کہتے ہیں جس کو عشق ( اویس قرنی عرف چھوٹا غالب)

ناصر رانا

محفلین
یکے از معلقات جوگی کا مطلب
سادہ ترجمہ تو یہ بنتا ہے کہ جوگی کے لٹکائے ہوئے قصیدوں میں سے ایک۔
لیکن ویسے معلقات ان سات قصیدوں کو کہتے ہیں جو خانہ کعبہ میں لٹکائے جاتے تھے۔ زمانہ جاہلیت سے رواج تھا کہ اہم دستاویزات اور اعلانات کو خانہ کعبہ میں لٹکایا جاتا تھا۔ تو یہاں جوگی کے یہ نادر افکار گویا اس لیول کے ہیں کہ انہیں معلقات کہا جائے۔
جبکہ تحریر کو دیکھیں تو بالکل بے سروپا ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
میں نے تو امبر بیل کے کے بارے میں یہ سنا تھا۔۔

عشقہ نہی عشق پیچاں(مارننگ گلوری کی ایک نسل) ہے اس کا نام اور یہ درخت کو نہیں خشک کرتی بلکہ جو بیل درختوں اور پودوں کو خشک کرتی ہے وہ امربیل (Doddar plant) ہے۔

عربی میں یہ لفظ ”عشقہ“ سے لیا گیا ہے ”عشقہ“ اس بیل کو کہتے ہیں ۔ فارسی میں جس کا نام ”پیچک“ ہے " ہند و پاک میں اسے آکاس بیل بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ بیل جسے عربی میں عشقہ کہتے ہیں ۔ اسکی اپنی جڑ نہیں ہوتی، یہ زرد رنگ کی بیل سی ہوتی ہے جو درخت کے اوپر پھیل جاتی ہےاسکی جڑ زمین میں نہیں ہوتی۔ اسکو جتنی غذا چاہیے وہ ساری اس درخت سے لیتی ہے۔ درخت جڑوں سے جو کچھ چوستا ہے وہ بیل اس سے چوس لیتی ہے لہٰذا درخت نحیف و خشک ہوجاتا ہے، اسکو عرب عشقہ کہتے ہیں۔
بہت دعائیں
 

نایاب

لائبریرین
محترم بھائی اگر ممکن ہو تو اس غلط مبحث بارے کچھ معلومات دے دیں ۔
لیکن اس میں بھی معلقات کے بجائے نامعقولات لکھا جاتا تو حق ادا ہوجاتا۔

جبکہ تحریر کو دیکھیں تو بالکل بے سروپا ہے۔
محترم بھائی
اگر معلقات کو " نامعقولات " میں بدلنے اور تحریر بارے " بے سروپا " ہونے کی کچھ دلیل دے دیں ۔
تو شاید مجھ ایسے اس تحریر کے سحر میں مبتلا ہونے سے بچ پائیں ۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 

ناصر رانا

محفلین
عربی میں یہ لفظ ”عشقہ“ سے لیا گیا ہے ”عشقہ“ اس بیل کو کہتے ہیں ۔ فارسی میں جس کا نام ”پیچک“ ہے " ہند و پاک میں اسے آکاس بیل بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ بیل جسے عربی میں عشقہ کہتے ہیں ۔ اسکی اپنی جڑ نہیں ہوتی، یہ زرد رنگ کی بیل سی ہوتی ہے جو درخت کے اوپر پھیل جاتی ہےاسکی جڑ زمین میں نہیں ہوتی۔ اسکو جتنی غذا چاہیے وہ ساری اس درخت سے لیتی ہے۔ درخت جڑوں سے جو کچھ چوستا ہے وہ بیل اس سے چوس لیتی ہے لہٰذا درخت نحیف و خشک ہوجاتا ہے، اسکو عرب عشقہ کہتے ہیں۔
بہت دعائیں
جی اسی کو امر بیل کہتے ہیں اور انگریزی میں doddar۔
باوجود تلاش بسیار کے کہیں سے بھی اس بیل کا عربی نام عشقہ ہونے کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ کوئی سورس بتادیں تو نوازش ہوگی۔
 

ناصر رانا

محفلین
محترم بھائی
اگر معلقات کو " نامعقولات " میں بدلنے اور تحریر بارے " بے سروپا " ہونے کی کچھ دلیل دے دیں ۔
تو شاید مجھ ایسے اس تحریر کے سحر میں مبتلا ہونے سے بچ پائیں ۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
بھائی جان سحر تو مجھ پر بھی ہوا تھا اس تحریر کا، بلکہ جوں جوں پڑھتا گیا ہیجان سا محسوس ہوتا گیا کہ آج کوئی گر کی بات پڑھنے کو ملے گی۔ لیکن پوری تحریر کو قلابازیوں سے مزین پایا، جیسے کوئی مداری ایک ہی جملہ بار بار گھما پھرا کر بول رہا ہو اور معتبر بنانے کیلئے ادھر ادھر سے حوالے۔
آخر میں مودت کے معنی بھی غلط بتائے اور اسے سمجھانے کیلئے مچھلی اور پانی والی مثال بھی تیکنیکی اعتبار سے غلط فٹ کی گئی جس کی وجہ سے تحریر پڑھنے میں جتنا وقت لگا سب اکارت ہی جاتا لگا۔
آخری لائن سے پتا چلا کہ اوہو یہ تو کسی جوگی صاحب کے معلقات ہیں۔ دل تو چاہا کہ اسی قافیہ کے دوسرے لفظ سے نوازا جائے لیکن اتنی بھی بری تحریر نہیں تھی اسلئے نامعقولات پر اکتفا کیا۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
بھائی جان سحر تو مجھ پر بھی ہوا تھا اس تحریر کا، بلکہ جوں جوں پڑھتا گیا ہیجان سا محسوس ہوتا گیا کہ آج کوئی گر کی بات پڑھنے کو ملے گی۔ لیکن پوری تحریر کو قلابازیوں سے مزین پایا، جیسے کوئی مداری ایک ہی جملہ بار بار گھما پھرا کر بول رہا ہو اور معتبر بنانے کیلئے ادھر ادھر سے حوالے۔
آخر میں مودت کے معنی بھی غلط بتائے اور اسے سمجھانے کیلئے مچھلی اور پانی والی مثال بھی تیکنیکی اعتبار سے غلط فٹ کی گئی جس کی وجہ سے تحریر پڑھنے میں جتنا وقت لگا سب اکارت ہی جاتا لگا۔
آخری لائن سے پتا چلا کہ اوہو یہ تو کسی جوگی صاحب کے معلقات ہیں۔ دل تو چاہا کہ اسی قافیہ کے دوسرے لفظ سے نوازا جائے لیکن اتنی بھی بری تحریر نہیں تھی اسلئے نامعقولات پر اکتفا کیا۔
متفق
اس موضوع پر اس سے برا مضمون کبھی نہیں پڑھا ۔
 

یوسف سلطان

محفلین
نہ جانے مجھے یہ مضمون پڑھ کر ایسا کیوں لگا جیسے لفظ "عشق " کا حق ادا نہیں ہو رہا ، یا پھر میری سمجھ سے بالا تر ہے یہ مضمون ۔(میری سمجھ سے بالا تر ہی ہو گا ) اور یہ سپائیڈر مین اور سپر مین کا دخل بھی عجیب سا لگا ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کے اس مضمون کو لکھنے میں بہت محنت کی راقم (اویس بھائی) نے ، جس کیلئے ڈھیروں داد ۔ الله کرے زورِ قلم اور زیادہ ۔
شکریہ غدیر زہرا بہنا کا شراکت کیلئے ۔
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
جی اسی کو امر بیل کہتے ہیں اور انگریزی میں doddar۔
میرے محترم بھائی
21mrihf_th.jpg

یہ عشقہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جسے (dodder) بھی کہتے ہیں ۔ یہ کسی بھی شجر پر بنا کسی جڑ کے صرف ہوا کے بل پر اپنا قبضہ یوں جما لیتی ہے کہ شجر کو اس کی خبر جب ہوتی ہے جب وہ بالکل سوکھ جاتا ہے ۔
w6wk5w.jpg

یہ امر بیل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جسے (air creeper) بھی کہتے ہیں
اور جسے " افتیموں " کے نام سے طب میں استعمال کیا جاتا ہے ۔
باقی رب جانے
یہ دھاگہ بھی دیکھئے ۔۔۔
بہت دعائیں
 

نایاب

لائبریرین
سے سمجھانے کیلئے مچھلی اور پانی والی مثال بھی تیکنیکی اعتبار سے غلط فٹ کی گئی
ہہہہہہہہہہہہہہہہ
میرے محترم بھائی
آپ نے بہت خوب استعمال کیا اس مثال کو
آپ نے دلیل بنایا اس اعتراض کو جس پر اعتراض کرنا " نادانی " ہو گی
اب بحث کی کوئی گنجائیش نہیں ۔
بہت دعائیں
 

نور وجدان

لائبریرین
عشق اور مادیت ۔ عشق کبھی بھی مادیت کا محتاج نہیں ہے یا جنسی جذبے کی شائستہ شرارت عشق کہلاتے اس کو حقیقت سے موسوم کرنا سراسرا غلط ہے ۔ جن مغربی مفکرین کے حوالے دیے گئے ہیں وہ حقیقت کے ساتھ عشق کو اسی شائستہ شرارت کا نام دیتے تھے ۔ اس کی مثال جان ڈن کی ڈیوائن پوئٹری پڑھ لیں ۔
 

ناصر رانا

محفلین
اب بحث کی کوئی گنجائیش نہیں ۔
کہنے کو تو بہت کچھ ہے لیکن آپ نے بات ہی ختم کردی۔ ویسے بھی میرا مقصود تنقید یا دل آزاری نہ تھا۔
ٹھیک ہے نایاب بھائی جو حکم آپ کا۔
آپ حکم کیجئے تو اب تک کے مراسلوں کی بھی تدوین کر دوں۔

لیکن اس تحریر کیلئے آپ اتنے رطب اللسان کیوں ہورہے ہیں یہ ضرور جاننا چاہوں گا۔ اور اس تحریر کو دوبارہ سہ بارہ پڑھ کر ضرور دیکھوں گا۔ کچھ آپ بھی رہنمائی فرمادیں تو عین نوازش ہوگی۔
 

طالب سحر

محفلین
محترم بھائی اگر ممکن ہو تو اس غلط مبحث بارے کچھ معلومات دے دیں ۔

ناصر رانا نے اس بارے میں تفصیل سے لکھ دیا ہے- آپ کے کہنے پر یہ عرض کروں گا کہ کسی تحریر کو سمجھنے کے کئی طریقے، اور پسند ناپسند کرنے کے کئی میعار ہو سکتے ہیں- میں نے خلط مبحث کا لفظ اس لئے استعمال کیا ہے کیونکے مجھے یہ تحریر مربوط نہیں لگی- بلکہ یہ لگا کہ مصنف نے عشق کے موضوع پر مختلف آراء کو ایک ایسی "منطقی" ترتیب سے جمع کیا ہے جس سے یہ باتیں ایران توران کی ہانکنے جیسی ہو گئی ہیں- آپ مجھ سے کہیں زیادہ پڑھے لکھے آدمی ہیں، لیکن آپ کو مندرجہ ذیل پیراگراف میں کیا ربط نظر آتا ہے؟

عشق کی دوسری اور سب سے بہترین تعریف علامہ فارابی نے بیان کی۔ فارابی فرماتے ہیں:۔
خدا خود عشق ہے۔ تخلیق و تکوین کا اصل سبب بھی عشق ہے۔
اس پورے فلسفے کو غالب نے ایک شعر میں سمو کر اپنی فنکارانہ جادوگری کا کمال دکھایا ہے.
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشتِ امکاں کو نقشِ پا پایا

مجھے اپنی کم علمی بلکہ جہالت کا اعتراف ھے، لیکن کیا یہاں غالب اور فارابی ایک ہی بات کر رھے ہیں؟ مذکورہ تحریر سے ایسی بہت سارے مثالیں دی جا سکتی ہیں- کیا اب متصوفانہ تحریر کا مطلب یہ ہے کہ یہ غیر مربوط اور random ہو گی اور اس کے اندر کسی بھی قسم کی logical consistency نہیں ہو گی؟ اگر آپ کو برا نہ لگے، تو فاضل مصنف کے اس جملے پر بھی غور کیجئے گا:

جس کے منہ میں جو آیا اس نے اگل دیا. اور پھر اسے اعلیٰ قسم کے اسرارو رموزِ عشق منوانے پر اصرار کیا.
 

نایاب

لائبریرین
اس تحریر کیلئے آپ اتنے رطب اللسان کیوں ہورہے ہیں یہ ضرور جاننا چاہوں گا

فاضل مصنف کے اس جملے پر بھی غور کیجئے گا:

میرے محترم دوستو
مجھے صرف علم سیکھنے کی خواہش نے مجبور کیا تھا کہ آپ کے تبصروں کو مرکز بناتے آپ سے رہنمائی حاصل کروں ۔
اور مجھے اس تحریر پر آنے والی تعریف و تنقید سے کوئی غرض نہ تھی ۔
مجھے تو یہ " پیراگراف " اس تحریر کی بنیاد تھیم اور عرق محسوس ہوا ۔۔
یہ شاید میری کم علمی ہے ۔۔۔۔۔

بدقسمتی سے ہمارے یہاں صرف نیم ملا اور نیم حکیم ہی نہیں نیم دانشور اور نیم عاشق و نیم صوفی بھی بکثرت پائے جاتے ہیں. جو ان درجات, ان کی ماہیت , ان کے اثرات اور کیفیات سے قطع نظر بس عشق عشق کا ورد کیے جاتے ہیں.
کسی پر مائل ہونے کو بھی عشق کہتے ہیں. رجحان ہو یا پیار ہو... اسے عشق ہی کہا جاتا ہے.
یہ جہالت کیا کم تھی , کہ سستے قسم کے ناولوں اور پھر جدید زمانے میں ڈراموں اور فلموں کے لکھاریوں کے طفیل بچہ بچہ اپنے تئیں عشقیات پر اتھارٹی سمجھتا ہے. غالب کے شعر...
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
نالہ پابند ِ نے نہیں ہے
کی طرح جس کے منہ میں جو آیا اس نے اگل دیا. اور پھر اسے اعلیٰ قسم کے اسرارو رموزِ عشق منوانے پر اصرار کیا.
بہت دعائیں
 

غدیر زھرا

لائبریرین
متفق
اس موضوع پر اس سے برا مضمون کبھی نہیں پڑھا ۔
. یہ پوری دنیا کا تاریخ سے اب تک تجزیہ کیا گیا ہے۔ اور یہ تحریر ماہرینِ نفسیات و فلسفہ ہی پڑھ کر بہتر رائے دے سکتے ہیں۔ ۔
معاف کیجیے گا آپ عشق کو اسباب کا محتاج بنا رہے ہیں حالانکہ عشق اسباب سے ماورا ہوتا ہے ۔
اور ضرورت اور اسباب ہی عشق کے درجے معین کرنے لگے تو عشق کسی چھوت کی بیماری کا درجہ لے لے گا ۔
ایک خوبصورت اور روحانی جذبہ ایسی مثالوں سے بہت چھوٹا اور عامیانہ لگا ۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

غدیر زھرا

لائبریرین
پوری تحریر کا نچوڑ گویا اس جملے میں پنہاں ہے۔
لیکن اس میں بھی معلقات کے بجائے نامعقولات لکھا جاتا تو حق ادا ہوجاتا۔
آپ نے کسی کے کہنے پر تبصرہ تو کردیا۔ لیکن آپ جوشِ تنقید میں یہ بھول گئے کہ آپ صرف جوگی سے نہیں بلکہ افلاطون , فلاطینوس امام غزالی علامہ فارابی اور برٹرنڈرسل وغیرہ سے بھی اختلاف فرما گئے۔۔۔ اور اس سے ہم نے نہ صرف "مدعا پایا" بلکہ غالب کے شعر اور علامہ فارابی پہ آپ کی سمججھ کو جو پٹخنیاں آئی ان سے مجھے شیر کی کھال میں گدھے والی کہانی یاد آ گئی۔ جس پر آپ نے غالب کا بے ربط شعر لکھنے اور نامعقولات کا سٹکر چپکایا ہے اسے چھوٹا غالب بھی کہا جاتا ہے۔ لہذا چھوٹے غالب پہ اعتراض سے پہلے تکوین کا فلسفہ اور تمنا کے دوسرے قدم میں سے عشق ڈھونڈیے۔۔۔ سلامتی ہو
 
Top