میر حسن گر عشق سے کچھ مجھ کو سروکار نہ ہوتا ۔ میر حسن

فرخ منظور

لائبریرین
گر عشق سے کچھ مجھ کو سروکار نہ ہوتا
تو خوابِ عدم سے کبھی بیدار نہ ہوتا

یارب میں کہاں رکھتا ترا داغِ محبت
پہلو میں اگر میرے دلِ زار نہ ہوتا

دنیا میں تو دیکھا نہ سوائے غم و اندوہ
میں کاشکے اِس بزم میں ہشیار نہ ہوتا

یوں نالہ پریشاں نہ نکلتا یہ کبھی آہ
سینے میں جو میرا یہ دل افگار نہ ہوتا

خمیازے بہت کھینچتا پھرتا میں جہاں میں
گر تیری مئے عشق سے سرشار نہ ہوتا

کرتا میں حسنِ قُدس کے عالم ہی میں پرواز
ہستی کا اگر اپنی گرفتار نہ ہوتا

(میر حسنؔ)
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ ... واہ .... واہ کہا کہنے
بہت خوب انتخاب ... شاعر اشعار پر اور آپ انتخاب پر داد قبول کیجئے

اس لفظ کو دیکھ لیں "کاش کہ"
لفظ "کاشکے" کی تحقیق یہ ہے کہ یہ فارسی زبان کا لفظ ہے ، فارسی کی طرح اردو میں بھی حرف تمنا کے طور پر اسے لیا گیا ہے ، اسے دو طرح لکھا اور باندھا جاسکتا ہے: "کاش" اور "کاشکے" جبکہ "کاش کہ" لکھنا اور سمجھنا غلط ہے۔
فارسی زبان میں الفاظ کے آخر میں "ک" اور پھر "ے" کا اضافہ مختلف معانی پیدا کرنے کی غرض سے کیا جاتا ہے جیسے چشم کا مطلب ہے "آنکھ" اور "چشمک" کا مطلب ہے "چھوٹی آنکھ" اور "چشمکے" کا مطلب ہے "کوئی ایک چھوٹی آنکھ"
لفظ "کاش" کی طرح لفظ "گویا" کے بعد بھی "کہ" کا اضافہ کرنا غلط ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
غالب کے ہاں سے:
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے اُدھر ہوتا، کاشکے مکاں اپنا
(فاعلن مفاعیلن ، فاعلن مفاعیلن)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
قہر ہو یا بلا ہو جو کچھ ہو
کاشکے تم مرے لیے ہوتے
(فاعلاتن مفاعلن فعلن)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بد گماں ہوتا ہے وہ کافر، نہ ہوتا، کاشکے!
اِس قدر ذوقِ نوائے مُرغِ بُستانی مجھے
(فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کُنج میں بیٹھا رہوں یوں پَر کھلا
کاشکے ہوتا قفس کا در کھلا
(فاعلاتن فاعلاتن فاعلن)
 
Top