کیا یہ اقبال کا ہی کلام ہے

محمد وارث

لائبریرین
مجھے صرف عنوان پر تبصرہ کرنا ہے۔ "کیا یہ اقبال کا ہی کلام ہے"

دراصل لفظ "ہی" بہت ہی Tricky قسم کا لفظ ہے اور اکثر شعرا اور ادبا بھی اس کا غلط استعمال کر جاتے ہیں۔ یہ حروفِ حصر میں سے ہے، یعنی یہ جس لفظ کے ساتھ استعمال ہوں اس کی خصوصیت کو ظاہر کرتے ہیں یا اس کو حصار میں لے لیتے ہیں۔ عام الفاظ میں یوں سمجھیں کہ "ہی" کسی لفظ پر زور ڈالنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

جیسے، عبداللہ صاحب یہ پوچھنا چاہ رہے تھے کہ کیا یہ کلام واقعی اقبال کا ہے؟ تو اس کے لیے "ہی" کا استعمال کیا، لیکن "ہی" اپنے مقام پر نہیں ہے، اسے اقبال کے فوری بعد ہونا چاہیے تھا تا کہ ابلاغ مکمل ہو۔ پھر دیکھیے

"کیا یہ اقبال کا ہی کلام ہے"
یا
کیا یہ اقبال ہی کا کلام ہے۔ دیکھیے زور اقبال پر آ گیا۔

یا اگر کہنا ہو کہ یہ خاص آپ کا کام ہے تو ہم اکثر لکھتے ہیں

یہ آپ کا ہی کام ہے۔ حالانکہ اسے ہونا چاہیے
یہ آپ ہی کا کام ہے۔
:)
 
مجھے صرف عنوان پر تبصرہ کرنا ہے۔ "کیا یہ اقبال کا ہی کلام ہے"
۔۔۔۔۔۔۔
"کیا یہ اقبال کا ہی کلام ہے"​
یا​
کیا یہ اقبال ہی کا کلام ہے۔ دیکھیے زور اقبال پر آ گیا۔​

یا اگر کہنا ہو کہ یہ خاص آپ کا کام ہے تو ہم اکثر لکھتے ہیں​
یہ آپ کا ہی کام ہے۔ حالانکہ اسے ہونا چاہیے​
یہ آپ ہی کا کام ہے۔​

صاد کرتا ہوں۔
 

یاز

محفلین
دراصل لفظ "ہی" بہت ہی Tricky قسم کا لفظ ہے اور اکثر شعرا اور ادبا بھی اس کا غلط استعمال کر جاتے ہیں۔
:)

پہلی نظر میں ہم یہ سمجھے کہ آپ اس "ہی" کی بات کر رہے ہیں، بقول اکبر الہٰ آبادی
مذکر ہی کو کہتے ہیں مؤنث شی کو کہتے ہیں۔۔۔
:cool2:
 

لاریب مرزا

محفلین
جو جلے کٹے مراسلے انتظامیہ کی قطع برید سے بچ گئے ہیں وہ ضرور مل جائیں گے اور وہ بھی کافی ہیں ماشاء اللہ :rollingonthefloor:
مراسلے چاہے جلے کٹے ہوں یا خوش باش، ہمیں آپ کی لکھے ہوئے متن میں ہمیشہ نئے ذخیرہ الفاظ ملتے ہیں جس سے ہم سیکھتے ہیں.. :)
اب یہ اوپر والے مراسلے کی مثال ہی لے لیں.. "قطع برید" ہمارے لیے نیا لفظ ہے.. :D
 

umarjkan

محفلین
منشی مہاراج بہادر ورما برق (1884-1936)
حوالہ: محمد شمس الحق، "اردو کے ضرب المثل اشعار"

وہ آئے بزم میں اتنا تو فکر نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

ایک بہت ہی مشہور شعر ہے ،جسے عام طور پر میر تقی میرؔ کا شعر تصور کیا جاتا ہے ، لیکن وہ شعر میر تقی میر کا نہیں بلکہ فکر یزدانی رامپوری کا ہے
میر تقی میرؔ کے غزلوں کے چھ دیوان ہیں ، لیکن کسی دیوان میں بھی یہ شعر موجود نہیں ہے ۔ محققین نے اپنی تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ شعر میر کا نہیں بلکہ فکر یزدانی کا ہے ، جو رامپور کے رہنے والے تھے ۔ اس شعر کو بعض اصحاب مہاراجہ برقؔ سے بھی منسوب کرتے ہیں ، لیکن یہ درست نہیں ہے ۔ ہفت روزہ ہماری زبان نئی دہلی 28 مارچ 2005 کے ایک مضمون کے حوالے سے خلیق الزماں نصرت نے مذکورہ شعر اور شاعر کے متعلق جو تحقیق کی ہے ، وہ اس طرح ہے :۔
’’الطاف الرحمن فکر یزدانی ، راز یزدانی رامپوری کے شاگرد تھے ۔ والد کا نام مولوی حبیب الرحمن تھا ۔ راز کہتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں مذکورہ شعر کی غزل صاحبزادہ محمود علی خان رزمؔ کے دولت کدہ واقع راج دوارہ ، رامپور 1940 میں ایک مشاعرے میں سنایا تھا ،جس میں رامپور کے بزرگ شبیر علی خاں شکیب بھی موجود تھے ، جنہوں نے اس شعر کا ذکر اپنی کتاب ’’رامپور کا دبستان شاعری‘‘ مطبوعہ 1999 میں کیا ہے‘‘ ۔
(برمحل اشعار اور ان کے مآخذ ، خلیق الزماں نصرت ، رضوی کتاب گھر ، دہلی 2012 صفحہ 214) ۔
ڈاکٹر حسن الدین احمد نے اپنی کتاب ’’زبان زد اشعار‘‘ مطبوعہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس ،دہلی ، اشاعت دوم 2012 کے صفحہ نمبر 85 پر یہ شعر درج کیا ہے اور شاعر کا نام میر الطاف الرحمن فکر یزدانی رامپوری ہی لکھا ہے ۔ الغرض یہ متحقق ہوچکا ہے کہ مذکورہ شعر میر کا نہیں بلکہ فکر یزدانی رامپوری کا ہے ۔
 
Top