کیا اعلٰی تعلیم لڑکیوں کی شادی میں رکاوٹ ہے؟

انیس بھائی یہ مستقبل بعید کی بات کر رہا ہے۔ جب اس کا وقت آئے گا تب دیکھیں گے۔
ویسے تو شادی نہ کرنے کے دعوے کرتے ہیں۔
خیر۔
میری بیگم مجھ سے زیادہ پڑھی لکھی ہے۔ بلکہ وہ تو پوزیشن ہولڈر بھی ہے بیچلر اور ماسٹرز کی۔ اور میرے لیے یہ بات باعث فخر ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اردو محفل کی ریت ہے کہ ہر رکن اپنا تعارف دیتا ہے سو آپ بھی تعارف کے زمرے میں تشریف لائیں اور اپنے تعارف سے نوازیں۔
 

مقدس

لائبریرین
؎ تعلیم عورتوں کی ضروری تو ہے مگر
خاتونِ خانہ ہوں سبھا کی پری نہ ہوں!

در اصل مسئلہ تعلیم کا نہیں۔ عورتوں کو زیادہ سے زیادہ سے تعلیم حاصل کرنی چاہئے۔ مگر تعلیم حاصل کرنے کے بعد اگر اس کی توجہ گھر پر ہو اور وہ گھر اور بچوں کی تعلیم و تربیت کا مکمل ذہن رکھتی ہو پھر تو کوئی مسئلہ درپیش آنے کے کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی عورت کہے کہ میں تو تعلیم حاصل کرنے کے بعد لازمی طور پر نوکری کرنی ہے اور وہ بھی کسی ہاسپٹل میں اور جہاں ایوننگ اور نائٹ ڈیوٹیاں بھی لگتی ہیں تو ایسے میں گھر کا حشر نشر ہونے کا امکان رہتا ہے۔ عورت کی حالانکہ ذمہ داری گھریلو امور اور مرد کی ذمہ داری بیرونی امور اور بیوی بچوں کے لئے نان و نفقہ کا انتظام و انصرام ہے اور اگر اس کا خیال رکھا جائے تو میاں بیوی زندگی کی ایک گاڑی کے دو پہیے کے طور پر بخوبی نباہ کر سکتے ہیں لیکن اگر دونوں پہیے اپنی اپنی جگہ چھوڑ کر بلکل برابر ایک ہی ایکسل پر جڑنے کی کوشش کریں تو گاڑی کا تو سرے سے وجود ہی نہ رہ جائے گا!

اب میں اپنے یہاں کا ایک قصہ ذکر کرتا ہوں:
والدین (بمعہ دادی جان) نے بچپن میں فسٹ کزن کے ساتھ منگنی کروا دی جبکہ دونوں تقریباً میٹرک یا مڈل کلاسز کے طالب علم تھے۔ دونوں پڑھتے رہے۔ لڑکی نے ایف ایس سی کی کوشش کی مگر ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد نرسنگ میں داخلہ لے لیا۔ جبکہ لڑکا بی ایس سی، ایم ایس سی، ایم فل وغیرہ کرتا رہا اور بالآخر ایک گورنمنٹ ادارے میں 16ویں سکیل میں اس کو جاب مل گئی۔ لڑکی اور لڑکی والے بضد ہیں یہ ہاسپٹل میں جاب ضرور کرے گی (لاہور کے ایک ہاسپٹل میں) اور اس کے علاوہ نکاح کے لئے پہلے تین تولے سونا اور شہر میں سے دس مرلہ زمین لڑکی کے نام کروائی جائے اور ناچاقی⁄طلاق کی صورت میں دو لاکھ روپے بھی دینا ہوں گے اس کے علاوہ ماہانہ 2000 روپے جیب خرچ بھی لڑکی کو دیا جائے پھر شادی ہو گی۔ جبکہ لڑکے کا یہ کہنا ہے کہ میں اس کے تمام اخراجات نان و نفقہ کا ذمہ دار ہوں اور اس میں کوئی کمی یا کوتاہی نہیں آئے گی۔ رہنے کے لئے الگ مکان بھی ہے۔ لڑکی کا کام گھر کو سنبھالنا اور بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت ہے۔ لہٰذا اس قسم کی شرائط کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مگر لڑکے کے والدین کہتے ہیں کہ اپنے قریبی رشتہ دار (لڑکے کے تایا جی اور کزن) ہونے کی وجہ سے ادھر ہی نکاح کرنا ہے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ وغیرہ کوئی اس کا حل!!!!!!!!!!!!

مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بیویاں، بہنیں مائیں جب ڈاکٹر کے پاس جائیں تو فی میل ڈاکٹرز ہونی چاہیے۔۔ تاکہ وہ آسانی سے اپنے مسائل ڈسکس کر سکیں۔ اورغیر مرد سے ان کا پردہ رہے اور پھر ان کو نائٹ ڈیوٹیز کی اجازت بھی نہیں دینا چاہتے۔۔ کیونکہ اس سے فیملی لائف ڈسٹرب ہوتی ہے۔۔ کیا عورتوں کو ڈاکٹرز کی ضرورت صرف دن میں پڑ سکتی ہے؟
کیا بچے یا گھر صرف عورت کی ذمہ داری ہوتے ہیں؟ باپ کا اس میں کوئی حصہ نہیں۔۔
اگر ایک عورت ڈاکٹر ہے۔۔ ہاسپٹل میں جاب کرتی ہے۔۔ اس کی نائٹ ڈیوٹی ہے تو کیا اس ویک اس کے شوہر حضرات رات کو گھر پر بچوں کا خیال نہیں رکھ سکتے؟
گھر کی دیکھ بھال نہیں کر سکتے؟
 

فاتح

لائبریرین
مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بیویاں، بہنیں مائیں جب ڈاکٹر کے پاس جائیں تو فی میل ڈاکٹرز ہونی چاہیے۔۔ تاکہ وہ آسانی سے اپنے مسائل ڈسکس کر سکیں۔ اورغیر مرد سے ان کا پردہ رہے اور پھر ان کو نائٹ ڈیوٹیز کی اجازت بھی نہیں دینا چاہتے۔۔ کیونکہ اس سے فیملی لائف ڈسٹرب ہوتی ہے۔۔ کیا عورتوں کو ڈاکٹرز کی ضرورت صرف دن میں پڑ سکتی ہے؟
کیا بچے یا گھر صرف عورت کی ذمہ داری ہوتے ہیں؟ باپ کا اس میں کوئی حصہ نہیں۔۔
اگر ایک عورت ڈاکٹر ہے۔۔ ہاسپٹل میں جاب کرتی ہے۔۔ اس کی نائٹ ڈیوٹی ہے تو کیا اس ویک اس کے شوہر حضرات رات کو گھر پر بچوں کا خیال نہیں رکھ سکتے؟
گھر کی دیکھ بھال نہیں کر سکتے؟
زبردست۔۔۔ متفق۔۔۔ پسندیدہ۔۔۔ دوستانہ۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
لڑکیوں کی اعلی تعلیم ان کی شادی میں رکاوٹ بنتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟
" جوڑے آسمانوں پہ بنتے ہیں ۔ اور انسانی زندگی کے تمام کام اپنے اپنے مناسب وقت پر انجام پاتے ہیں ۔ یہ خیال بالکل غلط ہے کہ " لڑکی کی اعلی تعلیم " اس کی شادی میں رکاوٹ ہوتی ہے ۔ میرے ذاتی مشاہدے میں بلا کسی خاندانی تخصیص کے " اعلی تعلیم یافتہ اور میٹرک پاس " ہر دو لڑکیوں کی شادی قریب 28 سے 30 سال کی عمر میں ہونا ہے ۔ اس تاخیر کا باعث" لڑکیوں " سے زیادہ " لڑکوں " کی جانب سے ہوتا ہے ۔ چاند سی بہو ۔ جہیز کی لعنت ۔ لڑکے کا اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا انتظار ۔ عام عذر اور بہانے ہوتے ہیں ۔
 

نایاب

لائبریرین
مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بیویاں، بہنیں مائیں جب ڈاکٹر کے پاس جائیں تو فی میل ڈاکٹرز ہونی چاہیے۔۔ تاکہ وہ آسانی سے اپنے مسائل ڈسکس کر سکیں۔ اورغیر مرد سے ان کا پردہ رہے اور پھر ان کو نائٹ ڈیوٹیز کی اجازت بھی نہیں دینا چاہتے۔۔ کیونکہ اس سے فیملی لائف ڈسٹرب ہوتی ہے۔۔ کیا عورتوں کو ڈاکٹرز کی ضرورت صرف دن میں پڑ سکتی ہے؟
کیا بچے یا گھر صرف عورت کی ذمہ داری ہوتے ہیں؟ باپ کا اس میں کوئی حصہ نہیں۔۔
اگر ایک عورت ڈاکٹر ہے۔۔ ہاسپٹل میں جاب کرتی ہے۔۔ اس کی نائٹ ڈیوٹی ہے تو کیا اس ویک اس کے شوہر حضرات رات کو گھر پر بچوں کا خیال نہیں رکھ سکتے؟
گھر کی دیکھ بھال نہیں کر سکتے؟
بالکل درست لکھا محترم بہنا
1978 میں اک مشہور عالم دین پر گزرنے والی آفت یا آگئی ۔ جب ان کے " نرسنگ " سے متعلق " ایوننگ اور نائٹ ڈیوٹی " کے " حرام و ناجائز " ہونے کے فتوی نے ان کی " عزیز از جان بیگم " کی جان خطرے میں ڈال دی ۔ لیڈی ایچیسن ہسپتال اور لیڈی ولنگڈن ہسپتال کی نرسز اور لیڈی ڈاکٹرز نے اس " فتوے " کی روشنی میں ڈاکٹر صاحب کی بیگم کو " اٹینڈ " کرنے سے صاف انکار کر دیا ۔ اور ہنگامی بنیادوں پر اس فتوے سے رجوع کیا گیا اور " نرسنگ " کو اک قابل عزت اور اہم انسانی ضرورت قرار دیا گیا ۔
 
شمشاد بھائی آپ کا تجزیہ سو فیصد درست ہے کہ جب لڑکی کی شادی کی عمر ہوتی ہے تو رشتے آتے ہیں لیکن اس وقت تعلیم حاصل کرنے کا شوق رشتے ٹھکرانے کا سبب بنتا ہے اور جب تعلیم مکمل ہوتی ہے تو سر میں چاندی کی وجہ سے رشتے کم آتے ہیں۔ دوسری سب سے بڑی وجہ مروجہ جہیز کی لعنت ہے جو ایک ناسور کی صورت اختیار کر چکا ہے۔اسلامی تعلیمات میں نکاح انتہائی آسان تھا لیکن موجودہ دور میں اعلی تعلیم اور مروجہ جہیز کے ٹو کی مانند دو چوٹیاں ہیں جنہیں نکاح کے لئے عبور کرنا پڑتا ہے۔
ابھی مراسلہ نمبر 24 تک پہنچا ہوں یار ایسی کوئی بات نہیں ہے ہم لوگ بنیادی طور پر ہندو معاشرے سے منسلک ہیں اور اس کو جوائنٹ فیملی پروگرام کہتے ہیں اگر جب تک یہ پروگرام ہے تو اس وقت تک لڑکی شادی کےبعد پڑھائی نہیں جاری رکھ سکتی ہے کیونکہ ادھر ساس اور نندوں کا الگ جھگڑا ہے۔
میرے سامنے ایسی کئی مثالیں ہیں جو کہ شادی کے بعد پڑھائی پر مبنی ہیں جس میں لڑکی شادی کے بعد ڈاکٹری کا کورس یعنی ایم بی بی ایس کرلیتی ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ وہ الگ رہائش پذیر ہوتے ہیں بس ذرا فیملی پلاننگ کرنی پڑتی ہے۔
 
بات تو اچھی ہے لیکن اکثریت اس کو اچھا نہیں سمجھتی کہ مرد احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
نہیں بھائی سب مرد ایک جیسے نہیں ہوتے بہت سے ایسے ہیں جو کہ اس بات پہ فخر محسوس کرتے ہیں کہ ان کی بیویاں ان سے زیادہ پڑھی لکھی ہیں۔
بلکہ اگر حقیقت پسند بن کر سوچیں تو آج کل کے دور میں نا صرف لڑکے بلکہ ان کی مائیں بھی یہی چاہتی ہیں کہ ان کی بہوویں پڑھی لکھی ہوں بے شک ان کے اپنے بیٹے نے میٹرک بھی نہ کیا ہو لیکن بہو ان کو ایم اے پاس ہی چاہیے ہوتی ہے۔
 
عموماً دیکھا گیا ہے کہ لڑکی کی عمر جب 20، 22 سال ہوتی ہے تو رشتے آنا شروع ہو جاتے ہیں، تب والدین کا کہنا ہوتا ہے کہ لڑکی ابھی پڑھ رہی ہے اور لڑکی کی اپنی مرضی بھی یہی ہوتی ہے کہ میں نے ابھی پڑھنا ہے۔ جوں جوں ڈگریاں ملتی جاتی ہیں، عمر بھی بڑھتی جاتی ہے۔ اس کے بعد رشتوں کا حصول مشکل ہو جاتا ہے کہ لڑکا اتنا پڑھا لکھا نہیں ہے، اور جو ان سے زیادہ پڑھا لکھا لڑکا ملتا ہے تو ان کی طلب بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اسی چکر میں بہت سی لڑکیوں کی عمر شادی کی مناسب عمر سے بہت آگے بڑھ جاتی ہے جو کہ والدین کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔

اسی کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے میں بچپن کی منگنی بھی عام ہے۔ والدین نے بچپن میں بچوں کی نسبت طے کر دی۔ بڑے ہونے پر ان دونوں میں سے کوئی ایک بہت پڑھ گیا اور کوئی ایک پیچھے رہ گیا، تب مشکل، ان دونوں میں سے کسی ایک نے انکار کر دیا تب مشکل۔ والدین نے زبردستی شادی کر دی تو ساری عمر گلے پڑا ڈھول بجانا تو پڑے گا، بُری بھلی نبھانی تو پڑے گی۔

آپ کی آراء کا انتظار ہے۔
میرے خیال کے مطابق تعلیم لڑکی کی شادی کی راہ میں رکاوٹ نیں بلکہ جہیز اس کی شادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ سو ہمیں جہیز جیسی لعنت سے معاشرے کو پاک کرنا چاہیے ۔کیونکہ اگر لڑکی ایم اے بھی کرتی ہے اور اگر وہ ٹھیک طریقے سے کرے تو 23 سال کی عمر میں کر لیتی ہے اور 23،24 سال کوئی ایسی بڑی عمر نہیں کہ اس کی شادی میں تاخیر ہو گئی ہو۔اگر دورانِ تعلیم اس کی بات طے کر دی جاےُ اور تعلیم سے فارغ ہوتے ہی اس کی شادی کر دی جاےُ تو کوئی زیادہ عمر نہیں ہوتی۔لیکن یہ بات اپنی جگہ ایک مسلّم حقیقت رکھتی ہے کہ جب لڑکی پڑھ لکھ جاتی ہے تو اس کے ماں باپ کی ایک فطری سی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے لیے ایک پڑھا لکھا جیون ساتھی منتخب کریں۔لیکن آج کل کے دور میں چونکہ لڑکیوں کے رشتوں کی وجہ سے ان کے ماں باپ بہت زیادہ پریشان ہیں ویسے بھی آج کل لڑکیوں کی اکثریت لڑکوں سی زیادہ پڑھی لکھی ہے تو لڑکیوں کے ماں باپ ان سے کم تعلیم یافتہ لڑکوں کے ساتھ شادی کرنے پر مجبور ہیں۔
جہاں تک بچپن کی منگنی کا تعلق ہے تو یہ ایک بہت غلط رسم ہے جسے یقینا ختم ہونا چاہیے۔کیونکہ اکثر اوقات ماں باپ بچپن میں منگنی اپنے رشتوں کو اور مضبوط کرنے کے لیے کرتے ہیں لیکن اگر بڑے ہو کر اگر بچے شادی سے انکار کر دیں تو اختلافات اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ پہلے رشتے بھی ختم ہو جاتے ہی اور اگر ایسی شادیاں ہو بھی جائیں جس میں لڑکی یا لڑکے کی رضامندی شامل نہ ہو تو ایسی شادیاں بہت سے مسائل کو جنم دیتی ہیں۔
 

زرقا مفتی

محفلین
السلام علیکم
میرے خیال میں اعلیٰ تعلیم لڑکیوں کی شادی میں روکاوٹ ہر گز نہیں۔ میں اپنے خاندان یا احباب پر نظر ڈالوں تو اب لڑکے خود اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی سے شادی کی فرمائش کرتےہیں۔ کیونکہ کم پڑھی لکھی لڑکی سے اُن کی ذہنی مسابقت نہیں ہو سکتی اور وہ اُسے فخریہ طور پر اپنے احباب سے ملوا نہیں سکتے۔ میرے ایک عزیز نے اے لیول کے بعد امریکہ سے ایم بی اے کیا جب شادی کا مرحلہ آیا تو موصوف نے فرمائش کی کہ اُن کی ہونے والی بیوی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو۔ ثانوی تعلیم انگریزی میڈیم سکول سے حاصل کی ہو۔ ڈرائیونگ جانتی ہو۔ مذہب سے واقف ہو۔
ایک اور نوجوان نے فرمائش کی کہ اُن کی خوشدامن ﴿ساس﴾ بھی تعلیم یافتہ ہو
جبکہ اکثر خواتین اپنے ہونہار بیٹوں کے لئے پڑھی لکھی خوبصورت اور متمول خاندان کی لڑکی تلاش کرتی ہیں چاہے اُن کا فرزند صرف نام کا ہی چاند ہو
واجبی شکل صورت کی خواتین اپنے قبول صورت بیٹوں کے لئے شہزادی ڈیانا جیسی بہو کی تلاش میں ہوتی ہیں ۔
جہیز تو لمبا چوڑا طلب کرتے ہیں۔ رسم ورواج کی بھی پابندی چاہتے ہیں مگر مہر شرعی مقرر کر دیتے ہیں۔ جیب خرچ لکھنے سے کتراتے ہیں۔ نان نفقہ کی تو بات ہی نہ کریں
دوسری جانب لڑکی والے بھی کم نہیں
میری ایک عزیز چاہتی ہیں کہ اُنکی اعلیٰ تعلیم یافتہ خوبصورت بیٹی کی شادی ایسے گھر میں ہو جہاں پیسے کی ریل پیل ہو باورچی ضانے کی ذمہ داری خانساماں پر ہو اور گھر کے دیگر امور کے لئے پانچ سات خادم ہوں۔
کچھ لڑکی والے شادی سے پہلے ہی سسرال والوں سے پوچھتے ہیں کہ ہماری بیٹی کو آپ کا گھر کا کونسا پورشن دیں گے
کچھ لڑکیاں پہلے دن سے ہی وہ سب آسائشیں چاہتی ہیں جن کو اُن کے بزرگوں نے بیس بیس برسوں میں حاصل کیا
 
Top