فیض کہاں جاؤ گے

اور کچھ دیر میں لُٹ جائے گا ہر بام پہ چاند
عکس کھو جائیں گے آئینے ترس جائیں گے
عرش کے دیدۂ نمناک سے باری باری
سب ستارے سرِ خاشاک برس جائیں گے
آس کے مارے تھکے ہارے شبستانوں میں
اپنی تنہائی سمیٹے گا ، بچھائے گا کوئی
بے وفائی کی گھڑی ، ترکِ مدارات کا وقت
اس گھڑی اپنے سوا یاد نہ آئے گا کوئی!
ترکِ دنیا کا سماں ، ختمِ ملاقات کا وقت
اِس گھڑی اے دلِ آوارہ کہاں جاؤ گے
اِس گھڑی کوئی کسی کا بھی نہیں ، رہنے دو
کوئی اس وقت ملے گا ہی نہیں رہنے دو
اور ملے گا بھی تو اس طور کہ پچھتاؤ گے
اس گھڑی اے دلِ آوارہ کہاں جاؤ گے

اور کچھ دیر ٹھہر جاؤ کہ پھر نشترِ صبح
زخم کی طرح ہر اک آنکھ کو بیدار کرے
اور ہر کشتۂ واماندگیِ آخرِ شب
بھول کر ساعتِ درماندگی آخرِ شب
جان پہچان ملاقات پہ اصرار کرے

دسمبر 1961
 

سید زبیر

محفلین
فیض کا اتنا خوبصورت کلام شریک محفل کرنے کا شکریہ
ترکِ دنیا کا سماں ، ختمِ ملاقات کا وقت​
اِس گھڑی اے دلِ آوارہ کہاں جاؤ گے​
لاجواب​
 
Top