گلو بٹ دے کارنامے ؛ شہباز شریف کا شیر لاہور

الف نظامی

لائبریرین
پولیس کی سرپرستی میں گاڑیاں تباہ کرنے والا گلو بٹ جسے شہباز شریف شیرِ لاہور کہا کرتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
10410244_700691196644647_7389750731585356045_n.jpg
 

الف نظامی

لائبریرین

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) ماڈل ٹاون کے علاقے میں تحریک منہاج القرآن کے مدرسے میں پولیس ایکشن کے خلاف احتجاج کے دوران ایک جانب تو پولیس مظاہرین پر فائرنگ، شیلنگ اور تشدد میں مصروف رہی تو دوسری جانب اپنے مبینہ مخبر کے ذریعے قریب کھڑی گاڑیوں کے شیشے تڑواتی رہی۔ تفصیلات کے مطابق تحریک منہاج القرآن میں پولیس آپریشن کئے جانے پر کارکن اور پولیس کے درمیان تصادم جاری تھا کہ اسی دوران ایک شخص گلو بٹ جو ماڈل ٹاﺅن پولیس کا مخبر بیان کیا جا رہا ہے کو گاڑیوں کے شیشے توڑتے دیکھا گیا، حیرت کی بات تو یہ تھی کہ یہ سب کام باوردی پولیس والوں کی نگرانی میں کیا جا رہا تھا جو ضرورت کے مطابق اس شخص کی مدد بھی کر رہے تھے اور انہیں گاڑیوں میں سے ٹیشو کے ڈبے سمیت مختلف چیزیں نکالتے بھی دیکھا گیا۔ نجی ٹی وی ایکسپریس نیوز کے مطابق گلو بٹ ماڈل ٹاون پولیس کا مخبر ہے جو علاقے کے لوگوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر پولیس کے ذریعے ہراساں کرتا ہے اور پھر پیسوں کے عوض ان کی جان بخشی ہوتی ہے۔ اس شخص کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔​
 
شہباز شریف متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ انکا نام تبدیل کردیا جائے۔۔۔چنانچہ چوہدری پرویز الٰہی صاحب نے بیحد مناسب نام تجویز کردیا ہے۔۔۔پنجاب کا نریندر مودی۔
 
ان گلو ؤں بٹوں کی شریف خاندان سے بڑی پرانی آشنائی ہے۔۔۔۔ان لوگوں نے اتفاق فونڈری میں ایسے کئی بٹ پال رکھے تھے جو وہاں پر کام کرنے والے تین ہزار مزدوروں پر دہشت وغیرہ جمانے کیلئے کارخانے میں راؤنڈ لگاتے رہتے تھے، جہاں پانچ چھ مزدور اکٹھے پائے جاتے یہ فورا وہاں پہنچ جاتے اور مغلظات کا آزادانہ استعمال کرتے۔۔۔۔ جن لوگوں نے اتفاق فونڈری اور انکے دیگر کارخانوں میں کام کیا ہے وہ اس بات کے گواہ ہیں۔۔۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ماڈل ٹاﺅن میں تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکریٹریٹ اورڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ پرپولیس چڑھائی کی اندرونی کہانی سامنے آگئی جس کے مطابق ضلعی انتظامیہ کی مخالفت کے باوجود صوبائی وزیرقانون رانا ثناءاللہ نے سبق سکھانے کے احکامات صاد رکیے ۔
تفصیلات کے مطابق صوبائی دارلحکومت میں گذشتہ روزہونیوالی ایک میٹنگ میں رانا ثنا ءاللہ نے انتظامیہ کوہدایت کہ منہاج القرآن میں کارروائی کریں تاہمکمشنر لاہور نے کارروائی کی مخالفت کرتے ہوئے آپریشن میں نہ جانے کا مشورہ دیا۔ راناثناءاللہ کارروائی پر بضد تھے اور اُنہوں نے ہدایت کی کہ مستقبل میں عوامی تحریک کو کنٹرول کرنے کے لیے کارروائی ناگزیر ہے۔
راناثناءاللہ کے احکامات پرآدھی رات کے بعدپولیس کی مختصر نفری منہاج القرآن پہنچی اوربیریئرہٹانے کی کوشش کی جس پرمتعلقہ حکام کو لاہورہائیکورٹ کے فیصلے کی کاپی دکھائی گئی لیکن رکاوٹیں ہٹانے کا کام جاری رکھنے پرپولیس اور ہوسٹل میں مقیم لڑکوں میں جھڑپ ہوگئی ۔تصادم کے بعد پولیس کی کچھ نفری واپس لوٹ گئی تاہم کچھ موقع پرموجود رہے جبکہ کہاجارہاہے کہ آخری وقت تک وزیراعلیٰ پنجاب کو واقعے سے لاعلم رکھاگیا۔
منگل کی صبح ڈی سی اولاہور اور ڈی آئی جی بھاری مشینری کے ساتھ تازہ دم دستوں کے ہمراہ موقع پرپہنچے اور”سبق “سکھانے کاعملی مظاہرہ شروع کردیاجس میں منہاج القرآن شیخوپورہ کے ناظم سمیت 8افرادجاں بحق اور80کے قریب زخمی ہوگئے ۔
پولیس ترجمان نے دعویٰ کیاکہ تجاوزارت کے خلاف آپریشن کے دوران ایک پولیس اہلکار بھی ماراگیا جسے مقامی میڈیا نے بھی بریکنگ نیوز کے طورپرچلایالیکن روزنامہ پاکستان کی تحقیقات کے مطابق لاہورکے کسی بھی ہسپتال میں پولیس اہلکار کی لاش منتقل نہیں کی ۔ ہسپتال ذرائع نے بتایاکہ مرنیوالے تمام افراد کی موت گولیاں لگنے سے واقع ہوئی جبکہ منہاج القرآن انتظامیہ کے مطابق شہداءتحریک کے کارکنان و طالبعلم تھے ۔
منہاج القرآن انسٹی ٹیوٹ کے اندر کی دیواریں بھی گولیوں سے چھلنی ہوگئی ہیں ، ہرطرف تباہی کے مناظرہیں جبکہ پولیس نے خود باہر کھڑی کئی گاڑیوں کو بھی جان بوجھ کر تباہ کردیا۔
یہ انکشاف بھی ہواہے کہ چارسال قبل حکومت پنجاب نے ہی ایک مراسلہ جاری کیاتھاجس میں منہاج القرآن انتظامیہ کوہدایت کی گئی تھی کہ سیکیورٹی خدشات موجودہیں اوروہ اپنی سیکیورٹی کے لیے انتظامات کرلیں جس کے بعد پولیس اہلکاروں نے خود ہی بیریئرنصب کیے تھے ۔
منہاج القرآن سیکریٹریٹ کے قریب ہی رہنے والے محلے کی کمیٹی کے رکن اور سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے بتایاکہ اہل علاقہ کو کوئی مسئلہ نہیں تھا، وہ خود کمیٹی کے رکن ہیں اورباہمی مشاورت سے ہی علاقے کو محفوظ بنانے کے لیے بیریئرلگانے کا فیصلہ کیاگیاجس کی عدالت نے بھی منظوری دی تھی ۔
 

باباجی

محفلین
گلو بٹ عرف شیرِ لاہور "کتے" کی طرح وردی والے کتوں کی نگرانی میں گاڑیوں کے شیشے توڑتا رہا اور وردی والے کتے اس کو دیکھ کر محظوظ ہوتے رہے۔ لخ لعنت ہے ایسی انتظامیہ پر اور کتوں کے سردار آئی جی پنجاب کتے پر ۔
ان کو بھیجنے والے کتوں پر تو لعنت بے شمار جو شیر بنے پھرتے ہیں
 
Top