ٹائپنگ مکمل گردِ مُسافت۔از۔ محسن بھوپالی کی کتابت

شیزان

لائبریرین
جو غم شناس ہو، ایسی نظر تجھے بھی دے
یہ آسماں غمِ دیوار و در تجھے بھی دے
سُخن گُلاب کو کانٹوں میں تولنے والے
خدا سلیقۂ عرضِ ہُنر تجھے بھی دے
خراشیں روز چنُے اور دل گرفتہ نہ ہو
یہ ظرفِ آئینہ، آئینہ گر تجھے بھی دے
پرکھ چکی ہے بہت مجھ کو یہ شبِ وعدہ
اب انتظار زدہ چشمِ تر تجھے بھی دے
ہے وقت سب سے بڑا منتقم، یہ دھیان میں رکھ
نہ سہہ سکے گا یہی غم، اگر تجھے بھی دے
سبھی شہادتیں تیرے خلاف ہیں محسن
یہ مشورہ دلِ خُود سر مگر تجھے بھی دے
 

شیزان

لائبریرین
وہ برگِ خُشک تھا اور دامنِ بہار میں تھا
نمودِ نَو کی بشارت کے اِنتظار میں تھا
مری رفیقِ سفر تھیں حسد بھری نظریں
وہ آسمان تھا اور میرے اِختیار میں تھا
بکھر گیا ہے تو دل اب نِگار خانہ ہے
غضب کا رنگ اُس اِک نقشِ اعتبار میں تھا
اب آ گیا ہے تو ویرانیوں پہ طنز نہ کر
ترا مکاں اِسی اجڑے ہوئے دیار میں تھا
لکھے تھے نام مرے قتل کرنے والوں کے
عجیب بات ہے، میں بھی اُسی شمار میں تھا
مجھے تھا زُعم مگر میں بِکھر گیا محسن
وہ ریزہ ریزہ تھا اور اپنے اِختیار میں تھا
 

شیزان

لائبریرین
وقت کی رَو کو حقیقت نہ سمجھ لیجئے گا
اِس سیاست کو سیاست نہ سمجھ لیجئے گا
یہ تعلق ہے ابھی وجہِ تعلق تو کُھلے
ملِنے جُلنے کو محبت نہ سمجھ لیجئے گا
یہ بھی ممکن ہے سنبھلتا نہ ہو دستار کا بوجھ
سر جُھکانے کو عقِیدت نہ سمجھ لیجئے گا
جاگتی آنکھوں اگر خواب نظر آتے ہوں
اُن کی تعبیر کو وحشت نہ سمجھ لیجئے گا
ایک ہی کھیل تو ہے جس میں نہیں جاں کا زیاں
دل کی بازی کو سیاست نہ سمجھ لیجئے گا
عرض کر سکتا ہوں مَیں بھیک نہیں مانوں گا
میری خواہش کو ضرُورت نہ سمجھ لیجئے گا
یہ تو پیرایۂ اِظہارِ سُخن ہے محسن
میری عادت کو ارادت نہ سمجھ لیجئے گا
 

شیزان

لائبریرین
کیا خبر تھی ہمیں یہ زخم بھی کھانا ہو گا
تو نہیں ہو گا، تری بزم میں آنا ہو گا
ہم کہ اپنے کو حقیقت سے سوا جانتے ہیں
ایک دن آئے گا اپنا بھی فسانہ ہو گا
عرصۂ رزم و کمیں گاہ کی اب قید نہیں
کون جانے کہ یہاں کون نِشانہ ہو گا
کہہ رہے ہیں یہ بدلتے ہوئے منظر محسن
وقت جو بیت گیا ہے، اُسے آنا ہو گا
 

شیزان

لائبریرین
قطعہ
اُس نے کُھل کر سچ کا تو اِظہار کیا
خُوش ہوں وعدہ کرنے سے اِنکار کیا
جب تک تھا بےلوث تعلق قائم تھا
میں نے اپنی خواہش کو دِیوار کیا
 

شیزان

لائبریرین
غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا
وہ شخص لہجہ بڑا دل نشین رکھتا تھا
ہے تار تار مرے اعتماد کا دامن
کِسے بتاؤں کہ میں بھی اِمین رکھتا تھا
اُتر گیا ہے رگوں میں مری لہُو بن کر
وہ زہر ذائقہ انگبین رکھتا تھا
گُزرنے والے نہ یُوں سرسری گُزر دل سے
مکاں شِکستہ سہی، پر مکین رکھتا تھا
وہ عقلِ کُل تھا بھلا کِس کی مانتا محسن
خیالِ خام پہ پُختہ یقین رکھتا تھا
 

شیزان

لائبریرین
قطعہ
تردید کی سب خبریں اخبار سے ملتی ہیں
اخبار کی تردیدیں دیوار سے ملتی ہیں
کیا نثر میں رکھا ہے جُز مدح و ثنا محسن
اب کام کی باتیں بھی اشعار سے ملتی ہیں
 

شیزان

لائبریرین
فنِ تشہیر سے کوئی بھی بےگانہ نہیں ملتا
جریدوں میں مگر حرفِ حکیمانہ نہیں ملتا
ہمارے عہد سے تم کوہکن تک اِک نظر ڈالو
یہ کارِ عشق ہے اِس میں محنتانہ نہیں ملتا
یہ کیسا دشت، کیسی سرزمینِ بےروایت ہے
یہاں تو زیرِ دام آنے پہ بھی دانہ نہیں ملتا
محبت پیشگاں پر اَبتری کا دَور آیا ہے
کہ اُن کو پیش کش ملتی ہے، بیعانہ نہیں ملتا
اُچٹتی سی نظر بےچین ہے شاداب کرنے کو
کئی دن سے مگر وہ ننگِ ویرانہ نہیں ملتا
کبھی تنہا جو ہوتا ہے خیالوں میں نہیں ہوتا
وہ ملتا ہے مگر خود سے جُداگانہ نہیں ملتا
عجب معیار ہے وعدہ خلافی کا محبت میں
زرِ آزار تو ملتا ہے، ہرجانہ نہیں ملتا
فنا بنیادِ ہستی پر نہ اِترانا کہ بعض اوقات
وسائل ہوں مگر مہلت کا پروانہ نہیں ملتا
عجیب یکسانیت سی زندگی میں آ گئی محسن
بہت دن سے کوئی موضوعِ نظمانہ نہیں ملتا
 

شیزان

لائبریرین
خبر کیا تھی نہ ملنے کے نئے اسبَاب کر دے گا
وہ کر کے خواب کا وعدہ، مجھے بےخواب کر دے گا
کِسی دن دیکھنا وہ آ کے میری کشتِ ویراں پر
اُچٹتی سے نظر ڈالے گا اور شاداب کر دے گا
وہ اپنا حق سمجھ کر بُھول جائے گا ہر اِک احساں
پھر اِس رسمِ اَنا کو داخلِ آداب کر دے گا
نہ کرنا زُعم، اُس کا طرزِ استدلال ایسا ہے
کہ نقشِ سنگ کو تحریرِ موجِ آب کر دے گا
اسیر اپنے خیالوں کا بنا کر ایک دن محسن
خبر کیا تھی، مجھے میرے لیے کمیاب کر دے گا
 

شیزان

لائبریرین
نظر ملا کے ذرا دیکھ، مت جُھکا آنکھیں
بڑھا رہی ہیں نِگاہوں کا حوصلہ آنکھیں
جو دل میں عکس ہے، آنکھوں سے بھی وہ جھلکے گا
دل آئینہ ہے مگر دل کا آئینہ آنکھیں
وہ اِک ستارا تھا، جانے کہاں گِرا ہو گا
خلا میں ڈُھونڈ رہی ہیں نہ جانے کیا آنکھیں
قریبِ جاں دم خلوت، مگر سرِمحفل
ہیں اجنبی سے بھی بڑھ کر وہ آشنا آنکھیں
غمِ حیات نے فرصت نہ دی ٹھہرنے کی
پُکارتی ہی رہیں مجھ کو بےصدا آنکھیں
تباہیوں کا کِسی نے اگر سبَب پوچھا
زبانِ حال نے بے ساختہ کہا، آنکھیں
جھٹک چکُا تھا میں گردِ ملال چہرے سے
چُھپا سکیں نہ مگر دل کا ماجرا آنکھیں
یہ اُس کا طرز تخاطب بھی خوب ہے محسن
رُکا رُکا سا تبسم، خفا خفا آنکھیں
 

شیزان

لائبریرین
چاہت میں کیا دُنیا داری، عشق میں کیسی مجبُوری
لوگوں کا کیا، سمجھانے دو، اُن کی اپنی مجبُوری
مَیں نے دل کی بات رکھی اور تُونے دُنیا والوں کی
میری عرض بھی مجبُوری تھی، اُن کا حکم بھی مجبُوری
روک سکو تو پہلی بارِش کی بُوندوں کو تم روکو
کچی مٹی تو مہکے گی، ہے مٹی کی مجبُوری
ذات کدے میں پہروں باتیں اور ملیں تو مُہربلب
جبرِ وقت نے بخشی ہم کو اب کے کیسی مجبُوری
جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے، سب اپنے ہیں
وقت پڑے تو یاد آ جاتی ہے، مصنُوعی مجبُوری
مُدّت گزری اِک وعدے پر آج بھی قائم ہیں محسن
ہم نے ساری عمر نباہی، اپنی پہلی مجبُوری
 

شیزان

لائبریرین
تِشنگی بےسبَب نہیں ہوتی
مے کشی بے سبَب نہیں ہوتی
محتِسب خُود بھی اِس کا قائل ہے
زِندگی بےسبَب نہیں ہوتی
دوستی بھی کبھی رہی ہو گی
دشمنی بےسبَب نہیں ہوتی
گھر جلا ہے یا دل جلا ہے کوئی
روشنی بےسبَب نہیں ہوتی
دخل ہوتا ہے کچھ نظر کو بھی
دلکشی بےسبَب نہیں ہوتی
کِسی طوفاں کی آمد آمد ہے
خامشی بےسبَب نہیں ہوتی
کیا کِسی کے ہو منتظِر محسن
بےکلی بےسبِب نہیں ہوتی
 

شیزان

لائبریرین
وقت کے تقاضوں کو اِس طرح بھی سمجھا کر
آج کی گواہی پر مت قیاسِ فردا کر
تیرے ہر رویے میں بدگمانیاں کیسی
جب تلک ہے دُنیا میں، اعتبارِ دُنیا کر
جِس نے زندگی دی ہے، وہ بھی سوچتا ہو گا
زندگی کے بارے میں اِس قدر نہ سوچا کر
حرف و لب سے ہوتا ہے کب اَدا ہر اِک مفہوُم
بےزبان آنکھوں کی گفتگُو بھی سمجھا کر
ایک دن یہی عادت تجھ کو خُوں رُلائے گی
تُو جو یوں پرکھتا ہے ہر کِسی کو اپنا کر
یہ بدلتی قدریں ہی حاصلِ زمانہ ہیں
بار بار ماضی کے یوں ورَق نہ اُلٹا کر
خُوں رُلائیں گے منظر، مت قریب آ محسن
آئینہ کدہ ہے دہر، دُور سے تماشا کر
 

شیزان

لائبریرین
سرمایۂ یقین بھی ہرچند پاس تھا
جِس نے مجھے بچایا، وہ میرا قیاس تھا
نوواردِ بساط سے کھاتا میں کب شِکست
شَہ بھی اُسی نے دی تھی، مجھے اُس کا پاس تھا
تُجھ سے ملا تو ذات کا عِرفاں ہُوا مجھے
نِکلا خیالِ خام کہ میں خُودشناس تھا
اِس عہد ناشناس سے اب کیا گِلہ کروں
تنہائیوں میں رہ کے بھی جو میرے پاس تھا
اب حرفِ اِنبساط سے بھی کانپتا ہے دل
گزرا ہے ایسا دَور کہ جب غم بھی راس تھا
ہونا بھی چاہیئے تھا اُسے میرے رُوبرُو
وہ شخص ہی تو میرے کبھی آس پاس تھا
 

شیزان

لائبریرین
وہ شرر ہے کہ سِتارا ہے کہ جگنُو، کیا ہے
اُس سے مل کر یہ یقیں آیا کہ جادُو کیا ہے
کشتِ ویراں کو عطا کر کے نئی رُت کی نوید
اُس نے احساس دیا، لمَس کی خُوشبُو کیا ہے
اُس کو دیکھا جو نظر بھر کے تو عِرفان ہوا
عشق کہتے ہیں کِسے، نعرہء یاہُو کیا ہے
اُس سے منسُوب ہوئے لفظ تو معنی بھی کُھلے
رنگ کہتے ہیں کِسے، موجۂ خُوشبُو کیا ہے
ایک مدت میں جو بِگڑا ہے تو احساس ہُوا
کیا ہے ماتھے کی شِکن، جُنبشِ اَبرُو کیا ہے
شاخ دَر شاخ رَقم ہے مری رُودادِ سفر
اور شجر پوچھتا ہے ربطِ من و تُو کیا ہے
ایک مدت کی سُلگتی ہوئی تنہائی نہ ہو
وہ لرزتا ہوا سایہ سا لبِ جُو کیا ہے
اُس کے حلقے سے نکلنا نہ تھا آساں محسن
بچ نہ سکتے ہوں فرشتِے بھی جہاں ، تُو کیا ہے
 

شیزان

لائبریرین
نظمیں:
دوراہے پر
بچھڑنا ہے تم کو​
بچھڑ جاؤ لیکن​
کسی سنگِ الزام سے تو نوازو​
۔۔۔ اگر زندگی کے کسی موڑ پر ہم ملیں​
تو ہمارے لبوں پر​
اِک ہلکا سا تبّسم تو ہو​
کوئی بات وجہِ تکلّم تو ہو​
 

شیزان

لائبریرین
تسلسل ٹوٹ جائے گا

نہ چھیڑو کھِلتی کلیوں، ہنستے پُھولوں کو
اِن اُڑتی تتِلیوں ، آوارہ بھونروں کو
تسلسل ٹُوٹ جائے گا

فضا محوِ سماعت ہے
حسیں ہونٹوں کو نغمہ ریز رہنے دو
نگاہیں نیچی رکھو اور مجّسم گوش بن جاؤ
اگر جُنبش لبوں کو دی
تسلسل ٹوٹ جائے گا

وہ خوابیدہ ہے، خوابیدہ ہی رہنے دو
نہ جانے خواب میں کِن وادیوں کی سیر کرتی ہو
بلندی سے پھسلتے آبشاروں میں کہیں گم ہو
فلک آثار چوٹی پر کہیں محوِ ترنم ہو
اگر آواز دی تم نے
تسلسل ٹوٹ جائے گا

میں شاعر ہوں
مری فکرِ رسا، احساس کی اُس سطح پر ہے
جس میں خُوشبو رنگ بنتی ہے
صدا کو شکل ملتی ہے
تصّور بول اٹھتا ہے
خموشی گنگناتی ہے
یہ وہ وقفہ ہے۔۔۔۔۔ ایسے میں
اگر دادِ سخن بھی دی
تسلسل ٹوٹ جائے گا
 

شیزان

لائبریرین
مکالمہ

ایک ہم عصر نے کہا مجھ سے
عُمر گُزری مخُالفت کرتے

حرفِ اعلانِ حق بجا لیکن
پہلے ہم سے تو مشوَرت کرتے

گر اُجالوں میں تم کو رہنا تھا
تیرگی سے مفاہمت کرتے

چھیڑتے راگنی "محبت" کی
اور کبھی ذکرِ مملکت کرتے

بعد میں سوچتے مآلِ وطن
اولآ فکرِ منفعت کرتے

نہ سہی ذہن ،گفتگُو میں ہی
کچھ تو پیدا مطابقت کرتے

صاحبِ اِختیار کہلاتے
جبر کی قدر و منزلت کرتے

۔ ۔۔
۔۔۔

آپ کا مشورہ بجا لیکن
کیسے خُود سے منافقت کرتا

جو نظریے سے عِشق رکھتا ہو
کِس طرح وہ مصالحت کرتا

عِشق ہے خُودسُپردگی کا نام
عِشق میں کیا معاملت کرتا

میں تو ٹھہرا زیاں کا سودَاگر
آپ سے کیا مسابقت کرتا
 

شیزان

لائبریرین
گیس المیے کے بعد

شہرِِ بھوپال۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے ارضِ دارالسّلام!
ایک مُدت کے بعد آج پھر تجھ سے ہوں ہم کلام
سالہا سال کے فاصلے کاٹ کر
اپنے یاروں میں ہوں۔۔۔ اپنے پیاروں میں ہوں!
شہرِ بھوپال، اے ارضِ دارالسّلام!
جس تباہی سے گزرے
ترے بچے بوڑھے۔۔۔۔۔۔ترے مرد و زن
اُس کی تشبیہ تاریخِ اِنسانیت میں نہیں
اُس کے معنی کِسی بھی لغت میں نہیں
۔۔۔۔۔۔ فکرِ اِنساں رَسا ہے تو بس اِس قدر
کچھ کہا، کچھ سُنا ہے تو بس اِس قدر
روزِ محشر سے پہلے قیامت کی شب آئی تھی
لے کے ہمراہ طُوفانِ غیظ و غضب آئی تھی
ساتھ اپنے ہزاروں دھڑکتے دلوں کی صدا لے گئی
دُعاؤں کو اُٹھے ہوئے سارے دستِ دُعا لے گئی
شہرِِ بھوپال۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے ارضِ دارالسّلام!
کٹ گئیں وہ سیہ، سرد، سفاک، سم ساعتیں
پُر الم ساعتیں
ایک عرصے کے بعد آج پھر تیرے شیدا، ترے جاں نثار
تیرے ساونت، تیرے جیالے، ترے شہسوار
موت کی گھاٹیوں سے گزر کر
ہیں پھر زندگانی کے رن میں بنرد آزما
اُن کے ہونٹوں پہ حرفِ دُعا ہے
دلوں میں نئی زندگی کا نیا ولولہ
اُن کی ہمت کو صد آفریں، حوصلے کو سلام
ایک مدت کے بعد آج پھر تجھ سے ہوں ہم کلام
شہرِِ بھوپال۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے ارضِ دارالسّلام!
 

شیزان

لائبریرین
لا یغیّٗرُ ما۔ ۔ ۔

بُرائی سے نفرت ہی کرتا تھا پہلے
کہ اپنے بزرگوں سے میں نے یہی کچھ سُنا تھا
پھر اِک وقت آیا۔۔۔۔ کہ اورَوں کی خاطِر
بُری چیز کو بھی بُری چیز کہتے ہوئے
میں جِھجکنے لگا!

اب بُرائی کو اچھا سمجھنے لگا ہوں
یہی "اِرتقا" کی وہ دلدل ہے جس سے بچانا
کِسی کے بھی بس میں نہیں ہے
اگر مَیں نہ چاہوں!
 
Top