ناصر کاظمی گا رہا تھا کوئی درختوں میں ۔۔۔

گا رہا تھا کوئی درختوں میں
رات نیند آگئی درختوں میں
چاند نکلا افق کے غاروں سے
آگ سی لگ گئی درختوں میں
مینہہ برسا تو برگ ریزوں نے
چھیڑ دی بانسری درختوں میں
یہ ہوا تھی کہ دھیان کا جھونکا
کس نے آواز دی درختوں میں
ہم ادھر گھر میں ہو گئے بے چین
دور آندھی چلی درختوں میں
لیے جاتے ہے موسموں کی پکار
اجنبی اجبنی درختوں میں
کتنی آبادیاں ہیں شہر سے دور
جاکے دیکھو کبھی درختوں میں
نیلے پیلے سفید لال ہرے
رنگ دیکھے سبھی درختوں میں
خوشبوؤں کی اداس شہزادی
رات مجھ کو ملی درختوں میں
دیر تک اُس کی تیز آنکھوں میں
روشنی سی رہی درختوں میں
چلتے چلتے ڈگر اجالوں کی
جانے کیوں مڑ گئی درختوں میں
سہمے سہمے تھے رات اہل چمن
تھا کوئی آدمی درختوں میں
 

زبیر مرزا

محفلین
واہ کیا بات ہے لاجواب
مینہہ برسا تو برگ ریزوں نے
چھیڑ دی بانسری درختوں میں
ویسے علی حیدر کی گانے میں پُرانی جینز اور یہ ہی قابلِ ذکر ہیں
 
گا رہا تھا کوئی درختوں میں
رات نیند آگئی درختوں میں

چاند نکلا افق کے غاروں سے
آگ سی لگ گئی درختوں میں

مینہہ برسا تو برگ ریزوں نے
چھیڑ دی بانسری درختوں میں

یہ ہوا تھی کہ دھیان کا جھونکا
کس نے آواز دی درختوں میں

ہم ادھر گھر میں ہو گئے بے چین
دور آندھی چلی درختوں میں

لیے جاتے ہے موسموں کی پکار
اجنبی اجبنی درختوں میں

کتنی آبادیاں ہیں شہر سے دور
جاکے دیکھو کبھی درختوں میں

نیلے پیلے سفید لال ہرے
رنگ دیکھے سبھی درختوں میں

خوشبوؤں کی اداس شہزادی
رات مجھ کو ملی درختوں میں

دیر تک اُس کی تیز آنکھوں میں
روشنی سی رہی درختوں میں

چلتے چلتے ڈگر اجالوں کی
جانے کیوں مڑ گئی درختوں میں

سہمے سہمے تھے رات اہل چمن
تھا کوئی آدمی درختوں میں
 
Top