کیا آپ نے کبھی کسی کو چھیڑا

سیما علی

لائبریرین
بُرا اس لیے منایا تھا کہ شاید سب کے سامنے انہوں نے اپنی ہتک محسوس کی تھی۔ اور شکایت بھی اس لیے لگائی تھی۔
تخلیے میں چھیڑا ہوتا تو سکتا ہے برداشت کر جاتیں۔ لیکن اتنی بھیڑ بھاڑ میں تخلیہ میسر ہونا ناممکن تھا۔
قسمت میں جو لکھا ہوتا ہے، وہ ہو کر رہتا ہے۔
اللّہ کا شکر ہے اُس نے چاند سی دلہن دی :):)
 
محفلوں میں دن اچھے برے ساتھیوں سے ہوتے ہیں ماورا، بوچھی، زینب ، شارق، سیدہ شگفتہ ، مہوش علی ، زہرہ ، اس محفل کے بہترین ارکان اور ہماری محفلین فیملی کے وہ ہیرے ہیں جو اب اگر چکر لگاتے بھی ہیں تو زندگی کے چکروں میں شاید وقت نہیں نکال پاتے کہ کسی گفتگو کا حصہ بن جائیں ۔ اب جو یہاں ہیں انہی سے ماحول بنانا ہوگا ۔ کیا پتہ کب کسے گھر کی یاد آجائے اور وہی سب کچھ پھر سے لوٹ آئے ۔ بستے گھروں میں بھولے گھر آہی جاتے ہیں ۔
 
یاد رہے کہ یہ چیدہ چیدہ نام ہیں جو بیان کیئے ہیں وگرنہ مجھ سے پہلے صرف پچاس لوگ تھے جن میں سے استاد محترم مثل والد محفل عزیز از دل و جان شمس المحفل جناب اعجاز عبید صاحب کا وجود جس مستقل مزاجی سے پیوستہ محفل ہے ہم سب پر ایک احسان عظیم ہے اس مالک کون و مکاں کا کہ جس کے قبضہ قدرت میں ساری کائنات ہے
 

سیما علی

لائبریرین
استاد محترم مثل والد محفل عزیز از دل و جان شمس المحفل جناب اعجاز عبید صاحب کا وجود جس مستقل مزاجی سے پیوستہ محفل ہے ہم سب پر ایک احسان عظیم ہے اس مالک کون و مکاں کا کہ جس کے قبضہ قدرت میں ساری کائنات ہے
بالکل درست کہا آپ نے !!!! اُستادِ محترم جناب اعجاز عبید صاحب کا وجود شجرِ سایہ دار کی مانند سائہ افگن ہے ۔پروردگار سے دعا ہے اُنکو صحت والی عمر عطا فرمائے آمین ۔سچ کہا اُستادِ محترم کا ہم سب پر ایک احسانِ عظیم ہے ۔اس محفل میں آنے کے بعد جس چیز کو سب سے زیادہ محسوس کیا وہ اُنکی کی بے پناہ محبت و شفقت ہے جو سب کے لئے یکساں محسوس کی جاسکتی ہے !سلامت رہیں ایسے لوگ جنکے ایک ایک لفظ سے اُنکی محبت و عنائت محسوس کی جاتی ہے ۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
زندگی میں صرف ایک ہی دفعہ کسی کو چھیڑا تھا، اس کے بعد دونوں کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ کر لی۔
 
ضیاء الحق کا دور حکومت ہے ۔ 1984 کی بات ہے ، ملتان روڑ لاہور پر جہاں آج کل سبزہ زار سکیم ہے یہ جگہ ساری کی ساری کھیت کھلیان ہوتی تھی ۔ انہی کھیتوں میں تین ٹیوب ویل ہوا کرتے تھے ۔ ان میں سے ایک ٹیوب ویل پر جسے اس وقت بمبی کہا جاتا تھا ۔ ایک سات سالہ بچہ نہا رہا تھا ۔ وہ اکیلا نہ تھا اس کا چھوٹا بھائی بمبی سے نکلتے ہوئے کھالے میں نہا رہا تھا وہ خود بمبی کے اند والے سیمنٹ والے حلقے میں نہا رہا تھا۔ پانی کافی گہرا تھا کوئی تین تین فٹ تو ہوگا۔ وہ بچہ بار بار پاکی کے نیچے ٹبی (ڈبکی) لگا آنکھیں کھول کھول کر کر یہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اتنا گہرا پانی ہے ۔ اس میں ڈڈو مچھیاں (مینڈک کا وہ دور جب وہ ایک چھوٹی سی پونگ کی صورت میں ہوتا ہے اسے بچے اپنی زبان میں ڈڈو مچھی کہتے تھے) کیوں نہیں ہیں ۔ ایک مرتبہ جب ٹبی مار کے باہر نکلے تو کیا دیکھا کہ ایک عدد مولانا صاحب عمر جن کی 29-30 سال تک ہوگی۔کھڑے ہوئے اپنا صافہ دھو رہے ہیں ۔ بچے نے ادب سے سلام کیا اور کہا:- السلام علیکم مولبی صاحب:- مولوی صاحب مسکرائے، داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور فرمانے لگے:۔ وعلیکم السلام بیٹا کیسے ہو! بچہ بولا:۔ جی مولبی صاحب الحمد للہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں۔ ایک سوال پوچھنا تھا اگر برا نہ مانیں تو پوچھ لوں ۔ مولبی صاحب خوش ہوئے اور فرمانے لگے:۔ ما شاء اللہ کس کے بیٹے ہو بڑے سلجھے ہوئے بچے ہو۔ پوچھو بیٹا۔ بچہ جی وہ مولبی صاحب ایک شعر کا مطلب پوچھنا تھا اگر بتا دیں تو مہربانی ہوگی ۔ مولبی صاحب بولے پوچھو پوچھہ بیٹا :--- بچےنے پوچھا جی مولبی صاحب ایہہ دسو ایہہ داڑھیاں نیں کہ جھاڑیاں نیں ، اسیں لا مواتے ساڑیاں نیں دا کیہہ مطلب ہے ؟ مولبی صاحب گنگ و ششدر رہ گئے جب ہوش آیا تو اس بچے کے والد کے متعلق پوچھا اور باقاعدہ شکایت پہنچائی جس کے بعد جو میرا حال ہوا اللہ ہی جانے۔ لیکن ابو تو مارتے بھی اور ہنستے بھی جاتے تھے۔
 
آخری تدوین:
ضیاء الحق کا دور حکومت ہے ۔ 1984 کی بات ہے ، ملتان روڑ لاہور پر جہاں آج کل سبزہ زار سکیم ہے یہ جگہ ساری کی ساری کھیت کھلیان ہوتی تھی ۔ انہی کھیتوں میں تین ٹیوب ویل ہوا کرتے تھے ۔ ان میں سے ایک ٹیوب ویل پر جسے اس وقت بمبی کہا جاتا تھا ۔ ایک سات سالہ بچہ نہا رہا تھا ۔ وہ اکیلا نہ تھا اس کا چھوٹا بھائی بمبی سے نکلتے ہوئے کھالے میں نہا رہا تھا وہ خود بمبی کے اند والے سیمنٹ والے حلقے میں نہا رہا تھا۔ پانی کافی گہرا تھا کوئی تین تین فٹ تو ہوگا۔ وہ بچہ بار بار پاکی کے نیچے ٹبی (ڈبکی) لگا آنکھیں کھول کھول کر کر یہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اتنا گہرا پانی ہے ۔ اس میں ڈڈو مچھیاں (مینڈک کا وہ دور جب وہ ایک چھوٹی سی پونگ کی صورت میں ہوتا ہے اسے بچے اپنی زبان میں ڈڈو مچھی کہتے تھے) کیوں نہیں ہیں ۔ ایک مرتبہ جب ٹبی مار کے باہر نکلے تو کیا دیکھا کہ ایک عدد مولانا صاحب عمر جن کی 29-30 سال تک ہوگی۔کھڑے ہوئے اپنا صافہ دھو رہے ہیں ۔ بچے نے ادب سے سلام کیا اور کہا:- السلام علیکم مولبی صاحب:- مولوی صاحب مسکرائے، داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور فرمانے لگے:۔ وعلیکم السلام بیٹا کیسے ہو! بچہ بولا:۔ جی مولبی صاحب الحمد للہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں۔ ایک سوال پوچھنا تھا اگر برا نہ مانیں تو پوچھ لوں ۔ مولبی صاحب خوش ہوئے اور فرمانے لگے:۔ ما شاء اللہ کس کے بیٹے ہو بڑے سلجھے ہوئے بچے ہو۔ پوچھو بیٹا۔ بچہ جی وہ مولبی صاحب ایک شعر کا مطلب پوچھنا تھا اگر بتا دیں تو مہربانی ہوگی ۔ مولبی صاحب بولے پوچھو پوچھہ بیٹا :--- بچےنے پوچھا جی مولبی صاحب ایہہ دسو ایہہ داڑھیاں نیں کہ جھاڑیاں نیں ، اسیں لا مواتے ساڑیاں نیں دا کیہہ مطلب ہے ؟ مولبی صاحب گنگ و ششدر رہ گئے جب ہوش آیا تو اس بچے کے والد کے متعلق پوچھا اور باقاعدہ شکایت پہنچائی جس کے بعد جو میرا حال ہوا اللہ ہی جانے۔ لیکن ابو تو مارتے بھی اور ہنستے بھی جاتے تھے۔
1987- ضیاء الحق کا ہی دور حکومت ہے۔ میں ساتویں میں پڑھتا تھا ۔ چوک یتیم خانہ ملتان روڈ پر بس سے اتر کر بازار کے اندر اندر سے ڈھولنوال سے گزر کر کوٹ محمدی کراس کر کے پھر گھر جانا ایک معمول تھا ۔ ایک دن بس سے اترے۔ بازار کراس کیا تو ایک گلی میں جو گھسے تو تین بڑی لڑکیاں (شاید کسی کالج کی تھیں یا نویں دسویں کی ) مجھے نظر آئیں ۔ اب ساتویں جماعت میں میری عمر دس برس کی تھی ۔ کہ پرائمری میں ایک ایک سال میں دو دو کلاسز ترقی ملنے سے پاس ہوگئی تھیں۔ بہرحال شکل عمومی ۔ رنگ سانولا( رعایت کے ساتھ ورنہ سیاہ کالا کہتے تھے مجھے میرے اعزاء) ۔ سکول کی یونیفارم پہنی ہوئی ۔ پتہ نہیں لڑکیوں کو کیا سوجھی کہنے لگیں واہ کیا حسن ہے ۔ دل چاہتا ہے منہ چوم لوں ۔ میرا رنگ فق، کالا پہلے ہی تھا اب لال بھی ہو گیا، سر پر تیل چپڑا ہوا، میری چال بدل گئی اور میری آنکھیں سامنے مگر ذہن پیچھے لگا ہوا تھا کہ کیا وہ تینوں اب بھی میرے پیچھے آ رہی ہیں۔ پھر ایک لکڑی کا ٹکڑا چھڑی نما شاید کسی درخت کی شاخ تھی میں نے راستے میں سے اٹھا لیا ۔ پیچھے سے آواز آئی واہ کیا اسٹائل ہے۔بچ کے رہنا کہیں پٹائی نہ ہو جائے آدمی بڑا ظالم لگتا ہے ۔ میں ہونق ، کچھ سمجھ نہ آئے کہ کیا کروں کیا نہ کروں ۔ پسینے پسینے پاس ہی ایک دوست کا گھر تھا۔ ٹانگتی کانپوں اس کے گھر پہنچا اور پانی وانی پی کر باہر گلی میں تسلی کی کہ وہ چلے گئے یا نہیں اور پھر باہر نکلا۔
ان دنوں اخبار پڑھنے کا شوق تھا ۔اور نت نئی سنسنی خیز کہانیاں پڑھنے کو ملتی تھیں ۔ جس آرٹیکل نے مجھ پر بہت اثر کیا مجھے اس کا نام (کاشی بائی یا چڑیل )اب بھی یاد ہے۔ تب تک کہانی، افسانے اور خبر میں فرق واضح نہ تھا اور ہم یہ سمجھا کرتے تھے کہ جو بھی اخبار میں چھپا ہوتا ہے ہمیشہ سچ ہوتا ہے ۔ اور میں یہ سمجھاتھا کہ کہیں یہ دو تین چڑیلیں اکٹھی ہو کر بچوں کو اٹھاتی نہ پھرتی ہوں۔اور اب میں ان کا نیا شکار ہوں۔
 
ہائے!!!
شاید وہ لڑکیاں ابھی بھی اس گلی میں ہوں!!!
آپ چکر لگا کر دیکھ لیں میں تو دنیا پھر آیا ہوں ان کے چکر میں ویسے بھی 1987 میں کم از کم پندرہ سولہ برس کی عمر اب پچاس تو ہوگی ، سوچ سمجھ کر چکر لگائیے گا
 
آخری تدوین:
1992 اسلامیہ کالج سول لائنز میں پڑھتا تھا ۔ ایک دن گورا قبرستان کے باہر والے لنڈے سے گزرتے ہوئے ایک حسینہ سے نظریں چار ہوئیں ۔ لفٹ سے بھرپور ریسپانس نے آنکھ مارنے پر مجبور کر دیا۔ اتنا کرنے کے بعد میں آگے نکل گیا۔ مینار پاکستان کی جانب ، چند قدم آگے جانے کے بعد احساس ہوا کوئی پیچھا کر رہا ہے ۔ پیچھے دیکھا تو وہ نازنیں ہلکا سا مسکاتے ہوئے میرے پیچھے پیچھے چلی آ رہی ہے ۔ کالج کا دور تھا سوچا چلو اچھا ہے تھوڑا بیٹھیں گے بوتل شوتل پئیں گے اور پھر گھر واپسی ۔ بہر حال وہ خاتون پیچھے پیچھے چلتی ہوئی مینار پاکستان کی گراؤنڈ میں آ ملیں ۔ ہیلو ہائے ہوئی ، نام پوچھا تو میرے منہ سے نکلا میرا نام نادر ہے (چھٹی حس نے اصل نام بتانے سے منع کردیا تھا) کہنے لگیں کہ اکیلے ہو یا ساتھ کوئی اور بھی ہے۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ کس بارے میں بات کر رہی ہیں ۔ جواب دیا اکیلا ہی ہوں ۔ کہنے لگیں جگہ تمہاری ہوگی یا میں بندوبست کروں۔ میری حالت اس بات کا مطلب سمجھ کر پتلی ہوگئی۔ بہرحال بہت کنٹرول کیا لیکن وہ خاتون سمجھ گئیں کہ بندہ ایک تو اناڑی ہے دوسرے ارادہ گناہ کا اس کا نہیں ہے لہذا کچھ شکوہ کیا کہ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا کہ آپ مجھے میرے کام کی جگہ سے یہاں تک لے آئے اور کرنا کرانا بھی کچھ نہیں (اخلاقاً شکوہ کہ رہا ہوں ورنہ اسے غضب سے بھرپور گالیوں کی برسات کہنا زیادہ مناسب ہوگا) ۔ اب ازالہ اس نقصان کا کیجئے جو آپ نے ہماری دکانداری کو پہنچایا ہے ۔ کالج کے زمانے میں مجھے پانچ روپے جیب خرچ ملتا تھا جس میں سے آنے جانے کا کرایہ اور لنچ بھی کرنا ہوتا تھا تو میں کیا ازالہ کرتا البتہ ان خاتون کے منہ سے جھڑنے والے پھولوں سے یہ احساس ہوا کہ کنگلا تو میں ہوں ہی اب مجھے اپنا میڈیکل چیک اپ بھی کرانا پڑے گا اور ذہنی علاج بھی کرانا پڑے گا۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ

1- اس دن کے بعد توبہ کر لی کہ خاتون کی مست نظروں کا اعتبار نہیں کرنا۔
2- جیب خالی ہو تو کسی کو پیچھے نہیں لگانا ۔
3- خدمت خلق پر مامور افراد کے ماتھے پر نہیں لکھا ہوتا کہ وہ عوامی خدمت گار ہیں ۔
4- نظریں جھکا کر رکھنا ہی بہترین حکمت عملی ہے ۔ اپنی نظر اور عزت دونوں محفوظ ۔
5- خالی جیب عشق کا بخار کم از کم گالیاں ضرور کھلا دیتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
4- نظریں جھکا کر رکھنا ہی بہترین حکمت عملی ہے ۔ اپنی نظر اور عزت دونوں محفوظ ۔
5- خالی جیب عشق کا بخار کم از کم گالیاں ضرور کھلا دیتا ہے۔
نظریں جھکا کر رکھنے ہی میں بھلائی ہے !بےشک اپنی نظر محفوظ تو سب محفوظ !
لگ پتہ گیا سارے عشق کا نشہ ہرن 😂
 
1987-چوبرجی سکول میں ساتویں جماعت کے طالب علم تھے ۔ ایک دن اسکول سے نکل کر جاتے ہوئے ایک عدد خاتون دروازے سے جھانکتی دیکھیں میں اسکول سے نکل کر بس اسٹاپ کی طرف جا رہا تھا۔خاتون نے آواز دی ۔ سوہنڑیا۔ گل تے سنڑ (پیارے بات تو سنو)

اب میں عمر دس سال کے قریب اور میرے حلیئے و رنگت کا ذکر خیر اوپر ایک اور پوسٹ میں ہو چکا ہے۔ ایک خاتون مجھے پیار سے سوہنے کہہ کر پکار رہی ہیں میں ابھی کچھ دن پہلے ہی کاشی بائی چڑیل کے قصے نوائے وقت میں پڑھ چکا تھا۔میں ڈر گیا۔ اور اتنا ڈر گیا کہ سیدھا مبہوت چہرے اورسن ہوئی کھوپڑی کے ساتھ خاتون کے سامنے حاضر ہو گیا۔ جی باجی؟

باجی بولی ۔۔ ایہہ پھڑ دس روپئیے تے جا اوہ فلانی جگہ تے سبزی دی دکان تے جا اوتھوں فلانی فلانی سبزی لے کے آجا تے بستہ ایتھے چھڈ جا۔ واپسی تے بستہ لے جاویں جا نس کے جا میرا سوہنڑا۔
جی باجی ہنے گیا تے ہنے آیا

پیسے پکڑے تین روپے کی سبزی آئی۔ باقی پیسے سنبھال سنبھال کر واپس لا کر دیئے ۔ انعاماً ایک روپیہ حاصل کیا اور پھر دل سے خوف دور ہوا ۔ اس کے بعد دسویں تک اس گھر آنا جانا رہا۔ ان کی بیٹی زہرہ تھی جو ایک دو سال کی ہوگی۔ پھر دسویں کے بعد کالج شروع ہو گیا تو وہاں سے اس طرف جانا نہیں ہوا۔ اللہ جانے کہاں ہونگے اور کیسے ہونگے ۔ زہرہ کیسی ہوگی اور کیا کبھی یاد آتا ہوگا کہ نہیں وہ فیصل جو زہرہ کو گھنٹوں کھلایا کرتا تھا اور خود بخود اسکول سے واپسی پر ایک چکر اس گھر کا لگاتا تھا۔ و اللہ اعلم بالصواب
 

شمشاد

لائبریرین
1987-چوبرجی سکول میں ساتویں جماعت کے طالب علم تھے ۔ ایک دن اسکول سے نکل کر جاتے ہوئے ایک عدد خاتون دروازے سے جھانکتی دیکھیں میں اسکول سے نکل کر بس اسٹاپ کی طرف جا رہا تھا۔خاتون نے آواز دی ۔ سوہنڑیا۔ گل تے سنڑ (پیارے بات تو سنو)

اب میں عمر دس سال کے قریب اور میرے حلیئے و رنگت کا ذکر خیر اوپر ایک اور پوسٹ میں ہو چکا ہے۔ ایک خاتون مجھے پیار سے سوہنے کہہ کر پکار رہی ہیں میں ابھی کچھ دن پہلے ہی کاشی بائی چڑیل کے قصے نوائے وقت میں پڑھ چکا تھا۔میں ڈر گیا۔ اور اتنا ڈر گیا کہ سیدھا مبہوت چہرے اورسن ہوئی کھوپڑی کے ساتھ خاتون کے سامنے حاضر ہو گیا۔ جی باجی؟

باجی بولی ۔۔ ایہہ پھڑ دس روپئیے تے جا اوہ فلانی جگہ تے سبزی دی دکان تے جا اوتھوں فلانی فلانی سبزی لے کے آجا تے بستہ ایتھے چھڈ جا۔ واپسی تے بستہ لے جاویں جا نس کے جا میرا سوہنڑا۔
جی باجی ہنے گیا تے ہنے آیا

پیسے پکڑے تین روپے کی سبزی آئی۔ باقی پیسے سنبھال سنبھال کر واپس لا کر دیئے ۔ انعاماً ایک روپیہ حاصل کیا اور پھر دل سے خوف دور ہوا ۔ اس کے بعد دسویں تک اس گھر آنا جانا رہا۔ ان کی بیٹی زہرہ تھی جو ایک دو سال کی ہوگی۔ پھر دسویں کے بعد کالج شروع ہو گیا تو وہاں سے اس طرف جانا نہیں ہوا۔ اللہ جانے کہاں ہونگے اور کیسے ہونگے ۔ زہرہ کیسی ہوگی اور کیا کبھی یاد آتا ہوگا کہ نہیں وہ فیصل جو زہرہ کو گھنٹوں کھلایا کرتا تھا اور خود بخود اسکول سے واپسی پر ایک چکر اس گھر کا لگاتا تھا۔ و اللہ اعلم بالصواب
اس ساری کہانی میں چھیڑنا کہاں ہے؟
 
Top