کیوں زبانوں سے تالے نہیں جاتے اب

حمید

محفلین
  1. غزل حاضر خدمت ہے- رائے،تنقید،تنقیص سے ضرور نوازیے-


    اپنا چہرہ چھپا لے نہیں جاتے اب
    میرے گھر سے اجالے نہیں جاتے اب
    عقل کی تھیں عمارت میں ویرانیاں
    ذہن پر چھائے جالے نہیں جاتے اب
    مانگتے ہیں سمجھ کر وہ اب اپنا حق
    کچھ گھروں سے اُٹھالے نہیں جاتے اب
    ہے سزاآدمی کو طرب دائمی
    جنتوں سے نکالے نہیں جاتے اب
    سچ ہے اب آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے
    کیوں زبانوں سے تالے نہیں جاتے اب
    دوستی پالتے ہو تم اس دور میں
    لوگوں سے بچے پالے نہیں جاتے اب
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ حمید کہ یہاں بھی پوسٹ کر دی۔
پہلی بات تو یہ کہ زمین میں ہی حروف کا اسقاط خوشگوار تاثر نہیں چھوڑتا۔ ’جاتِاب‘ کی وجہ سے۔
اس کے علاوہ مطلع میں ہی
اپنا چہرہ چھپا لے نہیں جاتے اب
میں محض قافیئے کی وجہ سے ’چھپا لے‘ کہا جا رہا ہے، ایسا کوئی محاورہ نہیں۔

عقل کی تھیں عمارت میں ویرانیاں
عقل کی ویرانیاں؟

کچھ گھروں سے اُٹھالے نہیں جاتے اب
وہی بات جو مطلع میں ہے، محاورے کے خلاف

=

ہے سزاآدمی کو طرب دائمی
جنتوں سے نکالے نہیں جاتے اب​
سچ ہے اب آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے​
کیوں زبانوں سے تالے نہیں جاتے اب​
دونوں شعر دو لخت ہیں۔ مفہوم برامد نہیں ہوتا۔​
لوگوں سے بچے پالے نہیں جاتے اب​
تقطیع ہوتا ہے​
لوگ سے بچچ پالے۔۔​
 

حمید

محفلین
"سچ ہے اب آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے
کیوں زبانوں سے تالے نہیں جاتے اب"
اس کی دولختگی پر کچھ روشنی ڈالیے گا،
"سچ اب واضح اور سب کے سامنے ہے، پھر بھی لوگوں کی زبان پر قفل کیوں ہیں"
یقینا اس خیال کو بہتر ادا کرنے کے طریقے ہوں گے مگر دونوں مصرعوں کا مفہوم تو مل کر ہی مکمل ہوتا ہے، عین ممکن ہے میں شعر دولخت ہونے کا غلط مفہوم سمجھا ہوں، وضاحت فرمائیے گا، میری تعلیم کی خاطر-
 

الف عین

لائبریرین
اوہو، تو آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا فعل ’سچ‘ سے منسوب تھا، سچ کو میں نے فاعل کے طور پر نہیں لیا تھا، لیکن الفاظ کی نشست بدل دیں تاکہ کسی قسم کا کنفیوژن نہ ہو۔
 

حمید

محفلین
"سچ ہے اب آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا
کیوں زبانوں سے تالے نہیں جاتے اب"

اس میں سچ سے فعل کی نسبت زیادہ شدید ہے :)
 

حمید

محفلین
شکریہ استادِ محترم-
اوپر پوسٹ پر ہی ترمیم کر دوں یا اس سے سیاق و سباق غائب ہو جائے گا؟
 
Top