کیا کر لو گے ہمارا؟؟؟

اظہرالحق

محفلین
ایک گھسا پٹا سا شعر ہے ، جس کا ایک مصرعہ کچھ یوں ہے ، کل اور کسی نام سے آ جائیں گے ہم لوگ، ہمارے ملک میں تو یہ بات سچ ہی ثابت ہوتی ہے ، آج کی ہی بات لے لیں سپریم کورٹ نے ایک صاحب کو جیل بھیجھا ، اور انکے چہرے پر ایسا سکون تھا کہ جیسے کوئی بات ہی نہ ہو ، کیونکہ وہ ایسی سزائیں تو آرام کے لئے اکثر سنتے ہیں ، ٹی ٹاک شوز میں لاجواب بھی ہو جائیں تو ، ایسی باتیں ہوتیں ہیں ، کہ بھائی ٹھیک ہے تو اب کیا کر لو گے ہمارا

وزیر بجلی کو جب جھوٹا کہا جائے تو وہ کہتا ہے ، ہاں تو اب کیا تم مجھے وزیر کی کرسی چھوڑنے کو بولو گے ، نہیں چھوڑتا کیا کر لوگے

اپوازیشن والے کہتے ہیں ، ہماری مرضی جس ایشو پر ہمارا دل کرے گا اس پر اٹکیں گے ، عوام تو بے وقوف ہیں ہی ، ووٹ ہمارا پکا ہے

تاجر کہتے ہیں ، ایک روپے کی مہنگائی پر دس روپے بڑھا دیں گے ، کیا کر لو گے ہمارا ؟

کھلاڑی کہتے ہیں ، ہم نے کھیلنا ہے اور پیسے کمانے ہیں ، ہاریں جیتں یہ تو بس ہماری مرضی جدھر کی ہوا اچھی وہ ہی اچھا ، کیا کر لو گے ہمارا

ٹی وی کے اینکرز کہتے ہیں کہ قوم کا بڑا مسلہ بھوک نہیں سیاست ہے ، اس لئے وہ دن رات سیاست کی مالا جپتے ہیں ، کیا کر لو گے ؟

میرے شاعر اور ادیب ، محبوب کی زلفوں سے ہٹ ہی نہیں رہے ، کون پڑھے گا انہیں اگر وہ حالات پر لکھیں گے ؟ نہیں لکھتے کیا کر لو گے ہمارا؟

سو جسکی بات کروں وہ بھی اپنی اپنی چال پر ھے ، اور کوئی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ ۔ ۔ کیا کر لو گے ؟

سو اب کوئی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ ۔ ۔ ہاں بگڑ رہا ہے تو صرف اس پِسے ہوئے طبقے کا جو سفید پوش بھی ہے اور “عفت اور عصمت“ کی حفاظت کے چکر میں اپنا سب کچھ گنو دیتا ہے ۔ ۔ ۔

مرتا ہے تو عام آدمی ، کسی بڑے کا کیا بگڑے گا یا کوئی کیا بگاڑ لے گا ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تو روز تمہارے منہ پر آ کر بولے گا


میں یہ کر رہا ہوں ، کیا کر لو گے میرا ۔ ۔ ۔

اور ہم ، ، ، اسکا کچھ بھی نہیں کر سکتے ، کیونکہ ہم کچھ بھی نہیں کرنا چاہتے
 
Top