کیسی ہدف شناس، وہ چشمِ غِزال ہے ! ۔۔۔۔ایک غزل اصلاح کے لئے

السلام علیکم
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
اساتذہء کِرام بطور خاص
جناب الف عین صاحب،
احباب محفل اور تمام دوستوں سے اصلاح ، توجہ اور رہنمائی کی درخواست ہے۔
*********** --------------------***********
تیرِ نگاہِ یار، نشانہ پہ دل لیے !!
کیسی ہدف شناس، وہ چشمِ غِزال ہے !

یہ کیسی تشنگی ہے مرے دل کو، تُو بتا ؟
پیدا ترے جواب سے پھر اک سوال ہے !

رہنا ہے جس کو ہم سے ہمیشہ ہی بد گماں
پھر اُس فریبِ رَنگ و بو کا کیوں خیال ہے!

رو رو کے ہجرِ یار میں مرنا نہیں کمال
ہنس ہنس کے اس فراق میں جینا کمال ہے!

مِضراب اک خیال کی جب روح پر پڑی
حسّاس دل میں ہجر کا کچھ اِندمال ہے!

میری نَوِشتِ عشق ہے مانندِ آئینہ
تجھ سے گِلے کا اس میں مگر ایک بال ہے

دریوزہ گر ہیں، ہاتھ میں کشکول سب لیے
دنیا میں دیکھو کیسا یہ قحط الرجال ہے!

انسان کا ہے ذوقِ نُمُو سب سے مختلف
اس اک ہنر کی آپ یہ زندہ مثال ہے !

سید کاشف
*********** --------------------***********
 

الف عین

لائبریرین
ناشاء اللہ، میری طرف سے صرف ایک بات
پھر اُس فریبِ رَنگ و بو کا کیوں خیال ہے!
بطور فاعلات مفا ’رنگُ بُ کا کو‘ پسندیدہ نہیں
 
ناشاء اللہ، میری طرف سے صرف ایک بات
پھر اُس فریبِ رَنگ و بو کا کیوں خیال ہے!
بطور فاعلات مفا ’رنگُ بُ کا کو‘ پسندیدہ نہیں
جزاک اللہ۔
بہت بہتر استاد محترم۔
کوشش کرتا ہوں کہ اس مصرع کو اور زیادہ رواں کر سکوں۔ ان شا اللہ
 
استاد محترم جناب الف عین سر شعر درست کیا ہے اور اس غزل کا مقطع بھی پیش کر رہا ہوں۔ آپ کی توجہ چاہونگا:

رہنا ہے جس کو ہم سے ہمیشہ ہی بد گماں
کیوں اُس فریبِ خوشبوئے گُل کا خیال ہے !

ہر حادثہ پہ راستہ، ہم گھر کا، وَا رکھیں
کاشف، یہ ذوق، اہلِ وفا کو حلال ہے
 
آخری تدوین:
ناشاء اللہ، میری طرف سے صرف ایک بات
پھر اُس فریبِ رَنگ و بو کا کیوں خیال ہے!
بطور فاعلات مفا ’رنگُ بُ کا کو‘ پسندیدہ نہیں
استاد محترم کیا یہ مصرع وزن سے باہر ہے؟
کچھ لوگوں نے ایسا اعتراض کیا ہے ۔ :(
یہ الگ بات کہ میں نے مصرع ہی بدل دیا ہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
بہت خوب کاشف بھائی کیا کہنے

یہ کیسی تشنگی ہے مرے دل کو، تُو بتا ؟
پیدا ترے جواب سے پھر اک سوال ہے !


واہ واہ
بہت داد قبول ہو
 
مجھ کو تو نظر نہیں آ رہیں تبدیلیاں اور اضافے!!
:) اوپر الگ پوسٹ میں لکھے تھے سر۔ دوبارہ کاپی پیسٹ کر دیتا ہوں۔
استاد محترم جناب الف عین سر شعر درست کیا ہے اور اس غزل کا مقطع بھی پیش کر رہا ہوں۔ آپ کی توجہ چاہونگا:

رہنا ہے جس کو ہم سے ہمیشہ ہی بد گماں
کیوں اُس فریبِ خوشبوئے گُل کا خیال ہے !

ہر حادثہ پہ راستہ، ہم گھر کا، وَا رکھیں
کاشف، یہ ذوق، اہلِ وفا کو حلال ہے
 

الف عین

لائبریرین
ہو، میں نے پہلے نہیں دیکھا تھا!!
فریب خوشبوئے گل کی ترکیب سمجھ میں نہیں آ سکی۔
مقطع درست ہے
 
Top