ٹائپنگ مکمل گردِ مُسافت۔از۔ محسن بھوپالی کی کتابت

شیزان

لائبریرین
انتساب
ذوالفقار علی بخاری مرحوم
کے نام
جن کے سوال کے جواب میں مَیں نے یہ نظمانہ کہا تھا جو اپنے
سوال کے ساتھ آج بھی زندہ ہے
دُور اندیشی
تم محسن ہو؟
یہ تو ٹھیک ہے
لیکن تم یہ بھوپالی کیوں لکھتے ہو؟
اگر نہ لکھتا، آپ پوچھتے
کہاں کے رہنے والے ہو؟
میں کہتا لَڑکانے کا
تم پھر کہتے، پاکتسان آنے سے پہلے
کون سے شہر میں رہتے تھے؟
میں کہتا، بھوپال
۔۔۔۔۔۔۔گھما پھرا کر مجھ کو جو بتلانا پڑتا
میں نے ساتھ ہی لکھ رکھا ہے
 

شیزان

لائبریرین
حرف ِاظہار
1948ء کے دوران میں نے اِس دشتِ سُخن میں قدم رکھا۔ آج چالیس سال کی مسافت کے بعد جب پچھلے سفر پر نظر ڈالتا ہوں تو ہلکی گہری گرد میں سے دور۔۔۔۔ نسبتاً نزدیک۔۔۔ اور بہت نزدیک ، تین موڑ نمایاں ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں:۔
نیرنگئ سیاستِ دَوراں تو دیکھئے
منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
شکستِ شب۔1961ء
ہماری جان پہ دہرا عذاب ہے محسن
کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے
ماجرا۔1981ء
تمہیں آسائشِ منزل مبارک
ہمیں گردِ مُسافت بہت ہے
گردِ مسافت۔1988ء
یہ موڑ اظہارِ صداقت۔۔۔ نظریۂ فن۔۔۔ اور پندارِ فکر کے آئینہ دار ہیں کہ شعری سطح پر
اظہارِ صداقت کے جذبے نے میرے نظریۂ فن کو جلا بخشی ہے اور نظریۂ فن نے پندارِ فکر کا سرمایہ عطا کیا ہے۔
اپنی فکر، اپنے فن اور اپنی شخصیت کے عنوان سے یا ان کی آڑ لے کر بہت کچھ کہا اور لکھا جا سکتا ہے لیکن میرا ایقان ہے کہ اچھا شعر تنقید کا متحمل نہیں ہو سکتا۔۔ اسے محسوس کر کے حِظ حاصل کیا جا سکتا ہے یا عمل پیرا ہوا جا سکتا ہے۔ اسی طرح شاعر کو اچھا مانا تو جا سکتا ہے منوایا نہیں جا سکتا۔۔ آج قارئین کی خدمت میں "گردِ مُسافت" اسی احساس کے ساتھ پیش کر رہا ہوں
محسن بھوپالی
6 مئی۔ 1988ء
 

شیزان

لائبریرین
غزلیں
زاویہ کوئی مقّرر نہیں ہونے پاتا
دائمی ایک بھی منظر نہیں ہونے پاتا
عمرِ مصُروف، کوئی لمحۂ فرصت ہو عطا
میں کبھی خود کو میسر نہیں ہونے پاتا
آئے دن آتش و آہن سے گزرتا ہے مگر
دل وہ کافر ہے کہ پتھّر نہیں ہونے پاتا
کیا اُسے جبرِ مشیّت کی عنایت سمجھوں
جو عمل میرا مقّدر نہیں ہونے پاتا
چشمِ پُرآب سمو لیتی ہے آلام کی گرد
آئینہ دل کا مکدّر نہیں ہونے پاتا
چادرِ عجز گھٹا دیتی ہے قامت میرا
میں کبھی اپنے برابر نہیں ہونے پاتا
فن کے کچھ اور بھی ہوتے ہیں تقاضے محسن
ہر سُخن گُو تو سُخنور نہیں ہونے پاتا
 

شیزان

لائبریرین
نذرِ فیض
وہ ساتھ لے گیا قول و قرار کا موسم
تمام عمر ہے اب اِنتظار کا موسم
حیات اب بھی کھڑی ہے اُسی دوراہے پر
وہی ہے جبر، وہی اِختیار کا موسم
ابھی تو خُود سے ہی فارغ نہیں ہیں اہلِ جمال
ابھی کہاں دلِ اُمید وار کا موسم
اُسے بھی وعدہ فراموشی زیب دیتی ہے
ہمیں بھی راس نہیں اعتبار کا موسم
جہاں گِرے گا لہُو، پُھول بھی کِھلیں گے وہیں
کِسی کے بس میں نہیں ہے بہار کا موسم
کبھی تو لوٹ کے دِلداریوں کی رُت آئے
سدا بہار ہے مُدت سے دَار کا موسم
ہم اپنے آپ کو محسن بدل کے دیکھیں گے
بدل سکے نہ اگر کُوئے یار کا موسم
 

شیزان

لائبریرین
لب اگر یوں سئے نہیں ہوتے
اُس نے دعوے کئے نہیں ہوتے
خُوب ہے، خُوب تر ہے، خُوب ترین
اِس طرح تجزیئے نہیں ہوتے
گر ندامت سے تم کو بچنا تھا
فیصلے خُود کئے نہیں ہوتے
بات بین السّطوُر ہوتی ہے
شعر میں حاشئے نہیں ہوتے
تیرگی سے نہ کیجئے اندازہ
کچھ گھروں میں دیئے نہیں ہوتے
ظرف ہے شرطِ اوّلیں محسن
جام سب کے لیے نہیں ہوتے
 

شیزان

لائبریرین
روشنی ختم ہوئی، اہلِ نظر باقی ہیں
جنھیں دستار میّسر ہے، وہ سَر باقی ہیں
کاٹ لیتے ہیں کبھی شاخ ، کبھی گردنِ دوست
اب بھی چند ایک روایاتِ سفر باقی ہے
اپنے ہمسایوں کا غم بھی ہے اور اپنا غم بھی ہے
اِس تگ و دو میں غنیمت ہے کہ گھر باقی ہیں
سخت جانی کی بھلا اِس سے بڑی کیا ہو مثال
بےشجر شاخ ہے اور برگ و ثمر باقی ہیں
ہو مبارک تمہیں تخلیق پہ تمغے کی سند
میرے حصے کے ابھی زخمِ ہُنر باقی ہیں
 

شیزان

لائبریرین
صحرا نوردیوں نے دیا ہے وہ حوصلہ
ذکرِ بہار دامنِ پُرخار پر لکھا
بخت آزمائی میرے قبیلے کی رسم ہے
دیوار پر جو لکھا، وہی دار پر لکھا
 

شیزان

لائبریرین
یُونہی تو شاخ سے پتے گِرا نہیں کرتے
بچھڑ کے لوگ زیادہ جیا نہیں کرتے
جو آنے والے ہیں موسم، اُنہیں شمار میں رکھ
جو دن گزر گئے، اُن کو گنا نہیں کرتے
نہ دیکھا جان کے اُس نے ، کوئی سبَب ہوگا
اِسی خیال سے ہم دل بُرا نہیں کرتے
وہ مل گیا ہے تو کیا قصۂ فِراق کہیں
خُوشی کے لمحوں کو یُوں بے مزا نہیں کرتے
نِشاطِ قُرب، غم ہجر کے عوض مت مانگ
دُعا کے نام پہ یُوں بددُعا نہیں کرتے
مُنافقت پہ جنہیں اِختیار حاصل ہے
وہ عرض کرتے ہیں ، تجھ سے گِلہ نہیں کرتے
ہمارے قتل پہ محسن یہ پیش و پس کیسی
ہم ایسے لوگ طلب خُون بہا نہیں کرتے
 

شیزان

لائبریرین
لفظ تو ہوں، لبِ گفتار نہ رہنے پائے
اب سماعت پہ کوئی بار نہ رہنے پائے
کَس طرح کے ہیں مکیں، جِن کی تگ و دو ہے یہی
دَر تو باقی رہیں ، دِیوار نہ رہنے پائے
اُس میں بھی پہلوئے تسکین نکل آتا ہے
ایک ہی صُورتِ آزار نہ رہنے پائے
ذہن تا ذہن مہکتا ہی رہے زخمِ ہُنر
فصلِ حرف و لبِ اِظہار نہ رہنے پائے
اب کے موسم میں یہ معیارِ جُنوں ٹھہرا ہے
سر سلامت رہیں، دستار نہ رہنے پائے
کوئی درماں کہ ہوا چیخ رہی ہے محسن
نخلِ ہستی پہ کوئی بار نہ رہنے پائے
 

شیزان

لائبریرین
بدن تو جل گئے، سائے بچا لئے ہم نے
جہاں بھی دُھوپ ملی، گھر بنا لئے ہم نے
اُس امتحان میں سنگِین کِس طرح اُٹھتی
دُعا کے واسطے جب ہاتھ اُٹھا لئے ہم نے
کٹھن تھی شرطِ رہِ مسُتقیم، کیا کرتے
ہر ایک موڑ پہ کتبے سجا لئے ہم نے
ہمارے بس میں کہاں تھا کہ ہم لُہو دیتے
یہی بہت ہے کہ آنسُو بہا لئے ہم نے
سمندروں کی مسافت پہ جن کو جانا تھا
وہ بادباں سرِ ساحل جلا لئے ہم نے
بڑے تپاک سے کچھ لوگ ملِنے آئے تھے
بڑے خلُوص سے دُشمن بنا لئے ہم نے
 

شیزان

لائبریرین
زخم خوردہ تو اُسی کا تھا سپر کیا لیتا
اپنی تخلیق سے میں دادِ ہُنر کیا لیتا
وہ کِسی اور تسلسل میں رہا محوِ کلام
میری باتوں کا بھلا دل پہ اثر کیا لیتا
اُس کو فرصت ہی نہ تھی نازِ مسیحائی سے
اپنے بیمار کی وہ خیر خبر کیا لیتا
ایک آواز پہ مقسُوم تھا چلتے رہنا
بے تعیّن تھا سفر، رختِ سفر کیا لیتا
سازِ لب گُنگ تھے، بےنُور تھی قندیلِ نظر
ایسے ماحول میں الزامِ ہنر کیا لیتا
بےنیازانہ رہا اپنی روش پر محسن
شب پرستوں سے بھلا فالِ سحر کیا لیتا
 

شیزان

لائبریرین
اپنا آپ تماشا کر کے دیکھوں گا
خُود سے خُود کو مِنہا کر کے دیکھوں گا
وہ شعلہ ہے یا چشمہ، کُچھ بھید کُھلے
پتھر دل میں رستہ کر کے دیکھوں گا
کب بچھڑا تھا، کون گھڑی تھی، یاد نہیں
لمحہ لمحہ یکجا کر کے دیکھوں گا
وعدہ کر کے لوگ بُھلا کیوں دیتے ہیں
اب کے میں بھی ایسا کر کے دیکھوں گا
کتنا سچا ہے وہ میری چاہت میں
محسن خُود کو رسوا کر کے دیکھوں گا
 

شیزان

لائبریرین
قطعہ
کچھ اُس میں دخل نہ ہو میرے نرم لہجے کا
بِنائے تلخ کلامی ضرُور ہے کوئی
وہ بےسبَب ہے، بلا واسطہ ہے یا بےلوث
مرے خلُوص میں خامی ضرور ہے کوئی!
 

شیزان

لائبریرین
جو اُس کا ہے وہ غم شاید اپنا ہو
پُوچھو تو یہ محرم شاید اپنا ہو
اِس رُت نے تو چھین لیا ہے ہر اِمکاں
آنے والا موسم شاید اپنا ہو
منظر نامہ سُن کر دل بھر آیا ہے
تاراجی کا عالم شاید اپنا ہو
دُشمن جیسی باتیں یہ کیوں کرتا ہے
یُوں بھی سوچو، ہمدم شاید اپنا ہو
پت جھڑ کی آواز پہ محسن دھیان تو دو
ویرانی کا عالم شاید اپنا ہو
 

شیزان

لائبریرین
قطعہ
اب کیا یقین آئے کہ شک رہگذر میں ہے
منزل کا اعتبار بھی شامل خبر میں ہے
افسوس یہ نہیں ہے کہ وعدے بُھلا دیئے
حیرت یہ ہے، وہ اب بھی صفِ معتبر میں ہے
 

شیزان

لائبریرین
بچھڑ کے تجھ سے میّسر ہوئے وصال کے دن
ہیں تیرے خواب کی راتیں، ترے خیال کے دن
فراقِ جاں کا زمانہ گزارنا ہو گا
فُغاں سے کم تو نہ ہوں گے یہ ماہ و سال کے دن
ہر اِک عمل کا وہ کیا کیا جواز رکھتا ہے
نہ بن پڑے گا جواب ایک بھی، سوال کے دن
عُروجِ بخت مبارک، مگر یہ دھیان رہے
اِنہی دنوں کے تعاقب میں ہیں زوال کے دن
گُزر رہے ہیں کچھ اِس طرح روز و شب اپنے
کہ جس طرح سے کٹیں شاخِ بےنہال کے دن
شِکایتیں بھی بہت ہیں، حِکایتیں بھی بہت
گُزر نہ جائیں یُونہی عہدِ بےمثال کے دن
وہ زندگی کو نیا موڑ دے گیا محسن
یہی زوال کے دن ہیں مرے کمال کے دن
 

شیزان

لائبریرین
ملے تھے خوف سے، بچھڑے ہیں اعتماد کے ساتھ
گزار دیں گے اِسی خوشگوار یاد کے ساتھ
یہ ذوق و شوق فقط لُطفِ داستاں تک ہے
سفر پہ کوئی نہ جائے گا سِندباد کے ساتھ
زمانہ جتنا بکھیرے، سنوَرتا جاؤں گا
ازل سے میرا تعلق ہے خاک و باد کے ساتھ
اُسے یہ ناز، بالآخر فریب کھا ہی گیا
مجھے یہ زعم کہ ڈُوبا ہوں اعتماد کے ساتھ
بڑھا گیا مرے اشعار کی دلآویزی
تھا لُطفِ ناز بھی شامل کِسی کی داد کے ساتھ
گزر رہی ہے کچھ اِس طرح زندگی محسن
سفر میں جیسے رہے کوئی گردباد کے ساتھ
 

شیزان

لائبریرین
بےخبر سا تھا مگر سب کی خبر رکھتا تھا
چاہے جانے کے سبھی عیب و ہُنر رکھتا تھا
لاتعلق نظر آتا تھا بظاہر لیکن
بےنیازانہ ہر اِک دل میں گزر رکھتا تھا
اُس کی نفرت کا بھی معیار جدا تھا سب سے
وہ الگ اپنا اِک اندازِ نظر رکھتا تھا
بےیقینی کی فضاؤں میں بھی تھا حوصلہ مند
شب پرستوں سے بھی اُمیدِ سحر رکھتا تھا
مشورے کرتے ہیں جو گھر کو سجانے کے لیے
اُن سے کِس طرح کہوں، میں بھی تو گھر رکھتا تھا
اُس کے ہر وار کو سہتا رہا ہنس کر محسن
یہ تاثر نہ دیا، میں بھی سپر رکھتا تھا
 
Top