کیا یہ شعر موزوں ہے؟؟؟

احمد بلال

محفلین
اچھااااااااااااااا!
فعل فعولن فعلن فعلن فعل فعولن فعلن فع
شیخ جو ہے مسجد میں ننگا، رات کوتھا مےخانے میں​
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعل فَعَل
جبہ، خرقہ ، کرتا، ٹوپی، مستی میں انعام کیا​
 
اچھااااااااااااااا!
فعل فعولن فعلن فعلن فعل فعولن فعلن فع
شیخ جو ہے مسجد میں ننگا، رات کوتھا مےخانے میں​
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعل فَعَل
جبہ، خرقہ ، کرتا، ٹوپی، مستی میں انعام کیا​

فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعل فَعَل

یہ کونسی بحر کے ارکان ہیں؟
 

فاتح

لائبریرین
اس بحر کی خوبی یہی ہے کہ اس میں سبب خفیف کو سبب ثقیل اور سبب ثقیل کو سبب خفیف سے بدل سکتے ہیں۔ شاید ہم نے محفل میں ہی کہیں لکھا تھا پہلے بھی
 

احمد بلال

محفلین
فع فَعِلُن بنتا ہے جسے اس طرح لکھ دیا ہے ۔
آپ اس مصرعے کی تقطیع کر دیں۔ میر کا مصرع ہے اور اسی بحر پر ہے۔ اس پر کسی کو کلام نہیں ہونا چاہیئے۔
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
اس پوری غزل میں یہی بات ہے۔ ہر ردیف والے مصرع میں ایسے ہی ہو رہا ہے
 
اس بحر کی خوبی یہی ہے کہ اس میں سبب خفیف کو سبب ثقیل اور سبب ثقیل کو سبب خفیف سے بدل سکتے ہیں۔ شاید ہم نے محفل میں ہی کہیں لکھا تھا پہلے بھی
پوسٹ نمبر 4 والی ہی تقظیع ہو گی۔ اور اس کی وجہ ٍفاتح بھائی نے بیان کر دی ہے۔

تو کیا اسے اصول یا حتمی مان کر کہیں بھی متحرک سبب ثقیل اور کہیں بھی سبب خفیف لایا جاسکتا ہے؟
غالباً آخری رکن کے علاوہ کیا یہ بات صحیح ہے؟
 

احمد بلال

محفلین
جناب یہ تو پڑھ چکا ہوں میں لیکن بس سوال یہی ہے کے کیا
فعلن
فعِلن
اور
فعلُ فعولن
ایک ساتھ استعمال بھی ہو سکتے ہیں اگر یہی اصول ہے کے سبب خفیف اور سبب ثقیل اپنی مرضی سے لائے جاسکتے ہیں بقول فاتح بھائی۔
فعلن کے پہلا سبب خفیف یعنی فع کو سبب ثقیل کیا تو فَعِلُن ہوا اور جب دوسرے سبب خفیف کو یعنی لُن کو سبب ثقیل کیا تو فِعلِن ُ ہوا جسے اگلے رکن سےملایا تو فِعلِن ُ فعلن بنا جسے فِعلُ فعولُن سے ظاہر کیا۔ لیکن جب اگلا رکن فع تھا تو وہ فعل فعو ہوا جسے فِعلُ فَعَل میں نے لکھا تھا اور یقینا اسے فعل فعول بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
 
فعلن کے پہلا سبب خفیف یعنی فع کو سبب ثقیل کیا تو فَعِلُن ہوا اور جب دوسرے سبب خفیف کو یعنی لُن کو سبب ثقیل کیا تو فِعلِن ُ ہوا جسے اگلے رکن سےملایا تو فِعلِن ُ فعلن بنا جسے فِعلُ فعولُن سے ظاہر کیا۔ لیکن جب اگلا رکن فع تھا تو وہ فعل فعو ہوا جسے فِعلُ فَعَل میں نے لکھا تھا اور یقینا اسے فعل فعول بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

”فعل فعول“ کیا کہیں بھی آسکتا ہے ؟ یا صرف آخری میں آئے گا؟
اور فعلُ فعولن آپ کے کہنے کا مطلب کے پانچ متحرک ایک ساتھ؟
 
ویسے معاف کیجئے مجھے تو میر کی ہندی بحر کا سارا چکر ہی فضول لگتا ہے جس کا نہ سر ہے نہ پیر۔ اپنے اصولوں پر ہی متفق نہیں ہے یہ بحر۔ بلکہ میں تو کہوں گا کے یہ ایک خیالی بحر بنا ڈالی ہے لوگوں نے جس کوپال پوس کر پہاڑ جتنا بڑا کر ڈالا۔
فاتح بھائی محمد وارث بھائی اور الف عین اور دیگر اساتذہ سے معذرت کے ساتھ۔ کوئی مجھے اس کا ایک حتمی اصول تو سمجھا دے۔ لیکن افسوس کے اسکا کوئی اصول مل ہی نہیں سکتا۔
 

فاتح

لائبریرین
Top