فراق گورکھپوری::: ٹھان لی اُس نے منہ چھپانے کی:::

طارق شاہ

محفلین
غزل

ٹھان لی اُس نے منہ چھپانے کی
بچ گئی آبرو زمانے کی

آگئی رات تیرے جانے کی
اب نہیں صُبح مُسکرانے کی

گیسُوئے یار سے جو ہو کے گئیں
وہ ہَوائیں نہیں اب آنے کی

پُھوٹتی پَو بھی پا سکی نہ ادا
زیرِ لب تیرے مُسکرانے کی

حُسن آیا نہیں شباب پر، اور
آنکھ پڑنے لگی زمانے کی

سمٹ آئی ہے اُس کی آنکھوں میں
ساری مستی شراب خانے کی

کہتے ہو داستانِ آدم کیا
یہ تو تمہید ہے فسانے کی

دِل بھی سِینوں میں ٹھہرے ٹھہرے ہیں
کُچھ خبر بھی ہے اُس کے آنے کی

ہائے شُعلہ نوائیاں میری!
جل گئی شاخ آشیانے کی

کیا ہے آلامِ روزگار اے دوست!
اِک ادا تیرے آزمانے کی

اُف یہ احساسِ بے کسی شَبِ غم !
بات الگ ہے تِرے نہ آنے کی

کیا کِیا اُس نے مُجھ سے یہ مت پُوچھ
مَیں نے کی، جس سے بارہا نیکی

جو مِرے دوستوں نے مُجھ سے کِیا
اِک حکایت ہے بُھول جانے کی

اُن لَبوں نے بتائی ہے ترکِیب
حرف کو داستاں بنانے کی

کیوں تِرے حُسن کی قسم کھائی
اب کے بالکل نہ یاد آنے کی

جاتے جاتے ہر ایک لمحۂ عُمر
کہہ گیا داستاں زمانے کی

پِھر تو دُنیا کو بُھول بیٹھا ہُوں
دیر تھی کوئی یاد آنے کی

چَوٹ کھا کھا کے غُنچۂ گُل کو
ہُوئی توفِیق مُسکرانے کی

دیکھ لی تیری دوستی، اے دوست!
دوستی دیکھ لی زمانے کی

یادِ ایّامِ رنج و غم میں بھی
تھی ادا تیرے یاد آنے کی

تُو نے سِیکھی ہے یہ کہاں سے ادا
ناز سے، منہ چھپا کے جانے کی

تیری موہوم دوستی کے لیے
دُشمنی مَول لی زمانے کی

سَعیِ امن و اَماں بَجا، لیکن!
کم نہیں شورَشیں زماُنے کی

اے فِراقٓ! اب مُشاعِرہ ہے شُروع
دیر تھی آپ ہی کے آنے کی

فرآق گورکھپُوری
(شری رگھوپتی سہائے)
 
آخری تدوین:
Top