نیرنگ خیال

لائبریرین

نیرنگ خیال

لائبریرین
ماشاء اللہ نین بھیا آپکی گہری نظر سماجی سیاسی اور معاشرتی بگاڑ پر ہے اور آپکا قلم اس موضوع پر بہت کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے ۔ہر گداز دل ان پر اُداس ہوجاتا ہے ۔
دراصل سوچنے کی ضرورت اس کی ہے کہ ایثار ، خلوص اور محبت کس چیز کا نام ہے ۔ انسان کے ساتھ محبت کیا ہوتی ہے اور کیسے کی جاتی ہے۔ جیسے کہ ماں اپنے بیٹے کے غلط کام کو دیکھ کر بھی اسے محبت کرنا نہیں چھوڑتی، محبوب وہ ہوتا ہے جس کا خراب کام بھی ٹھیک نظر آتا ہے ۔کیونکہ انسان حضرت ِ آدم کی اولاد ہے چاہے وہ افسر ہے یا ماتحت اس لئے انسان کی حیثیت سے اس کا احترام لازم ہے ۔ہمیں دوسروں کی خامیاں نظر آتی ہیں اپنی نہیں ۔۔اپنی سی کوشش کرتے رہنا ضروری ہے کہ بگاڑ کو انفرادی طور پر بہتر کرنے کی کوشش کریں ۔۔
جیتے رہیے اللہ تعالیٰ آپکو اپنی حفظ و امان میں رکھے آمین ۔
شکریہ آپا۔۔۔۔ آپ کی شفقت اور عنایت ہے۔۔۔۔ باقی آپ کی باتیں سو فیصد درست ہیں۔۔۔۔ اللہ ہمیں ہمت اور توفیق دے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہ تحریر لکھنی اسی دن شروع کی تھی، جب یہ واقعہ ہوا۔۔۔۔ خیر۔۔۔ پڑی رہی۔۔۔ پھر مکمل نہ کی۔۔۔ آج ہمت کر کے مکمل کی ہے۔۔۔۔ آپ تمام احباب سے معذرت کے ساتھ۔۔۔۔۔

گالیاں اور معافی نامے
میرے لیےسیاسی و سماجی اور بالخصوص ایسے سماجی معاملات جو سیاسی موضوعات سے متصادم ہوں، پر لکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ مجھے یہ تمام واقعات "لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام" کی تفسیر معلوم ہوتے ہیں۔ ایک طرف سیاسی حقیقتیں ہوتی ہیں جو منطق، پالیسی اور طاقت کے زاویوں سے جکڑی ہوتی ہیں، اور دوسری طرف سماجی سچائیاں ہوتی ہیں جو جذبات، انسانی تجربات اور اخلاقی حساسیت سے جڑی ہوتی ہیں۔ ان دونوں کے مابین کچھ سوچتے، تجزیہ کرتے اور پھر لکھتے ، قلم کبھی دلیل کی سختیوں سے جا ٹکراتا ہے، اور کبھی احساس کی نرمی، تجربے کی گرمی اور فطری سچائیاں غالب نظر آتی ہیں، یہ کشمکش مجھ ایسے سادہ کے لیے بہت زیادہ ہو جاتی ہے، سو اکثر ایسے حادثات و معاملات قلم انداز کر جاتا ہوں۔

پنجاب، بلکہ پاکستان بھر ہی مون سون کی زد میں ہے۔ بارشوں نے جہاں روزمرہ کے افعال سرانجام دینے مشکل کیے ہیں، وہیں گلی کوچوں میں بہتے پانی نے نقل و حرکت کو مشکل بنا دیا ہے۔ اس سلسلے میں لاہور کی انتظامیہ کو داد نہ دینا زیادتی ہوگی، جنہوں نے اپنی مقدور بھر کوششوں سے پانی نکالنے اور شہر کے معمولات کو رواں دواں رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ لیکن اس وقت ہم بات کر رہے ہیں، ایک بزرگ کی۔ بزرگ جنہوں نے یوں ہی راہ چلتے کسی کیمرہ مین کے سامنے آ کر اربابِ اختیار کو گالی دی۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ گالی معاصر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے ملک بھر میں گردش کرنے لگی۔ یوں محسوس ہونے لگا کہ گویا ہر شخص تھری ایڈیٹ فلم کا لائبریرین ہے اور حکمران طبقے کو دبے لفظوں میں کہہ رہا ہے کہ " سر! بول و ہ رہے ہیں، پر شبد ہمارے ہیں۔ "

ہم سبھی اس بات سے بخوبی واقف ہیں، کہ گالی ، زبان کا وہ پہلو ہے جو جذبات کی شدت، غصے کی بے ساختگی یا سماجی ردِعمل کا اظہار بن کر سامنے آتا ہے۔ یہ محض ایک لمحاتی اظہار نہیں، بلکہ ایک پیچیدہ نفسیاتی اور سماجی مظہر ہے۔ بعض اوقات یہ طنز یا بے تکلفی کی علامت ہوتی ہے، تو کبھی احتجاج یا بے بسی کی زبان۔ مگر اس کا اثر گہرا ہوتا ہے چاہے زبان کی لطافت مجروح ہی ہوتی رہے۔ مزید معاصر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے جڑے رہنے کی بدولت مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ ہمارے تجزیہ نگار، چاہے وہ بزرگ ہیں، یا نوجوان، سیاسی معاملات پر گفتگو کرتے وقت بہت سی لرزشوں کا شکار رہتے ہیں، اور یہ لڑکھڑاہٹیں ان کے اپنے زبان و بیاں پر نوحہ کناں ہوتی ہیں۔ جس کے سبب عامی کی سطح پر کوئی بھی بیانیہ عامیانہ و سوقیانہ پن کا مظہر بن چکا ہے۔
خیر اصل قصہ کی طرف لوٹتے ہیں، کہ ایک بزرگ نے کیمرہ پر گالیاں دیں، ان گالیوں کے نتیجے میں ریاست نے فورا سے پیشتر حکمت عملی اپنائی۔ ان بزرگ کو اٹھا لیا گیا۔ اگلے دن ان بزرگ نے کیمرہ پر اپنا بیان ریکارڈ کروا دیا۔ معافی مانگ لی۔ لیکن یہ عمل ایسا نہیں کہ اس پر سے فوراً بغیر کچھ کہے، سنے اور سمجھے گزرا جا سکے۔ یہ معاملہ غور و فکر کا متقاضی ہے۔ ضروری ہے کہ اس کے تمام عوامل کا جائزہ لیا جائے۔

سوال یہ ہے کہ کیا وہ محض ایک گالی تھی؟ یا برسوں کی خامشی کا وہ لمحہ جو کسی کمزور لمحے میں چیخ بن گیا۔ ایک تلخ جملہ، جو ریاستی وقار کی وہ عمارت ڈھا گیا، جو شاید درحقیقت وہاں تھی ہی نہیں۔ کیا اس واقعے کو محض ایک بےادبی کا نام دیا جا سکتا ہے؟ یاپھر یہ واقعہ سماجی و شخصی بےتوقیری کا نوحہ تھا۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ جب کوئی بزرگ کسی ریاستی نمائندے کے خلاف سخت زبان استعمال کرتا ہے، تو وہ اکثر اپنے اندر کے اضطراب، مایوسی اور معاشرتی تھکن کا اظہار کر رہا ہوتا ہے، اور یہ اظہایہ اس کی بےبسی کا غماز بھی ہوتا ہے۔

اب اِس واقعے کے دوسرے پہلو کو دیکھتے ہیں، کہ ریاست نے فوراً اپنی طاقت کا اظہار کیا، گالی کو دبا دیا، چیخ کا گلا گھونٹ دیا، اور معاشی تھکن کو معافی نامے تلے دفنا دیا۔ کیا یہ واقعی ضروری تھا؟ کیا وہ آواز واقعتاً اتنی خطرناک تھی یا پھر یہ کہ ہمارا ریاستی دفاعی وقار حد سے زیادہ حساس ہو چکا ہے، اور اس کے نزدیک ایسی ہر آواز کو فوراً سے پیشتر دبا دینا ہی معاملے کا حل ہے۔ بنا یہ سوچے کہ معاشرے میں عزت نفس کی رمق رکھنا ضروری ہے کہ نہیں۔ جب کوئی ایسا واقعہ سماجی و معاشرتی سطح پر اپنی جگہ بنا لیتا ہے، تو وہ محض واقعہ نہیں رہتا، وہ ایک سماجی آئینہ کا کردار ادا کرتا ہے۔ وہ عامی اور خواص کے مابین تعلقات پر گواہ ہوتا ہے۔ اور ایسے معاملات میں ریاست اگر واقعتاً باوقار ہو، تو وہ یہ سمجھتی ہے کہ ایسی چیزیں ٹوٹتے تعلق کی بازگشت ہیں، یہ وہ درد ہے جو برسوں کی نظراندازی، ناانصافی اور بیزاری سے پیدا ہوا ہے۔ یہ وہ تلخی ہے ، جس نے چند دنوں، گھنٹوں اور سالوں میں جنم نہیں لیا، بلکہ عشرہ در عشرہ سسٹم کے بہرہ پن کا نتیجہ ہے۔ ایک بالغ ریاست ایسی چیخوں کے پس منظر پر توجہ دیتی ہے، اور ان دردوں کا مداوا کرنے کی کوشش کرتی ہے، جو اس چیخ کی بنیاد بنے۔ لیکن یہ فہم سماج سے جڑے رہنے سے پیدا ہوتی ہے، نہ کہ درآمد شدہ حکومت سے، اور نہ ہی نوآبادیاتی اوربعد از نوآبادیاتی نظام کو یکجا کرنے سے۔

حقیقت میں ہمارے معاشرے کی صورتحال اس سے کہیں زیادہ توجہ طلب ہے۔ ہم ابھی بھی نوآبادیاتی نظام میں جی رہے ہیں۔ "بعد از" والا معاملہ ابھی بھی ہنوز دلی دور است کی عملی مثال ہے۔ عامی اور خواص کے درمیان ایک خلیج حائل ہے اور ریاستی اوزار اس خلیج کو محض بڑھانے کا کام کر رہے ہیں۔ جبر سے، طاقت سے، زور سے اور ہر جائز و ناجائز ، روا و ناروا طریقے سے۔ مجھے انتہائی افسوس سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ شاید اربابِ اختیار میں کسی نے ساری زندگی پڑھا ہی نہیں کہ سننا جواب دینے سے زیادہ بڑا عمل ہے۔ہمارے ہاں معافی نامے پر بڑے بڑے مقدمات سے بری ہونے کا سلسلہ بھی چل نکلا ہے۔ ایسے میں یہ گالی والا معاملہ تو بالکل ہی ہیچ معلوم ہوتا ہے۔ لیکن ایسے تمام معافی نامے جو سطحی نوعیت کے ہیں، او رجن میں اصل غم کا مداوا کیے بغیر یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ معافی صرف لفظوں سے چل جاتی ہے، اور ادب و احترام لفظی ہوتا ہے۔ ان تمام کو کوئی غبی، جاہل مطلق یا حقائق سے بالکل عاری شخص تو مان سکتا ہے،لیکن کوئی ہلکا پھلکا سیاسی و سماجی شعور رکھنے والا ذہن بھی ان کی حقیقت سے مکمل طور پر باخبر ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب ِ اختیار میں کچھ ایسے لوگ ہوں، جو اس ٹوٹتے تعلق کی خلیج کو کم کر سکیں، جو ان گالیوں اور معافی ناموں کے پس پردہ حقائق جانچ سکیں، زخموں پر مرہم رکھ کر سماجی اعتماد جیتنے کی کوشش کریں۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب اربابِ اختیار اس کو اپنا ملک سمجھیں، اور ان لوگوں کو اپنے لوگ۔ ملک میں دو قانون نہ رہیں۔ لیکن فی الوقت تو یہ خواب نظر آتا ہے، اور یہ خواہش کسی دیوانے کا نعرہ۔

از قلم نیرنگ خیال
20 جولائی 2025
آپ نے ایک سماجی /سیاسی مسئلے پراپنے نکتۂ نظر کو حسبِ معمول بہت مربوط انداز میں بیان کیا ہے ، ذوالقرنین۔
اربابِ اقتدار پر تنقید کرنا اور ان کے کرتوتوں پر گرفت کرنا عوام الناس کا ایک قدیم اور آفاقی رویہ ہے۔ فرعون کی حکومت بھی اس سے مستثنٰی نہیں تھی۔ گالی دینا اس رویے کی ایک شدید ترین اور انتہائی صورت ہے۔ اس انتہائی رویے کے پس پردہ محرکات کا جو تجزیہ آپ نے کیا اس سے اختلاف ممکن نہیں ۔
جیتے رہیے اور لکھتے رہیے!
 
محفل فورم صرف مطالعے کے لیے دستیاب ہے۔
Top