کہنے کو تو سب دنیا سے لڑ کے تم کو پایا تها - برائے اصلاح

کہنے کو تو سب دنیا سے لڑ کے تم کو پایا تها
تب بهی ہم انجان تهے جانے کیا کیا کچھ گنوایا تها

منزل کو چن لینا تو آسان تها مشکل کام نہیں
یہ پوچھو کس عزم نے ہم سے کیا رستہ بنوایا تها

صورت تو رنگوں سے اپنی روز سجایا کرتی تهی
نہ چھپ پایا تو بس دل کا داغ ہی چھپ نہ پایا تها
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں ’گنوانا‘ کا تلفظ غلط باندھا گیا ہے۔ یہ محض ’گوانا‘ وزن میں آنا چاہئے، یہاں ’گن وانا‘ آ رہا ہے۔
تب بھی ہم انجان تھے کتنے، جانے کیا کیا گنوایا تھا
درست ہو جاتا ہے۔
دوسرا شعر درست
تیسرے میں وہ غلطی ہے جس کی نشان دہی اکثر کرتا رہتا ہوں، جو اگرچہ کچھ لوگ جائز سمجھتے ہیں، میں نہیں۔ یعنی ’نہ‘ اور ’کہ‘ کو ’نا“ اور ’کے‘ باندھنا۔
پہلے مصرع کا فاعل کون ہے؟ میرے خیال میں وہاں بھی ’میں‘ کا اضافہ ہو تو اچھا ہے
صورت تو رنگوں سے اپنی روز سجا لیتی تهی میں
دل کا داغ ہی ڈھیٹ تھا ایسا، کب مجھ سے چھپ پایا تها
کیسا رہے گا؟
 
جی بہت شکریہ.
"تب بهی ہم انجان تهے جانے کیا کیا ہم نے گوایا تها"
ایسے کیسا رہے گا؟

آخری شعر میں یہی مقصود ہے کہ فاعل واضح نہ ہو. ایسا میں کیوں کرنا چاہتی ہوں کچھ نہیں جانتی مجهے لگا اس سے abstraction کا عنصر زندہ رہے گا.
کوئی طریقہ اور ہے اس کو بہتر بنانے کا؟ نہیں ہے تو جو اصلاح کی گئی ہے وہ تو ہے بہترین.
 

الف عین

لائبریرین
یہ بھئ درست ہے
تب بهی ہم انجان تهے جانے کیا کیا ہم نے گنوایا تھا
گر اس شعر میں شعوری طور سے فاعل کو مبہم رکھنا مقصود ہو تو
صورت تو رنگوں سے اپنی روز سجایا کرتی تهی
دل کا داغ ہی ڈھیٹ تھا ایسا، کسی سے کب چھپ پایا تها، اگرچہ اس میں بھی تنافر کا نقص ہے، ’چھپ پا‘
(اگر دل کا داغ کا ڈھیٹ رہنا پسند ہو تو)
ورنہ
دل کا داغ ہی ایسا تھا جو چھپ نہ کبھی بھی پایا تھا
 
یہ بھئ درست ہے
تب بهی ہم انجان تهے جانے کیا کیا ہم نے گنوایا تھا
گر اس شعر میں شعوری طور سے فاعل کو مبہم رکھنا مقصود ہو تو
صورت تو رنگوں سے اپنی روز سجایا کرتی تهی
دل کا داغ ہی ڈھیٹ تھا ایسا، کسی سے کب چھپ پایا تها، اگرچہ اس میں بھی تنافر کا نقص ہے، ’چھپ پا‘
(اگر دل کا داغ کا ڈھیٹ رہنا پسند ہو تو)
ورنہ
دل کا داغ ہی ایسا تھا جو چھپ نہ کبھی بھی پایا تھا

ویسے استاد جی دل کا داغ ڈھیٹ ہونا مجھے کافی اچھا محسوس ہوا۔ (ذاتی رائے)
باقی عیب تنافر نہیں اس میں۔ تنافر کے لئے دونوں حروف کا متحرک ہونا شرط ہے۔ یہاں ادغام ہے جو عیب نہیں۔ اور عام مستعمل ہے جیسے:
غم میں، دل لگی، اب بھی وغیرہ۔ بلکہ اس طرح تو مشدد الفاظ بھی تنافر ہونگے جیسے:
محب بت، شد دت، مچ چھر، چپ پل، وغیرہ۔
ہاں دونوں متحرک ہوں تو تنافر ہوگا جیسے:
چھاپ پر، آج جو، آپ پر۔ وغیرہ۔

تو یہی مصرع اچھا ہے ہے میرے خیال میں:
دل کا داغ ہی ڈھیٹ تھا ایسا، کسی سے کب چھپ پایا تها،
 

حمید

محفلین
دل لگی---پہلا ل ساکن دوسرا متحرک
چھاپ پر--پہلا پ ساکن دوسرا متحرک
دونوں پر تنافر کا مختلف قاعدہ کیوں ہے وضاحت فرما دیجیے گا-
 
دل لگی---پہلا ل ساکن دوسرا متحرک
چھاپ پر--پہلا پ ساکن دوسرا متحرک
دونوں پر تنافر کا مختلف قاعدہ کیوں ہے وضاحت فرما دیجیے گا-

ساکن کے بعد دوسرا ساکن نہیں ہوتا بڑے بھائی۔ عروضی قاعدہ ہے کہ ساکن کو ساکن تب مانتے ہیں جب اس سے پہلے متحرک ہو۔ اگر ساکن کے بعد ساکن آئے تو متحرک کہلاتا ہے۔ :)
 
Top