فرخ منظور
لائبریرین
گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل
مجھ سے اتنی وحشت ہے تو میری حدوں سے دور نکل
ایک سمے ترا پھول سا نازک ہاتھ تھا میرے شانوں پر
ایک یہ وقت کہ میں تنہا اور دکھ کے کانٹوں کا جنگل
یاد ہے اب تک تجھ سے بچھڑنے کی وہ اندھیری شام مجھے
تو خاموش کھڑا تھا لیکن باتیں کرتا تھا کاجل
میں تو ایک نئی دنیا کی دھن میں بھٹکتا پھرتا ہوں
میری تجھ سے کیسے نبھے گی ایک ہیں تیرے فکرو عمل
میرا منہ کیا دیکھ رہا ہے، دیکھ اس کالی رات کو دیکھ
میں وہی تیرا ہمراہی ہوں ساتھ مرے چلنا ہو تو چل
( ناصر کاظمی )