تبسم کیا میری آرزو ہے مری التجا ہے کیا

کیا میری آرزو ہے مری التجا ہے کیا
سب حال آئنہ ہے مجھے پوچھتا ہے کیا

ہے تیری ذات محفلِ ہستی میں جلوہ گر
اور اس ظہور پر یہ خفا ماجرا ہے کیا

سر رکھ دیا ہے در پہ کسی بے نیاز کے
اے بے محل نیاز ترا مدعا ہے کیا

فریاد دو جہاں سے وہ محفل ہے پر خروش
اس بارگاہ ناز میں میری صدا ہے کیا

انجام زندگانی انسان کی موت ہے
گر انتہا یہی ہے تو یہ انتہا ہے کیا

رقصاں ہے کائنات میں سرمستیِ بہار
یہ وقت ناونوش ہے ہاں دیکھتا ہے کیا

مدہوش ہوں کیف امیدِ وصال میں
اے کاش جانتا کہ کسی کی رضا ہے کیا

پہلو میں محو خواب ہے سرمایہ سکوں
اس پر بے قرار ہے دل ماجرا ہے کیا

ہے تیری ذات کا فرد مومن سے بے نیاز
تجھ کو کسی سے ترک وفا کا گلا ہے کیا

دیکھی ہیں گرمیاں بھی شبستان وصل کی
ان میں سوز حسرتِ دل کے سوا ہے کیا

طاری ہے محویت سی لگا کر کسی سے دل
میں جانتا نہیں کہ جفا کیا وفا ہے کیا

کھل جائے گا کسی نہ کسی دن یہ راز بھی
نیرنگیِ طلسمِ فنا و بقا ہے کیا

اے دل نیا ہے آج ترا جوش و اضطراب
رازِ حیات تو نے کسی سے سنا ہے کیا

اکسیر کی عبث ہے تبسم تجھے تلاش
ذکرِ خدا سے بڑھ کے کوئی کیمیا ہے کیا
صوفی تبسم
 
آخری تدوین:
Top