عبیداللہ علیم " گزرو نہ اس طرح، کہ تماشا نہیں ہوں میں "

طارق شاہ

محفلین
غزل
عبیداللہ علیم
گزرو نہ اس طرح، کہ تماشا نہیں ہوں میں
سمجھو کہ اب ہوں اور دوبارہ نہیں ہوں میں
اک طبع رنگ رنگ تھی، سو نذرِ گلُ ہوئی
اب یہ کہ اپنے ساتھ بھی رہتا نہیں ہوں میں
تم نے بھی میرے ساتھ اُٹھائے ہیں دکھ بہت
خوش ہُوں کہ راہِ شوق میں تنہا نہیں ہوں میں
پیچھے نہ بھاگ وقت کی اے نا شناس دھوپ
سایوں کے درمیان ہوں میں، سایہ نہیں ہوں میں
جو کچھ بھی ہوں، میں اپنی ہی صورت میں ہوں علیم
غالب نہیں ہوں، میر و یگانہ نہیں ہوں میں
عبیداللہ علیم
 

سید زبیر

محفلین
پیچھے نہ بھاگ وقت کی اے نا شناس دھوپ
سایوں کے درمیان ہوں میں، سایہ نہیں ہوں میں
بہت ہی اچھا کلام منتخب کیا ہے ۔ ۔بہت خوب
 

باباجی

محفلین
اک طبع رنگ رنگ تھی، سو نذرِ گلُ ہوئی
اب یہ کہ اپنے ساتھ بھی رہتا نہیں ہوں میں

بہت خوب شاہ جی
 

طارق شاہ

محفلین
عبید اللہ علیم کا انداز بھی بہت خوب ہے۔
دل کو چھونے والی شاعری ہے ان کی۔
بہت زبردست انتخاب۔
صحیح کہا آپ نے، بہت خوب و مربوط لکھنے والے شاعروں میں شمار ہے ان کا۔
موصوف الفاظ کے چناؤ، زیروبم اوراشعار کی بستگی میں نغمگی کا بہت خیال رکھنے والوں میں سے تھے
اظہار خیال اور انتخاب پر داد کے لئے ممنون ہوں
تشکّر
 

طارق شاہ

محفلین
پیچھے نہ بھاگ وقت کی اے نا شناس دھوپ
سایوں کے درمیان ہوں میں، سایہ نہیں ہوں میں
بہت ہی اچھا کلام منتخب کیا ہے ۔ ۔بہت خوب
مکرمی سید صاحب!
منتخبہ غزل پر اظہارِ خیال اور آپ کی داد کے لئے ممنون ہوں
بہت مُسرّت ہوئی جو انتخاب آپ کو پسند آیا
تشکّر
بہت خوش رہیں
 

طارق شاہ

محفلین
اک طبع رنگ رنگ تھی، سو نذرِ گلُ ہوئی
اب یہ کہ اپنے ساتھ بھی رہتا نہیں ہوں میں

بہت خوب شاہ جی
بابا جی صاحب
کیا خوب شعر ہے!
بلکہ یوں کہنا صحیح ہوگا کہ حاصلِ غزل شعر ہے
اظہارِ خیال، داد کے لئے ممنون ہوں
خوشی ہوئی کہ انتخاب آپ کو پسند آیا
تشکّر
بہت خوش رہیں
 
Top