گاؤں کے اک چھوٹے سے گھر میں کچھ لمحے مہتاب رہا ۔ طالب جوہری

گاؤں کے اک چھوٹے سے گھر میں کچھ لمحے مہتاب رہا
لیکن اس کی یاد کا پورا برسوں تک شاداب رہا

اپنی ساری گم شدہ بھیڑیں جمع تو کیں چرواہے نے
ان بھیڑوں کے پیچھے پیچھے پورے دن بے تاب رہا

فصل خزاح کی شاخ سے لپٹا بیلے کا اک تنہا پھول
کچھ کلیوں کی یاد سمیٹے راتوں کو بے خواب رہا

بچھڑے تھے تو ساکت پلکیں سوکھے پیڑ کی شاخیں تھیں
اس سے بچھڑ کر دور چلے تو کوسوں تک سیلاب رہا

پچھلی رات کے پیاسے لمحے جن گلیوں میں بہت گئے
ان گلیوں کو چھوڑ کے پورے شہر میں قحط آب رہا

جسم نے اپنی عمر گزاری سندھ کے ریگستانوں میں
دل کم بخت بڑا ضدی تھا، آخر تک پنجاب رہا
 
Top