گریباں چاک لوگوں کے بڑے لشکر نکلتے ہیں ۔۔ سہیل اختر

نوید صادق

محفلین
غزل

گریباں چاک لوگوں کے بڑ ے لشکر نکلتے ہیں
ترے رخ کے پسِ منظر عجب منظر نکلتے ہیں

یہ کیسا آئنہ خانہ ہے تیری بزمِ رنگیں بھی
کہ اہلِ عقل بھی اس بزم سے ششدر نکلتے ہیں

ترے صہبا کدے کی عظمتیں ہوں کیا بیاں ہم سے
گدا بھی ہوں تو وہ بھی بن کے ا سکندر نکلتے ہیں

مقید ہو چکے ہو گنبدِ بے در میں تم لیکن
جو ٹکرانے کی ہمت ہو تو کتنے در نکلتے ہیں

ترے رخسار و لب کا خواب تو صدیوں پہ بھاری ہے
بڑ ی مشکل سے ہم اس خواب سے باہر نکلتے ہیں

تعصب نے رگوں میں اس طرح سے زہر کاری کی
کہ اب تو آستینوں سے فقط خنجر نکلتے ہیں

فصیلِ شہر سے باہر کا یارو! کیا کریں شکوہ
کہ سو فتنے ہیں جو اس شہر کے اندر نکلتے ہیں

وفا کی راہ میں کٹنے کی ہو جن میں تڑ پ اختر
ہزاروں میں فقط دو چار ایسے سر نکلتے ہیں
ّّّ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(سہیل اختر)
 

محمد وارث

لائبریرین
ترے صہبا کدے کی عظمتیں ہوں کیا بیاں ہم سے
گدا بھی ہوں تو وہ بھی بن کے اسکندر نکلتے ہیں

تعصب نے رگوں میں اس طرح سے زہر کاری کی
کہ اب تو آستینوں سے فقط خنجر نکلتے ہیں

وفا کی راہ میں کٹنے کی ہو جن میں تڑ پ اختر
ہزاروں میں فقط دو چار ایسے سر نکلتے ہیں

واہ واہ، بہت خوب۔

شکریہ نوید صاحب خوبصورت غزل شیئر کرنے کیلیے!
 

فرحت کیانی

لائبریرین
تعصب نے رگوں میں اس طرح سے زہر کاری کی
کہ اب تو آستینوں سے فقط خنجر نکلتے ہیں

فصیلِ شہر سے باہر کا یارو! کیا کریں شکوہ
کہ سو فتنے ہیں جو اس شہر کے اندر نکلتے ہیں

وفا کی راہ میں کٹنے کی ہو جن میں تڑ پ اختر
ہزاروں میں فقط دو چار ایسے سر نکلتے ہیں


واہ۔ لاجواب کلام :)
بہت شکریہ :)
 
Top