طارق شاہ
محفلین
غزل
کیا کہیے آرزُوئے دِلِ مبُتِلا ہے کیا
جب یہ خبر بھی ہو، کہ وہ رنگیں اَدا ہے کیا
کافی ہیں میرے بعد پَشیمانیاں تِری
مَیں کُشتۂ وَفا ہُوں مِرا خُوں بَہا ہے کیا
وقتِ کَرَم نہ پُوچھے گا لُطفِ عمیمِ یار
رِندِ خراب حال ہے کیا، پارسا ہے کیا
دیکھو جِسے، ہے راہِ فَنا کی طرف رَواں
تیری محل سرا کا یہی راستہ ہے کیا
ہم کیا کریں، اگر نہ تِری آرزُو کریں
دُنیا میں اور بھی کوئی تیرے سِوا ہے کیا
یُوں شُکرِ جَور کرتے ہیں تیرے اَدا شناس
گویا، وہ جانتے ہی نہیں ہیں گِلا ہے کیا
رونے لگے ابھی سے کہ ہے اِبتدائے حال
تُم نے کبھی فسانۂ حسرتؔ سُنا ہے کیا
مولانا حسرتؔ موہانی
(سیّد فضل الحسن)