محسن نقوی کیسا عالم تھا وہ جذبوں کے رفوُ کا عالم

صائمہ شاہ

محفلین
کیسا عالم تھا وہ جذبوں کے رفوُ کا عالم
ریزہ ریزہ مری سوچیں وہ غزل جیسی تھیں
کیسا موسم تھا وہ سانسوں کی نمو کا موسم
جھیل جیسی مری چاہت وہ کنول جیسی تھی
رات آنگن میں اُترتی تھی مگر یوں جیسے
اُس کی آنکھوں میں دہکتا ہوا کاجل پھیلے
صبح خوابوں میں نکھرتی تھی مہک کر جیسے
اُس کے سینے سے پھسلتا ہوا آنچل پھیلے
دل دھڑکتا تھا کہ جیسے کسی پگڈنڈی پر
اُس کی پازیب سے ٹوٹا ہوا گھنگھرو بولے
چونک اُٹھتی تھی سماعت کہ سفر میں جیسے
اُس کے سائے کی زباں میں کوئی جگنو بولے
اُس کی زُلفیں میری تسکیں کے بھنور بُنتی تھیں
جیسے کھُلتے ہوئے ریشم سے ہوَا چھوُ جائے
اُس کی پلکیں میرے اشکوں کے گُہر چنتی تھیں
بابِ تاثیر سے جس طرح دُعا چھُو جائے
اُس کی آواز جگاتی تھی مقدّر میرا
جیسے معبد میں سویرے کا گجر بجتا ہے
جیسے برسات کی رِم جھم سے دھنک ٹوٹتی ہے
یا رحیلِ سرِ آغاز سفر بجتا ہے!
اُس کے چہرے کی تمازت سے پگھلتے تھے حروف
جیسے کُہسار پہ کِرنوں کے قبیلے اُتریں!
جیسے گھُل جائے خیالوں میں حنا کا موسم
جیسے خوشبو کی طرح رنگ نشیلے اُتریں
اُس کے قامت پہ جو سوچا تو سرِ شامِ وصال
دوشِ افکار پہ جذبوں کا سفر یاد آیا
وہ کہ مہتاب کی صورت تھی نگاہوں سے بلند
میں سمندر تھا مجھے مدّ و جزر یاد آیا
ناز نکہت کی اکائی تھی مگر محفل میں
اپنے ملبوس کے رنگوں میں وہ بٹ جاتی تھی
یوں تو قِسمت کا ستارہ تھی مگر آخرِ شب
میرے ہاتھوں کی لکیروں میں سمٹ جاتی تھی
اُس سے بچھڑا ہوں تو آنکھوں کا مقدّر ٹھہرا
دِل کے پاتال میں یخ بستہ لہو کا عالم
اپنی تنہائی کی پرچھائیں میں لپٹا ہوا جسم
جیسے ٹوٹے ہوئے شیشوں میں سبوُ کا عالم
اپنے سائے کی رفاقت پہ بھی کانپ اُٹھتا ہوں
شہر کے شہر پہ چھایا ہے وہ ہوُ کا عالم
کیسا عالم تھا وہ جذبوں کے رفو کا عالم؟
 
Top