گرچہ کہ پراثر نہیں

پاس ہے ضابطوں کا چند، تیر نہیں تبر نہیں
لاگ ہے اپنے آپ سے، جنگ و جدل مگر نہیں

میں ہوں بدیع و شادماں یا کہ ملول و شرمسار
اس پہ قیاس کچھ نہ کر مجھ کو بھی کچھ خبر نہیں

رکھا ہوا ہے بخت نے کسوتِ ارتباط میں
یہ تو ہے سب پہ آشکار مجھ میں کوئی ہنر نہیں

بکھرے ہوئے ہیں سب خیال، شعر ہو کیوں نہ لخت لخت
ذہن کا ترجماں تو ہے، گرچہ کہ پراثر نہیں

میری قضا سے مسئلے سارے تو حل نہ ہو سکے
پر ہے شرف یہی بہت، کوئی بھی چشم تر نہیں
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
ایک ایک شعر موتیوں جیسا ۔۔! بہت اعلیٰ! ایک نہایت عمدہ تخلیق جس پر شاعر کو بجا طور پر ناز ہو سکتا ہے ۔۔۔! شراکت کے لیے شکریہ ۔۔۔!
 
خوب غزل ہے قریشی صاحب، لاجواب!
حوصلہ افزائی پر بہت ممنون ہوں جناب۔
بہت عمدہ۔
پوری غزل ہی لاجواب
بہت شکریہ تابش بھائی!
واہ، بہت اچھی غزل ہے
بہت عنایت استادِ محترم۔
ایک ایک شعر موتیوں جیسا ۔۔! بہت اعلیٰ! ایک نہایت عمدہ تخلیق جس پر شاعر کو بجا طور پر ناز ہو سکتا ہے ۔۔۔! شراکت کے لیے شکریہ ۔۔۔!
آپ کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا فرقان بھائی۔ ہمیشہ حوصلہ افزائی فرماتے ہیں۔ سدا خوش رہیے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
عزیزم ریحان السلام علیکم !

محفل میں آپ کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے -کبھی یہاں آپ سے رونقیں تھیں انھیں پھر سے بحال کیجیے -
آپ کی غزل پہ میں نے کچھ لکھنا تھا مگر جمہوریت کا احترام کرتے ہوئے لکھنا موقوف -

:لوگ کہتیں ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے :
 
Top