گردشی قرضے- circular debts

الف نظامی

لائبریرین
موجودہ نظام میں بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں بجلی پیدا کر کے تقسیم کار کمپنیوں کے حوالے کر دیتی ہیں اور تقسیم کار کمپنیاں مختلف علاقوں میں عوام تک بجلی پہنچا کر قیمت وصول کرتی ہیں اور واپس بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں تک رقم پہنچاتی ہیں۔
ان میں ایک دو اور مراحل بھی ہوتے ہیں اور ان کمپنیوں میں لین دین کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ عام دوسرے کاروبار کی طرح سے یہ بھی ایک کاروبار ہے اور دیگر مصنوعات کی طرح بجلی تیار کر کے مختلف طریقوں کے تحت بیچی جاتی ہے۔ عام کاروبار میں جس قیمت پر مصنوعات تیار ہوتی ہیں ان میں اخراجات شامل کر کے خریدار کو منافع کے ساتھ بیچ دیا جاتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے بجلی کی پیداواری قیمت اس قدر زیادہ ہے کہ حکومت براہ راست یا بالواسطہ اس کی قیمت کم کر کے عوام تک پہنچاتی ہے۔
اس سے قیمت خرید دیگر اخراجات اور پیداواری قیمت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس طرح خرچ اور وصولی میں براہ راست ایک خلیج پیدا ہوتی ہے۔ جسے عام طور پر گردشی قرضے کا نام دیا جاتا ہے ۔ اس لئے کہ اس رقم کو حکومت پورا کرتی ہے۔ دوسرے رقم خریدار سے پیداواری یونٹ تک واپس پہنچنے میں بھی ایک وقت درکار ہوتا ہے۔ اس دوران رقم کا بندوبست کرنا اور پیداواری یونٹ کو قیمت ادا کرنی ہوتی ہے۔ اس لئے اس دورانیہ میں جو رقم ادا ہوتی ہے وہ بھی حکومت ادا کرتی ہے۔ اس طرح سے ان تمام عوامل کے لئے جو رقم درکار ہوتی ہے اسے گردشی قرضے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

آپ کیا کہتے ہیں کہ گردشی قرضے کیا ہیں؟

متعلقہ:-
بجلی کے شعبے میں گردشی قرضے پھر 286 ارب روپے تک پہنچ گئے

 

قیصرانی

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ اس میں ایک اور مسئلہ بھی ہے کہ جب صارفین سے بل وصول ہوتا ہے تو وہ حکومت کے ذریعے سے واپڈا تک پہنچتا ہے اور حکومت وقتی مجبوری یا مصلحت کی بنا پر اس رقم کو کہیں اور صرف کر بیٹھتی ہے۔ اس وجہ سے گردشی قرضہ گرداب میں پھنس جاتا ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
سب سے بڑا مسئلہ بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں المعروف آئی پی پیز کمپنیوں IPPs کا ہے کہ وہ تھرمل بجلی بناتی ہیں جس کی قیمت بہت مہنگی ہے اور حکومت عوام کو ارزاں نرخوں پر فراہم کرنے کے لیے اس پر سبسڈی دیتی ہے۔ آئی پی پیز پر انحصار کرنے کے بجائے حکومت کا خود سستی بجلی (یعنی پن بجلی و شمسی توانائی )کے منصوبے لگانا بہتر ہے۔
متعلقہ؛-
پاکستان میں انرجی مکس؛energy mix
 

arifkarim

معطل
اگر 60 کی دہائی میں مزید غیر جمہوری ڈیمز بن جاتے تو آج اسلامی مومنین کو بجلی کے بحران کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
وفاقی وزیراطلاعات نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے 1990 کی دہائی میں بجلی کی نجی پیداواری کمپنیوں (آئی پی پیز)سے معاہدے کئے تھے اس کے مطابق ہم اس بجلی کی قیمت ادا کرنے کے بھی پابند ہیں جو وہ پیدا ہی نہیں کررہے۔
ہم ایک فریق کے حق میں کئے گئے معاہدوں کی وجہ سے جکڑے ہوئے تھے کیونکہ ان پیداواری یونٹس کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے پر وہ دنیا کی کسی بھی عدالت میں جاسکتے ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان کی تجارتی ساکھ بری طرح متاثر ہوسکتی ہے، ایک ایسے وقت میں جب ہم قرضوں کے بوجھ میں جکڑے ہوئے ہیں اس قسم کے معاہدے ہمارے لئے دہری مشکلات کا باعث بن رہے ہیں۔ حکومت گردشی قرضے ادا نہیں کرتی تو بجلی کی کمپنیاں عدالتوں میں پہنچ جاتیں ہیں۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے قرض (گردشی قرضے)کا شرح سود اور بجلی چوری کا 3 فیصد صارفین پر ڈالنے کی منظوری دے دی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ اجلاس میں بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے قرض کا شرح سود صارفین پر منتقل کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے اور نیپرا کو اس ضمن میں پالیسی گائیڈ لائن جاری کر دی جائیں گی۔ اجلاس میں 147 ارب روپے بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں پر قرض کا شرح سود بھی صارفین پر ڈالنے کی منظوری کے ساتھ ساتھ بجلی چوری کا 3 فیصد بھی صارفین پر ڈالنے کی منظوری دی گی ہے۔
 

arifkarim

معطل
اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے قرض (گردشی قرضے)کا شرح سود اور بجلی چوری کا 3 فیصد صارفین پر ڈالنے کی منظوری دے دی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ اجلاس میں بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے قرض کا شرح سود صارفین پر منتقل کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے اور نیپرا کو اس ضمن میں پالیسی گائیڈ لائن جاری کر دی جائیں گی۔ اجلاس میں 147 ارب روپے بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں پر قرض کا شرح سود بھی صارفین پر ڈالنے کی منظوری کے ساتھ ساتھ بجلی چوری کا 3 فیصد بھی صارفین پر ڈالنے کی منظوری دی گی ہے۔


پاکستانیوں کو یہ اسلامی سود بہت بہت مبارک۔
 

شمشاد

لائبریرین
بجائے اس کے کہ اپنی کوتاہیوں اور کجیوں پر قابو پائیں، اپنے شاہانہ اخراجات کم کریں اور کُنڈا سسٹم کا توڑ کریں اور بلوچستان اور سندھ سے بلوں کی ادائیگی کو یقینی بنائیں، جو بے قصور عوام پہلے بجلی کے بلوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں اُن پر مزید بوجھ بڑھا دیں گے۔ لعنت بھیجنے کو جی چاہتا ہے ایسے سسٹم پر۔
 

الف نظامی

لائبریرین
بلیک ہول
[تحریر: لال خان]​

بلیک ہول اس کائنات میں پائی جانے والی وہ ’’سیاہ کھائیاں‘‘ ہیں جو سیاروں اور دیوہیکل ستاروں جیسے فلکیاتی اجسام کو مسلسل نگلتی رہتی ہیں۔ ان کی انتہائی طاقتور کشش ثقل سے روشنی بھی فرار حاصل نہیں کرسکتی۔ بلیک ہول کی حد یا حلقہ اثر میں داخل ہونے والی اشیا تاریکی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غرق ہوجاتی ہیں۔

انسانی سماج میں کئی طرح کے ’’معاشی بلیک ہول‘‘ پائے جاتے ہیں جن کی بھوک اربوں کھربوں روپے ہڑپ کر لینے کے بعد بھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ پاکستان میں بجلی بنانے والی نجی کمپنیوں (IPPs) کی مثال ہی لے لیں۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران عوام کے ہزاروں ارب روپے نگل جانے والی ان مالیاتی سیاہ کھائیوں نے پورے سماج پر اپنی تاریکی مسلط کررکھی ہے۔ پچھلے ہفتے سرکار نے ان کمپنیوں کو صرف چند دنوں تک بجلی کی پیداوار میں اضافے کے لئے مزید 20ارب روپے ادا کئے ہیں۔ موجودہ حکومت نے برسر اقتدار آنے کے فوراً بعد آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر اور نوٹ چھاپ کر ’’گردشی قرضہ‘‘ اتارنے کے لئے بجلی پیدا کرنے والی سامراجی اجارہ داریوں اور مقامی کمپنیوں کو 500 ارب روپے کی ادائیگی کی تھی۔ صرف ایک سال میں یہ گردشی قرضہ دوبارہ تین سو ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس ماہ کے آغاز میں ایک مشہور ملکی خبر رساں ادارے کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ’’پچھلے 330دنوں کے دوران گردشی قرضے میں 330 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ یعنی یہ قرضہ ایک ارب روپے روزانہ کی شرح سے بڑھ رہا ہے۔
پاکستان میں IPPs سو کلو واٹ بجلی بنانے کے لئے 24 کلوگرام فرنس آئل استعمال کرتی ہیں جبکہ عالمی سطح پر بجلی کی اتنی ہی مقدار صرف 14 کلوگرام فرنس آئل سے پیدا کی جاتی ہے۔ ‘‘
اسی طرح پاکستان میں گیس کے 12 ہزار BTU سے بجلی کا ایک یونٹ بنایا جارہا ہے جبکہ بھارت میں اتنی ہی بجلی صرف 5 ہزار BTU سے بنتی ہے۔
لوٹ مار کتنے بڑے پیمانے کی ہے، اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
آنے والے دنوں میں گرمی کے ساتھ ساتھ گردشی قرضے کا شور شرابا بھی بڑھتا جائے گا۔ ہر آنے والی حکومت گردشی قرضے کی ادائیگی کسی مذہبی فریضے کی طرح کرتی ہے۔ اس خطیر رقم کی ادائیگی سے بجٹ خساروں میں اضافہ ہوتا ہے جس کا تمام تر بوجھ بالواسطہ ٹیکسوں اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کے ذریعے عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ پر ہمیشہ ہی اس قرضے کے بارے میں ’’تشویش‘‘ کا اظہار کیا جاتاہے۔ کچھ ’’دانشور‘‘ حضرات نے تو اس کی بروقت ادائیگی کو اخلاقیات کا حصہ بنا دیا ہے۔ سرکاری معیشت دان اور تجزیہ نگار گردشی قرضے پر ’’قابو‘‘ پانے کے لئے رنگ برنگ تجاویز تو پیش کرتے ہیں لیکن
  • یہ رقم کس مد میں کس کو ادا کی جاتی ہے، اس کا ذکر کبھی نہیں ہوتا۔
  • بجلی کا یونٹ کتنے روپوں سے بنتا ہے اور کتنے میں بننا چاہئے؟
  • 1990ء کی دہائی میں ان نجی کمپنیوں سے ہونے والے معاہدوں کی شرائط کیا تھیں؟
  • ان کمپنیوں کی شرح منافع کیا ہے، گزشتہ بیس سالوں میں کتنا منافع کمایا گیا ہے اور کتنی رقم ملک سے باہر بھیجی گئی؟
  • پاکستان جیسے غیر ترقی یافتہ ملک کو، جہاں پن بجلی کے ذریعے توانائی کی ضرورت پوری کی جاسکتی ہیں، آخر تیل سے مہنگی بجلی بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
ان بنیادی سوالات پر بات ہوتی ہے نہ ہی کبھی تلخ زمینی حقائق منظر عام پر نہیں لائے جاتے ہیں۔ درحقیقت بحث کو اس سمت میں لے جانے پر ہی غیر اعلانیہ پابندی لگا دی گئی ہے جہاں مجموعی طور پر پورے نظام کا مکروہ کردار بے نقاب ہوجانے کا خطرہ ہو۔


انتہائی اعتدال پسند اور محتاط اندازوں کے مطابق یہ نجی کمپنیاں 40 سے 50 فیصدکی شرح سے منافع کمارہی ہیں۔
یاد رہے کہ یہ ’’جائز منافع‘‘ ہے اور سبسڈائز تیل کو بلیک مارکیٹ میں بیچنے جیسے ’’آمدن‘‘ کے کئی دوسرے طریقے اس کے علاوہ ہیں۔
اسی طرح بجلی پیدا کرنے والی سامراجی اجارہ داریوں کی جانب سے پچھلی دو دہائیوں کے دوران ملک سے باہر بھیجے جانے والے منافعوں کا اندازہ 30 سے 60 ارب ڈالر (تقریباً چھ ہزار ارب روپے) لگایا گیا ہے۔
IPPs سے ہونے والے حکومتی معاہدے بھی بڑے ’’دلچسپ‘‘ ہیں۔
یہ کمپنیاں بجلی بنائیں یا نہ بنائیں، حکومت انہیں پیداواری صلاحیت کے 60 فیصد کے مساوی ادائیگی کرنے کی پابند ہے۔
2007ء میں SDPI نامی ادارے کی جانب سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق
’’تمام IPPsپورا سال اگر ایک بجلی کا ایک یونٹ بھی پیدا نہ کریں تو بھی حکومت کو 60 ارب روپے کی ادائیگی کرنی پڑے گی۔ ‘‘
افراط زر اور روپے کی قدرمیں گراوٹ کو مدنظر رکھا جائے آج یہ رقم 100 ارب روپے سے زیادہ بنتی ہیں۔ اس تخمینے میں 2007ء کے بعد ہونے والے معاہدے اور ان کی شرائط شامل نہیں ہیں۔

بجلی کے شعبے میں نجی سرمایہ کاری کا آغاز ورلڈ بینک کی ایما پر 1994ء میں وضع کی گئی ریاست پاکستان کی ’’پاور پالیسی‘‘ کے تحت ہوا تھا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے ’’ساز گار ماحول‘‘ فراہم کرنے کے لئے ترتیب دی جانی والی یہ ’’پالیسی‘‘ دراصل قانونی ڈاکہ زنی کا منصوبہ تھا۔
پالیسی کے مطابق پاور پلانٹ لگانے والی کمپنی کو منصوبے کی کل لاگت کے 20 فیصد کے مساوی ’’سرمایہ کاری‘‘ کرنا تھی۔
باقی کا 80 فیصد حکومتی گارنٹی پر مقامی بینکوں سے قرض لے کر مہیا کیا گیا۔
سود سمیت اس قرض کی ادائیگی حکومت کی ذمے تھی اور حکومت اس مد میں IPPs کو ماہانہ Capacity Payment دینے کی پابند تھی۔
یہ IPPs کارپوریٹ انکم ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس سے مکمل طور پر مستثنیٰ تھیں۔
حکومت IPPs کو تمام تر ادائیگیاں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر اور افراط زر کے مطابق کرنے کی پابند تھی۔
علاوہ ازیں ’’ریٹ آف ریٹرن‘‘ کی مد میں پلانٹ کی عمر یا معیاد پوری ہونے تک نجی کمپنی کو اس کی سرمایہ کاری کا 15 سے 20 فیصد سالانہ ادا کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری تھی۔
ان تمام تر شرائط کے نتیجے میں ہر 25 ملین ڈالر کی نجی سرمایہ کاری (ملکی یا غیر ملکی) کے بدلے میں حکومت نے 83 ملین ڈالر عوام کا خون پسینہ نچوڑ کر ان کمپنیوں کو ادا کئے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ یہ تمام تر واردات نجی شعبے کی ’’اعلیٰ کارکردگی‘‘ اور آزاد منڈی کی ’’برتری‘‘ کی بہترین مثال ہے۔
1994ء کی پاور پالیسی کے اجرا کے فوری بعد امریکہ کی مشیر برائے وزارت توانائی ہیزل اولیری 80 امریکی سرمایہ کاروں کا گروہ لے کر پاکستان آئی۔ اس دورے کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاروں اور حکومت کے درمیان IPPs کے 16 معاہدے طے پائے تھے۔ ان نئے منصوبوں کی پیداواری صلاحیت 3400 میگا واٹ تھی حالانکہ اس وقت، مستقبل میں بجلی کا شارٹ فال کا اندازہ صرف 1000 میگا واٹ تھا۔ واپسی پر ہیزل او لیری نے پاکستان کی توانائی پالیسی کو ’’دنیا میں سب سے بہترین‘‘ قرار دیا۔ پاکستانی ریاست نے جس ’’فراغ دلی‘‘ کا مظاہرہ کیا تھا اس کی توقع شاید ورلڈ بینک اور امریکی سامراج کو بھی نہ تھی۔ یہ حکومت کی ’’بہترین پالیسی‘‘ کا ہی نتیجہ ہے کہ سامراجی اجارہ داریاں اور مقامی سرمایہ دار آج تک اس بہتی گنگا میں اشنان کر رہے ہیں، سیاستدان اور افسر شاہی اربوں روپے کے کمیشن کھا کر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، بجلی کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور عوام لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی سے بدحال ہیں۔


خواجہ آصف نے واضح طور پر کہا ہے کہ لوڈ شیڈنگ 2018ء تک ختم نہیں ہوگی۔ خواجہ صاحب کا مطلب دراصل یہ ہے کہ لوڈ شیڈنگ کبھی ختم نہیں ہوگی۔ دوسری طرف آئی ایم ایف کے حکم پر بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کی تیاریاں بھی کی جارہی ہیں۔ موجود حکومت کی جانب سے ’’سستی‘‘ بجلی کے نئے منصوبوں کے پیش نظر لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی امید رکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔ یہ واویلا صرف عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے لئے کیا جارہا ہے۔ ان منصوبوں کے معاہدے اور شرائط بھی 1994ء سے کچھ مختلف نہیں ہیں۔ بجلی کی پیداواری صلاحیت پہلے ہی گرمیوں کی طلب سے بھی پانچ ہزار میگاواٹ زیادہ ہے۔ یہ بجلی کی پیداوار کے نہیں بلکہ لوٹ مار کے ’نئے منصوبے‘ ہیں۔
سامراجی اجارہ داریاں اور ان کا کمیشن ایجنٹ پاکستان کا حکمران طبقہ منافعوں کی ہوس میں اندھے ہوچکے ہیں۔ سرمایہ داری کی ذہبی بیماری اب پاگل پن میں تبدیل ہوچکی ہے۔ عوام کو غربت اور محرومی کی چکی میں پیس کر کشید کئے گئے کھربوں روپے IPPs کی اندھی کھائیوں میں پھینکے جارہے ہیں۔ سیارے اور ستارے نگلنے والے بلیک ہولز کا پیٹ تو شاید کبھی بھر جاتا ہو لیکن ان حکمرانوں کی ہوس کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔ یہ طبقہ عوام کے منہ سے نوالہ، تن سے کپڑے، آنگن سے روشنی اور چہروں سے مسکراہٹیں چھین اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہے۔ گیلپ کے تازہ سروے کے مطابق 138 ممالک کے لئے ترتیب دی گئی خوشی اور مسکراہٹ کی فہرست میں پاکستان کا 117 نمبر ہے۔ لیکن نسل درنسل ظلم و استحصال سہنے والے عوام کی برداشت اب جواب دیتی جارہی ہے۔ شدید ہوتا ہوا طبقاتی تضاد دھماکہ خیز انداز میں پھٹ کر بغاوت کو جنم دے گا۔ ان حکمرانوں کے انجام کا فیصلہ محنت کشوں کا انقلاب ہی کرے گا!
 

الف نظامی

لائبریرین
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ دوسرا بوجھ مہنگی بجلی ہے ، ہماری انڈسٹری بھارت اور بنگلہ دیش کی انڈسٹری سے مقابلہ نہیں کر پا رہی تھی کیونکہ وہاں بجلی سستی تھی ۔ ماضی کی حکومت نے بجلی کنٹریکٹ سائن کیے تھے ، جس کی وجہ سے ہمارے گردشی قرضے بڑھ رہے تھے ، کوئی دکان نہیں چل سکتی اگر دکاندار دس روپے میں مال خریدے اور پانچ روپے میں بیچے ۔ہم بجلی مہنگی خرید رہے ہیں اور سستی بیچ رہے ہیں لہذحکومت اور آئی پی پیز کے درمیان ا مذاکرات چل رہے تھے،میں مبارک باد دینا چاہتاہوں کہ کل یہ معاہدہ ہو گیا ہے ،اس سے بجلی کی پیداواری لاگت کم ہو گی ،اس سے فائدہ ہماری انڈسٹری کو ہوگا ۔
-

حکومتی کمیٹی اور نجی بجلی گھروں کے درمیان ہونے والے معاہدے کی تفصیلات جاری کر دی گئیں ہیں۔ ونڈ پاور سے چلنے والے 13 نجی بجلی گھروں نے حکومتی کمیٹی کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے ہیں جبکہ 6 ونڈ پاور بجلی گھر پیر کے روز معاہدے پر دستخط کریں گے۔ذرائع کے مطابق معاہدے پر دستخط کر نے والوں میں نجی، حکومتی اور سی پیک کے تحت بجلی گھر شامل ہیں، معاہدے کے تحت ونڈ انرجی ٹیرف 25 روپے کی بجائے 14روپے فی یونٹ ہوگا، ا س معاہدے سے حکومت کو 700 ارب روپے سے زائد کی بچت ہوگی جبکہ 1994 اور 2002 کی پاور پالیسی کے تحت بجلی گھروں کو منافع ادائیگی ڈالر کی بجائے روپے میں ہوگی۔ ڈالر کو روپے میں تبدیل کرتے وقت مستقبل میں ریٹ فکس کر دیا گیا ہے اور جب تک معاہدوں کی مدت ہے ڈالر کا ریٹ 148 روپے ہوگا اس معاہدے سے حکومت کو تقریبا 500 ارب روپے کی بچت ہوگی۔
 
Top