کہاں کے تھے، کہاں رکھا ہوا ہے - شوکت فہمی

عؔلی خان

محفلین
کہاں کے تھے، کہاں رکھّا ہوا ہے
مگر خوش ہیں جہاں رکھّا ہوا ہے

یقیں پہ اک گماں رکھّا ہوا ہے
زمیں پہ آسماں رکھّا ہوا ہے

تری یہ جنگ تو ابلیس سے تھی
مجھے کیوں درمیاں رکھّا ہوا ہے

کبھی جن میں شرارے ناچتے تھے
ان آنکھوں میں دھواں رکھّا ہوا ہے

بڑھاپا ایک جیسا خوف جس نے
مجھے اب تک جواں رکھّا ہوا ہے

بہ یادِ رفتگاں ان مٹھیوں میں
غبارِ کارواں رکھّا ہوا ہے

بتائیں کیا ٹھٹھرتے موسموں میں
لہو کیسے رواں رکھّا ہوا ہے

اسے مت کاٹنا تم اس شجر پر
ہمارا آشیاں رکھّا ہوا ہے

مجھے واپس وہیں جانا ہے فہمؔی
مرا سب کچھ جہاں رکھّا ہوا ہے

شاعر: شوکت فہمؔی





 
آخری تدوین:
Top