجھے بیرون ملک رہنے کا طعنہ دے کر چُپ کرانے والے بہت ہیں - میں صرف پاکستان زرمبادلہ بھیج سکتا ہوں
اس کی سلامتی کی دُعائیں کرسکتا ہوں اس کو بُرا کہنے والے جملوں پرتڑپ سکتا ہوں مگر اس کی محبت میں بول نہیں سکتا کیونکہ اس سے
نفرت کا کھل کر اظہار کرنے والے اندورن ملک اور بیرون ملک پاکستانیوں کو میری مثبت سوچ احمقانہ اورزہرلگتی ہے
آپکو ٹیگ کی اطلاع ملی تھی؟
 

شمشاد

لائبریرین
پاکستانی قوم سہل پسند ہے اور تنقید کرنا سب سے آسان کام ہے لہذا ہم کر رہے ہیں۔

بہت اچھی اور دل کو چُھو لینے والی تحریر ہے حسیب بھائی۔ بہت شکریہ شریک محفل کرنے کا۔
 
Top