کیپٹن اشفاق حسین

نیلم

محفلین
انسان انسان کے ساتھ مل کر رہے تو بہلا رہتا ہے۔خوش رہتا ہے لیکن کبھی کبھار ایسی کیفیات بھی آجاتی ہیں کہ سب کے ساتھ رہتا سہتا ، سب کے ساتھ اٹھتا بہٹھتا وہ تنہا رہ جاتا ہے۔بات کسی سے کرتا ہے، دھیان کسی طرف رہتا ہے۔ بیٹھا کہیں ہوتا ہے، پہنچا کہیں رہتا ہے۔سامنے کوئی ہوتا ہے اور ذہن کے پردے پر تصویر کسی اور کی ابھرتی رہتی ہے۔ یہ تنہائی کے دکھ کی ابتدائی علامات ہوتی ہیں --------- پھر جب انسان کسی ایسے سے بچھڑ رہا ہو جس کے ساتھ گزارے ہوئے لمحے خوابوں سے زیادہ حسین، سپنوں سے زیادہ سہانے رہے ہوں اور جس کی بات بات پر دل کے تاروں میں جلترنگ بجتا رہا ہو تو یہ بچھڑنا قیامت کا بچھڑنا ہوتا ہے۔ تب بیتے ہوئے سارے لمحے گزری ہوئی ساری باتیں، کہے ہوئے سارے بول آپس میں گڈمڈ ہو جاتے ہیں غبار بن کر آنکھوں میں اتر آتے ہیں ----- انسان بھری محفل میں تنہا رہ جاتا ہے۔ سب کے ساتھ ساتھ ہوتا ہوا بھی اکیلا رہ جاتا ہے۔
اکیلے پن کا دکھ بڑا اذیت ناک ہوتا ہے۔ انسان کو کچھ دیکھنے دیتا ہے نہ سوچنے دیتا ہے، بس اندر ہی اندر اسے گھن کی طرح چاٹتا رہتا ہے۔ موسم کی آنکھ مچولیاں ہوں یا پھولوں اور کلیوں کی مسکراہٹیں، خزاں کے زرگ ہو یا بہار کی شوخیاں، برسات کی پن پن ہو یا دمکتی شعاؤں کی لش لش، اس کی آنکھوں میں اترا نمی کا غبار اسے رنگوں سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ بس وہ اپنے اپنے اندر قید ہو جاتا ہے اور اس ذات کے قفل کی چابی بچھڑنے والا اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔۔۔

تحریر:کیپٹن اشفاق حسین اقتباس :جنٹل مین الحمدللہ
 
Top