کیا ہم (مسلمان) دہشت گرد ہیں، یا نہیں

علی خان

محفلین
فواد صاحب ۔ میں اپکو ایک قابل بندہ سمجھ رہا تھا۔ لیکن میں اپنی رائے تبدیل کر رہا ہوں۔ کیونکہ میں نےآپ سے زیادہ جاہل اور گنوار بندہ نہیں دیکھا۔
جس طرح تم اپنی تحاریر میں یہ کہتے ہو۔ کہ ایک سوچ انفرادی ہوتی ہے، اور ایک اجتماعی، تو اپکے تمام لنک تو انفرادی یا کچھ خاص لوگوں کے متعلق ہیں اس سے آپ کسطرح ایک پوری قوم کو بدنام کرنے چلے ہیں۔ میرے خیال سے اجتماعی سوچ ایک حکومت کی ہوتی ہے، اور وہ اپکی اپنی حکومت کی ہے، جو ساری دنیا کو معلوم ہے، کہ کتنی گندی ہے، اور ہماری حکومت کی بھی سب کو معلوم ہے، کہ کتنی غلامانہ ہے،
تمہیں یہ اختیار کس نے دیا ہے، کہ ایک خاص طبقہ کی سوچ لے کر تم تمام مسلمانوں کو بدنام کرنا چاہتے ہوں۔
 

Fawad -

محفلین
پاکستان میں جو کچھ فلاحی سرگرمیوں پر آپ خرچ کر رہے ہیں وہ ایک اچھی بات ہے۔ لیکن آپ اس کے علاوہ بھی پاکستان میں کچھ اخراجات کرتے ہیں مثلاٍ سنی اتحاد کونسل کو آپ کے سفارتی ذرائع کے مطابق ہزراروں ڈالر دیئے گئے تو کیا آپ کی کوئی ویب سائٹ ایسی ہے جہاں سے اس نوعیت کی بھی تفاصیل مل سکتی ہوں؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


جس امداد کا ذکر کيا جا رہا ہے اس کی منظوری تجريری طور پر دسمبر 17 2009 کو دی گئ تھی اور يہ معلومات کسی بھی موقع پر خفيہ نہيں تھی۔ يہ پبلک ريکارڈز کا حصہ ہے اور کوئ بھی اس معلومات تک رسائ حاصل کر سکتا ہے۔ آپ اگر چاہيں تو خود بھی اس ريکارڈ کی جانچ پڑتال کر سکتے ہيں۔ آپ لفظ "پاکستان" يا کوئ بھی اور لفظ لکھ کر تمام متعلقہ معلومات مذکورہ ويب سائٹ سے حاصل کر سکتے ہيں۔

http://www.usaspending.gov/

ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ اس ضمن ميں لگائے جانے والے بعض الزامات کے برعکس اس ويب سائٹ کو امريکہ کی جانب سے کسی قسم کے کردار کشی يا تشہيری مہم کے ليے نہيں شروع کيا گيا ہے۔ سال 2006 کے اکاؤنٹيبليٹی اور شفافيت سے متعلق ايکٹ کے تحت اس ويب سائٹ کا باقاعدہ اجراء دسمبر 2007 ميں کيا گيا تھا۔ اس ايکٹ کے تحت يہ لازمی قرار پايا تھا کہ سال 2007 کے مالی سال سے وفاقی حکومت سے امداد وصول کرنے والے تمام اداروں اور تنظيموں کے متعلق معلومات عوام کی دسترس ميں ہونا لازمی ہے۔

اس ويب سائٹ کے سرسری جائزے سے يہ حقيقت واضح ہو جائے گی کہ اس ويب سائٹ کا مقصد امريکی حکومت کی جانب سے ٹيکس دہندگان کے پيسے کو استعمال کرنے کے نظام ميں شفافيت لانا ہے، کسی مذہبی يا سياسی گروہ کو نشانہ بنانا ہرگز نہيں ہے۔

ميرا خيال ہے کہ اس ميں تو دو رائے نہيں ہو سکتيں کہ حکومت کی جانب سے عوام کے سرمائے کو استعمال کرنے کے نظام ميں بہتری اور شفاف لائحہ عمل اختيار کرنا ايک اچھی روايت ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


جس امداد کا ذکر کيا جا رہا ہے اس کی منظوری تجريری طور پر دسمبر 17 2009 کو دی گئ تھی اور يہ معلومات کسی بھی موقع پر خفيہ نہيں تھی۔ يہ پبلک ريکارڈز کا حصہ ہے اور کوئ بھی اس معلومات تک رسائ حاصل کر سکتا ہے۔ آپ اگر چاہيں تو خود بھی اس ريکارڈ کی جانچ پڑتال کر سکتے ہيں۔ آپ لفظ "پاکستان" يا کوئ بھی اور لفظ لکھ کر تمام متعلقہ معلومات مذکورہ ويب سائٹ سے حاصل کر سکتے ہيں۔

http://www.usaspending.gov/

ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ اس ضمن ميں لگائے جانے والے بعض الزامات کے برعکس اس ويب سائٹ کو امريکہ کی جانب سے کسی قسم کے کردار کشی يا تشہيری مہم کے ليے نہيں شروع کيا گيا ہے۔ سال 2006 کے اکاؤنٹيبليٹی اور شفافيت سے متعلق ايکٹ کے تحت اس ويب سائٹ کا باقاعدہ اجراء دسمبر 2007 ميں کيا گيا تھا۔ اس ايکٹ کے تحت يہ لازمی قرار پايا تھا کہ سال 2007 کے مالی سال سے وفاقی حکومت سے امداد وصول کرنے والے تمام اداروں اور تنظيموں کے متعلق معلومات عوام کی دسترس ميں ہونا لازمی ہے۔

اس ويب سائٹ کے سرسری جائزے سے يہ حقيقت واضح ہو جائے گی کہ اس ويب سائٹ کا مقصد امريکی حکومت کی جانب سے ٹيکس دہندگان کے پيسے کو استعمال کرنے کے نظام ميں شفافيت لانا ہے، کسی مذہبی يا سياسی گروہ کو نشانہ بنانا ہرگز نہيں ہے۔

ميرا خيال ہے کہ اس ميں تو دو رائے نہيں ہو سکتيں کہ حکومت کی جانب سے عوام کے سرمائے کو استعمال کرنے کے نظام ميں بہتری اور شفاف لائحہ عمل اختيار کرنا ايک اچھی روايت ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
جواب غیر مکمل ہے میں نے تین سوالات پوچھے تھے بقیہ دو کے جواب نہ دینے کے پیچھے خوف کا جذبہ ہے یا کم علمی کا بہانہ یا دونوں کا مجموعہ جس کو جہل مرکب تعبیر کیا جاسکتا ہے؟
ذرا مزید متعین ہو کر اس خاص صفحے کا رابطہ یہاں دیں جو مذکورہ ویب سائٹ میں میری مطلوبہ معلومات تک رسائی دیتا ہو، محض ایک ویب سائٹ جس میں اوپن سرچ کے بجائے مخصوص اہداف تک محدود رسائی ہو، میرے مقصد کے لیے ناکافی ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
محترم فواد صاحب
کیا کہیں گے آپ اس بارے ۔۔۔۔۔۔۔۔
12 امریکی 6 برطانوی 6 مختلف شہریت کے حامل
اور صرف ایک مجہول اسلامی نام جاری کیا گیا ۔
کیوں ؟
اگر اک نام جاری کیا جا سکتا ہے تو باقیوں کے نام مشتہر نہ کرنے کا جواز ۔؟
کیا اک اسلامی نام نشر کرنا اسلام کو بدنام کی دانستہ کوشش نہیں ۔؟
http://www.bbc.co.uk/urdu/science/2012/06/120626_cridet_card_sting_zz.shtml
امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کی سربراہی میں ہونے والی ایک کارروائی میں کریڈٹ کارڈز کی غیر قانونی طور پر معلومات فروخت کرنے کے الزام میں تیرہ ممالک سے کم از کم چوبیس افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ایف بی آئی کی جانب سے چار براعظموں میں تقریباً دو سال تک کی جانے والی خفیہ نگرانی کے نتیجے میں یہ کارروائی عمل میں آئی۔
اس کے لیے ایف بی آئی نے جون سال دو ہزار دس میں کریڈٹ کارڈ کی خرید و فروخت کے لیے ایک جعلی آئن لائن ویب سائٹ بنائی تھی۔
اس ویب سائٹ پر چوری شدہ کریڈٹ کارڈ اور کریڈٹ کارڈز کے نمبرز کی خرید و فروخت کی جا سکتی تھی۔
گرفتار کیے جانے والے افراد میں سے بارہ کا تعلق امریکہ جب کہ چھ کا تعلق برطانیہ سے ہے۔
ان افراد کی عمر اٹھارہ سے پچیس سال کے درمیان ہے اور فراڈ کے الزامات کے تحت انہیں چالیس سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
ان میں سے ایک شخص میر اسلام ہیں جن کا آن لائن نام( JoshTheGod) تھا۔
میر اسلام پر چوری کیے جانے والے پچاس ہزار کریڈٹ کارڈز کی معلومات آگے فروخت کرنے کا الزام ہے۔
حکام نے کریڈٹ کارڈ فراہم کرنے والے اداروں کو بتایا ہے کہ مجموعی طور پر چار لاکھ کارڈ متاثر ہوئے ہیں۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ کارروائی کے نتیجے میں بیس کروڑ پانچ لاکھ ڈالر کا نقصان ہونے سے بچ گیا ہے۔
 

علی خان

محفلین
فواد صاحب ۔
میں یہاں فورم میں ایک تصویر شئیر کروا رہا ہوں۔ کیاآپ اپنی اڑئل رائے اس پر دینا چاہیں گے۔

15q6olc.jpg
 

arifkarim

معطل
بیچارا امریکہ اتنا کمزور ہے کہ اسکو اپنے دشمن بھی خود کھڑے کرنے پڑ رہے ہیں۔ طالبان سے لیکر القائدہ تک سب امریکہ نے خود دشمن کھڑے کئے ہیں۔ پوری دنیا کو الو بنانے کیلئے۔
 

علی خان

محفلین
فواد صاحب۔ یہ سب کیا ہے، کیا یہ اپکی دوغلی پالیسی کا حصہ نہیں ہے، جب ضرورت پڑی تو استعمال کر لیا، اور ضرورت ختم ہونے پر پابندی لگا دی۔

111006110227_haqqani304b.jpg

15q6olc.jpg
امریکی کانگریس میں پاکستان کے قبائلی علاقوں اور افعانستان میں فعال شدت پسند گروہ حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد گروہ قرار دلوانے کے لیے ایک مسودہ قانون پیش کیا گیا ہے۔
یہ قانونی بل امریکی نمائندگان کے ایوان کی ہاؤس انٹیلیجنس کمیٹی کے سربراہ مائیک روجرز اور ان کے دو ساتھیوں کی جانب سے پیش کیا گیا ہے۔
حقانی نیٹ ورک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا ٹھکانہ پاکستان کے شمال مغرب قبائلی علاقے میں ہے اور
اس پر افغانستان کی سرزمین پر نیٹو افواج کے خلاف ہونے والے حالیہ حملوں کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق یہ بل متعارف کرواتے ہوئے مائیک روجرز نے کہا کہ امریکی پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس اس بات پر متفق ہیں کہ حقانی نیٹ ورک ایک تشدد پر یقین رکھنے والی تنظیم ہے اور یہ امریکی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’حقانی گروپ ہمارے سینکڑوں فوجیوں کی ہلاکت کا ذمہ دار ہے اور یہی نہیں بلکہ بےشمار معصوم افغان مرد، عورتیں اور بچے بھی ان کے بلا امتیاز حملوں کا شکار ہوئے ہیں۔ ہم اوباما انتظامیہ پر زور دیتے ہیں کہ وہ حقانی نیٹ ورک کو باقاعدہ طور پر غیر ملکی دہشتگرد تنظیم قرار دے‘۔
حقانی نیٹ ورک کو دہشتگرد گروپ قرار دیے جانے کی صورت میں امریکہ میں ان کی مدد کرنا یا انہیں ذرائع فراہم کرنا غیرقانونی تصور کیا جائے گا۔
امریکی ارکانِ کانگریس نے اپنے ایک بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ یہ نیٹ ورک جس کے ٹھکانے پاکستان میں ہیں جون دو ہزار گیارہ میں کابل کے انٹرکانٹیننٹل ہوٹل پر ہونے والے اس حملے میں بھی ملوث ہے جس میں اٹھارہ افراد مارے گئے تھے۔
اس کے علاوہ اس گروپ کو افغان صوبے وردک میں امریکی فوجی اڈے پر ٹرک بم حملے اور کابل میں امریکی سفارتخانے پر حملے کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا گیا ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ ماضی میں پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کی حمایت اور اس کی قیادت کے لیے اپنے زیرِ انتظام قبائلی علاقے شمالی وزیرِستان میں محفوظ پناہ گاہیں مہیا کرنے کا الزام عائد کرتا رہا ہے تاہم پاکستان شدت پسندوں کو اپنی سر زمین پر محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کے الزام کی تردید کرتا ہے۔
امریکی حکام پاکستان سے بارہا حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ بھی کرتے رہے ہیں۔ رواں ماہ ہی امریکی وزیرِ دفاع لیون پنیٹا نے دورۂ افغانستان کے دوران کہا تھا اسلام آباد حقانی نیٹ ورک کے خلاف ہر صورت میں کارروائی کرے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں شدت پسندوں کی مبینہ محفوظ پناہ گاہوں کے حوالے سے واشنگٹن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو لنک
 

Fawad -

محفلین
فواد صاحب ۔
میں یہاں فورم میں ایک تصویر شئیر کروا رہا ہوں۔ کیاآپ اپنی اڑئل رائے اس پر دینا چاہیں گے۔

15q6olc.jpg


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


آپ نے جو تصوير پوسٹ کی ہے اس کی بدولت کئ برسوں سے اردو فورمز پر جاری بحث ميں کوئ اضافہ نہيں ہوتا۔ بلکہ تصوير ميں جرنل حميد گل کی موجودگی امريکی حکومت کے اس موقف کی توثيق کر رہی ہے جو ميں نے اس ايشو کے حوالے سے بارہا فورمز پر پوسٹ کيا ہے۔ ماضی ميں اس حوالے سے ميں نے جو کہا تھا وہ آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?p=553490#post553490

افغانستان اور پاکستان ميں دہشت گردی کے سبب کشت وخون کا جو بازار گرم ہے، اس تناظر ميں يہ بحث کہ 80 کی دہائ ميں امريکی حکومت کے افغانستان ميں کسی مخصوص گروہ کے ساتھ کس نوعيت کے تعلقات رہے ہوں گے خاصی بے مقصد اور بے معنی ہے۔ اگر امريکہ سميت عالمی برادری بشمول اقوام متحدہ نے ايک قابض فوج کے مقابلے ميں افغانستان کے عوام کی مدد کا فيصلہ کيا تھا تو اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ دو دہائيوں کے بعد اسی ملک کے کچھ گروہوں اور افراد کو اس بات کا لائسنس اور کھلی چھٹی مل جانی چاہيے کہ وہ دہشت گرد گروہوں کی مدد کريں اور دنيا بھر ميں اپنی سوچ، سياسی اثر اور نقطہ نظر کو مسلط کرنے کے لیے بے گناہ انسانوں کو قتل کرتے پھریں۔

کيا اس دليل ميں منطق کا کوئ پہلو ہے کہ چونکہ 30 برس قبل امريکہ نے دنيا کے ساتھ مل کر افغانستان پر ہونے والی جارحيت کی مذمت کی تھی اور افغان عوام کے درست موقف کی حمايت کی تھی چنانچہ اب ہميں طالبان کی سوچ اور ان کی فکر کی بھی حمايت کرنی چاہيے، وہی طالبان جنھوں نے القائدہ اور اس کی قيادت کو محفوظ ٹھکانے فراہم کيے۔ ايک ايسی تنظيم جس نے امريکہ کے خلاف جنگ کا باقاعدہ اعلان کر رکھا تھا۔

امريکہ نے 30 برس قبل جو کيا، اسے ہر لحاظ سے ايک درست خارجہ پاليسی قرار ديا جا سکتا ہے جسے دنيا کی تمام اہم اقوام نے درست قرار دے کر اس کی حمايت کی تھی۔ ليکن يہ نہيں بھولنا چاہیے کہ اس وقت بھی امريکی حکومت افغانستان میں مختلف افراد اور گروہوں کو براہراست کنٹرول کرنے اور ہدايات دينے کے عمل کا حصہ نہيں تھی۔ يہ ايک ايسی حقيقت ہے جسے پاکستان ميں امريکہ کے سخت ترين نقاد جرنل حميد گل بھی تسليم کر چکے ہیں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu


 
Top