کھچڑی بنانے کی ترکیب چاہئے

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
کھچڑی پر بات چل نکلی ہے، تو ایک اور بات عرض کر دیں۔مدینۃ الاولیاء احمدآباد، (گجرات، انڈیا) تاریخ کے صفحات پر
گرداباد کے نام سے بھی معروف ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ یہاں ہر موسم میں گردوغبار کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ دن
میں دو تین بار غسل کرنے والے بھی غسل کے ایک دو گھنٹے کے بعد اگر اپنے جسم پر زور سے ہاتھ رگڑ دیں تو میل
کی سیاہ سی بتی ہاتھ میں آجاتی ہے۔
تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ اس شہر کے وجود میں آنےسے قبل ہندوستان کے صوبہ گجرات کا دارالخلافہ انہل واڑ
پاٹن تھا، جو تاریخ کی عربی فارسی کتابوں میں نہروالا کے نام سےمشہور ہے۔مشہور محدث،مؤلف مجمع البحار الانوار
محمد بن طاہر پٹنی (فتنی) رحمۃاللہ علیہ بھی اسی شہر کے باشندے تھے۔
بادشاہ احمدشاہ ایک بار شکار کھیلتے ہوئے (موجودہ شہراحمدآباد جہاں واقع ہے)سابرمتی ندی کے کنارے پہنچ گیا،
ایک جگہ اس نے بڑی عجیب و غریب بات کا مشاہدہ کیا،
وہ یہ کہ اس کے ایک شکاری کتے پر ایک خرگوش نے حملہ کر دیا۔ بادشاہ کو نہ صرف یہ کہ بڑی حیرت ہوئی بلکہ اس واقعہ
نے بادشاہ کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ جس سرزمین کی آب وہوا میں یہ تاثیر ہو کہ خرگوش ساایک بزدِل ترین حیوان
بھی کتے پر حملہ کرنے کاحوصلہ رکھتا ہے، اگر یہاں شہر آباد کیا جائے تو یہاں آباد ہونے والی مخلوق کا کیا عالم ہوگا؟بس اس
خیال کے آتے ہی، بادشاہ نے اس دورکےمشہور بزرگانِ دین سے مشورہ کیا اور احمد نامی چار مشہور اولیاء کرام کےدستِ مبارک
سے اس شہر احمدآباد کی بنیاد ڈالی۔اسی لیے گجراتی زبان میں مثل مشہور ہے، جب سسے (سس +سے) پر کتا آیا، احمد شاہ
نے شہر بسایا۔
شہر احمدآبادکے ان چار بانیوں میں مغربی سلسلہ کے مشہور بزرگ حضرت شیخ احمد گنج بخش کھٹو (مغربی)رحمۃ اللہ علیہ سر فہرست ہیں۔
حضرت شیخ احمد گنج بخش کھٹو (مغربی)رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ شہر احمدآبادسے دس کلو میٹر کے فاصلے پر تھی۔(موجود تو آج بھی ہے
لیکن اب شہر کی حدود میں ضم ہو چکی ہے۔) آج بھی وہاں حضرت کے
روضہ اقدس کے علاوہ مشہور بادشاہ محمود بیگڑہ کا مزار اور وسیع و عریض شاہی مسجد اور اس سے ملحقہ ایک تالاب اور باغ ہے۔
آج سے تقریبا ساڑھے چار سو سال قبل جب حضرت شیخ احمد گنج بخش کھٹو (مغربی)رحمۃ اللہ علیہ حیات تھے، بادشاہ احمد شاہ اپنے
محل سے پیدل چل کر ہر جمعرات کو حضرت شیخ احمد گنج بخش کھٹو (مغربی)رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں حاضر ی دیا کرتا تھا۔اورصبح
سےشام تک آپ کے حجرے کے باہر با ادب کھڑا رہتا جب تک خود حضرت شیخ احمد کھٹو رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے طلبی نہ ہوتی
بادشاہ آپ کی خدمت میں حاضر نہ ہوتا۔ یہسلسلہ سالہا سال تک جاری رہا، روایت ہے کہ ایک روز حضرت شیخ احمد گنج بخش کھٹو
(مغربی)رحمۃ اللہ علیہ احمد شاہ بادشاہ کی سالہا سال کی باریابی سے خوش ہو کر فرمایا،’’ احمد شاہ جو کچھ چاہتے ہو طلب کرو۔ بادشاہ
عرض کیا، ’’ حضور دُعا فرمائیے کہ شہر احمدآباد کے باسیوں کو تا قِیامت کڑھی کھچڑی ملتی رہے۔حضرت نے دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھا
دِیے۔ اس بات کی تو تاریخ شاہد ہے کہ آپ مستجاب الدعوات تھے۔ بارگاہِ الہی میں دُعا قبول ہوئی ۔ اور کڑھی کھچڑی احمدآبادیوں
کی مرغوب غذا بن گئی۔ اور ہر خوشی اور غمی کے موقع پر احمدآبادیوں کے یہاں کڑھی کھچڑی لازمی ہوگئی۔ جو احمدآباد کے قدیمی
باشندوں کے گھروں میں بلا تفریق امیر غریب آج بھی روزانہ کڑھی کھچڑی بنتی ہے۔فرق محض اس قدر ہے کہ غریب کی کڑھی
کھچڑی بغیر لوازمات کی ہوتی ہے اور امیر کی کڑھی کھچڑی مع لوازماتِ کثیرہ کے ہوتی ہے۔مثل مشہور ہے:’’روپے کی کھچڑی اور
بارہ روپے کا سنگار‘‘کھچڑی کے لوازمات متعدد ہیں، مثلا: پاپڑ، اچار، مربہ، چٹنی، سلاد، وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
کھچڑی پر بات چل نکلی ہے، تو ایک اور بات عرض کر دیں۔مدینۃ الاولیاء احمدآباد، (گجرات، انڈیا) تاریخ کے صفحات پر
گرداباد کے نام سے بھی معروف ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہیہاں ہر موسم میں گردوغبار کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ دن
میں دو تین بار غسل کرنے والے بھی غسل کے ایک دو گھنٹے کے بعد اگر اپنے جسم پر زور سے ہاتھ رگڑ دیں تو میل
کی سیاہ سی بتی ہاتھ میں آجاتی ہے۔
تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ اس شہر کے وجود میں آنےسے قبل ہندوستان کے صوبہ گجرات کا دارالخلافہ انہل واڑ
پاٹن تھا، جو تاریخ کی عربی فارسی کتابوں میں نہروالا کے نام سےمشہور ہے۔مشہور محدث،مؤلف مجمع البحار الانوار م
محمد بن طاہر پٹنی (فتنی) رحمۃاللہ علیہ بھی اسی شہر کے باشندے تھے۔
بادشاہ احمدشاہ ایک بار شکار کھیلتے ہوئے (موجودہ شہراحمدآباد جہاں واقع ہے)سابرمتی ندی کے کنارے پہنچ گیا،
ایک جگہ انہوں نے بڑی عجیب و غریب بات کا مشاہدہ کیا،
وہ یہ کہ ان کے ایک شکاری کتے پر ایک خرگوش نے حملہ کر دیا۔ بادشاہکو نہ صرف یہ کہ بڑی حیرت ہوئی بلکہ اس واقعہ
نے بادشاہ کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ جس سرزمین کی آب وہوا میں یہ تاثیر ہو کہ خرگوش ساایک بزدِل ترین حیوان
بھی کتے پر حملہ کرنے کاحوصلہ رکھتا ہے، اگر یہاں شہر آباد کیا جائے تو یہاں آباد ہونے والیمخلوق کا کیا عالم ہوگا؟بس اس
خیال کے آتے ہی، بادشاہ نے اس دورمشہور بزرگان دین سے مشورہ کیا اور احمد نامی چار مشہور اولیاء کرام کےدستِ مبارک
سے اس شہر احمدآباد کی بنیاد ڈالی۔اسی لیے گجراتی زبان میں مثل مشہور ہے، جب سسے (سس +سے) پر کتا آیا، احمد شاہ
نے شہر بسایا۔
شہر احمدآبادکے ان چار بانیوں میں مغربی سلسلہ کے مشہور بزرگ حضرت شیخ احمد گنج بخش کھٹو (مغربی)رحمۃ اللہ علیہ سر فہرست ہیں۔
حضرت شیخ احمد گنج بخش کھٹو (مغربی)رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ شہر احمدآبادسے دس کلو میٹر کے فاصلے پر تھی۔ آج بھی وہاں حضرت کے
روضہ اقدس کے علاوہ مشہور بادشاہ محمود بیگڑہ کا مزار اور وسیع و عریض شاہی مسجد اور اس سے ملحقہ ایک تالاب اور باغ ہے۔
آج سے تقریبا ساڑھے چار سو سال قبل جب حضرت شیخ احمد گنج بخش کھٹو (مغربی)رحمۃ اللہ علیہ حیات تھے، بادشاہ احمد شاہ اپنے
محل سے پیدل چل کر ہر جمعرات کو حضرت شیخ احمد گنج بخش کھٹو (مغربی)رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں حاضر ی دیا کرتا تھا۔اورصبح
سےشام تک آپ کے حجرے کے باہر با ادب کھڑا رہتا جب تک خود حضرت شیخ احمد کھٹو رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے طلبی نہ ہوتی
بادشاہ آپ کی خدمت میں حاضر نہ ہوتا۔ یہسلسلہ سالہا سال تک جاری رہا، روایت ہے کہ ایک روز حضرت شیخ احمد گنج بخش کھٹو
(مغربی)رحمۃ اللہ علیہ احمد شاہ بادشاہ کی سالہا سال کی باریابی سے خوش ہو کر فرمایا،’’ احمد شاہ جو کچھ چاہتے ہو طلب کرو۔ بادشاہ
عرض کیا، ’’ حضور دُعا فرمائیے کہ شہر احمدآباد کے باسیوں کو تا قِیامت کڑھی کھچڑی ملتی رہے۔حضرت نے دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھا
دِیے۔ اس بات کی تو تاریخ شاہد ہے کہ آپ مستجاب الدعوات تھے۔ بارگاہِ الہی میں دُعا قبول ہوئی ۔ اور کڑھی کھچڑی احمدآبادیوں
کی مرغوب غذا بن گئی۔ اور ہر خوشی اور غمی کے موقع پر احمدآبادیوں کے یہاں کڑھی کھچڑی لازمی ہوگئی۔ جو احمدآباد کے قدیمی
باشندوںکے گھروں میں بلا تفریق امیر غریب آج بھی روزانہ کڑھی کھچڑی بنتی ہے۔فرق محض اس قدر ہے کہ غریب کی کڑھی
کھچڑی بغیر لوازمات کی ہوتی ہے اور امیر کی کڑھی کھچڑی مع لوازماتِ کثیرہ کے ہوتی ہے۔مثل مشہور ہے:’’روپے کی کھچڑی اور
بارہ روپے کا سنگار‘‘کھچڑی کے لوازمات متعدد ہیں، مثلا: پاپڑ، اچار، مربہ، چٹنی، سلاد، وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کھچڑی مزے کی بھی ہوسکتی ہے؟
 
کھچڑی پر بات چل نکلی ہے، تو ایک اور بات عرض کر دیں۔مدینۃ الاولیاء احمدآباد، (گجرات، انڈیا) تاریخ کے صفحات پر
گرداباد کے نام سے بھی معروف ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ یہاں ہر موسم میں گردوغبار کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ دن
میں دو تین بار غسل کرنے والے بھی غسل کے ایک دو گھنٹے کے بعد اگر اپنے جسم پر زور سے ہاتھ رگڑ دیں تو میل
کی سیاہ سی بتی ہاتھ میں آجاتی ہے۔
تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ اس شہر کے وجود میں آنےسے قبل ہندوستان کے صوبہ گجرات کا دارالخلافہ انہل واڑ
پاٹن تھا، جو تاریخ کی عربی فارسی کتابوں میں نہروالا کے نام سےمشہور ہے۔مشہور محدث،مؤلف مجمع البحار الانوار
محمد بن طاہر پٹنی (فتنی) رحمۃاللہ علیہ بھی اسی شہر کے باشندے تھے۔
بادشاہ احمدشاہ ایک بار شکار کھیلتے ہوئے (موجودہ شہراحمدآباد جہاں واقع ہے)سابرمتی ندی کے کنارے پہنچ گیا،
ایک جگہ اس نے بڑی عجیب و غریب بات کا مشاہدہ کیا،
وہ یہ کہ اس کے ایک شکاری کتے پر ایک خرگوش نے حملہ کر دیا۔ بادشاہ کو نہ صرف یہ کہ بڑی حیرت ہوئی بلکہ اس واقعہ
نے بادشاہ کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ جس سرزمین کی آب وہوا میں یہ تاثیر ہو کہ خرگوش ساایک بزدِل ترین حیوان
بھی کتے پر حملہ کرنے کاحوصلہ رکھتا ہے، اگر یہاں شہر آباد کیا جائے تو یہاں آباد ہونے والی مخلوق کا کیا عالم ہوگا؟بس اس
خیال کے آتے ہی، بادشاہ نے اس دورکےمشہور بزرگانِ دین سے مشورہ کیا اور احمد نامی چار مشہور اولیاء کرام کےدستِ مبارک
سے اس شہر احمدآباد کی بنیاد ڈالی۔اسی لیے گجراتی زبان میں مثل مشہور ہے، جب سسے (سس +سے) پر کتا آیا، احمد شاہ
نے شہر بسایا۔
شہر احمدآبادکے ان چار بانیوں میں مغربی سلسلہ کے مشہور بزرگ حضرت شیخ احمد گنج بخش کھٹو (مغربی)رحمۃ اللہ علیہ سر فہرست ہیں۔
حضرت شیخ احمد گنج بخش کھٹو (مغربی)رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ شہر احمدآبادسے دس کلو میٹر کے فاصلے پر تھی۔(موجود تو آج بھی ہے لیکن اب شہر کی حدود میں ضم ہو چکی ہے۔) آج بھی وہاں حضرت کے
روضہ اقدس کے علاوہ مشہور بادشاہ محمود بیگڑہ کا مزار اور وسیع و عریض شاہی مسجد اور اس سے ملحقہ ایک تالاب اور باغ ہے۔
آج سے تقریبا ساڑھے چار سو سال قبل جب حضرت شیخ احمد گنج بخش کھٹو (مغربی)رحمۃ اللہ علیہ حیات تھے، بادشاہ احمد شاہ اپنے
محل سے پیدل چل کر ہر جمعرات کو حضرت شیخ احمد گنج بخش کھٹو (مغربی)رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں حاضر ی دیا کرتا تھا۔اورصبح
سےشام تک آپ کے حجرے کے باہر با ادب کھڑا رہتا جب تک خود حضرت شیخ احمد کھٹو رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے طلبی نہ ہوتی
بادشاہ آپ کی خدمت میں حاضر نہ ہوتا۔ یہسلسلہ سالہا سال تک جاری رہا، روایت ہے کہ ایک روز حضرت شیخ احمد گنج بخش کھٹو
(مغربی)رحمۃ اللہ علیہ احمد شاہ بادشاہ کی سالہا سال کی باریابی سے خوش ہو کر فرمایا،’’ احمد شاہ جو کچھ چاہتے ہو طلب کرو۔ بادشاہ
عرض کیا، ’’ حضور دُعا فرمائیے کہ شہر احمدآباد کے باسیوں کو تا قِیامت کڑھی کھچڑی ملتی رہے۔حضرت نے دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھا
دِیے۔ اس بات کی تو تاریخ شاہد ہے کہ آپ مستجاب الدعوات تھے۔ بارگاہِ الہی میں دُعا قبول ہوئی ۔ اور کڑھی کھچڑی احمدآبادیوں
کی مرغوب غذا بن گئی۔ اور ہر خوشی اور غمی کے موقع پر احمدآبادیوں کے یہاں کڑھی کھچڑی لازمی ہوگئی۔ جو احمدآباد کے قدیمی
باشندوں کے گھروں میں بلا تفریق امیر غریب آج بھی روزانہ کڑھی کھچڑی بنتی ہے۔فرق محض اس قدر ہے کہ غریب کی کڑھی
کھچڑی بغیر لوازمات کی ہوتی ہے اور امیر کی کڑھی کھچڑی مع لوازماتِ کثیرہ کے ہوتی ہے۔مثل مشہور ہے:’’روپے کی کھچڑی اور
بارہ روپے کا سنگار‘‘کھچڑی کے لوازمات متعدد ہیں، مثلا: پاپڑ، اچار، مربہ، چٹنی، سلاد، وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبردست
اس کھچڑی کی کچھ تصاویر ہو سکتی ہیں ؟
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
کھچڑی مزے کی بھی ہوسکتی ہے؟
کھچڑی اور کڑھی کا جو مزہ (لطف) سر زمین احمد آباد پر ہے وہ دُنیا میں کہیں نہیں۔
اس ناچیز کی سسرال لکھنؤ (اُتر پردیس، انڈیا) میں ہے۔ ایک بار لکھنؤ میں اس ناچیز نے اپنی اہلیہ سے کڑھی کھچڑی کی فرمائش کی۔
اہلیہ جو احمدآباد میں کئی سال رہ کر کڑھی کھچڑی پکانا بخوبی سیکھ چکی تھی، اس نے جب انہیں لوازمات کے ساتھ گجراتی طریقے سے
ہی کڑھی کھچڑی پکائی ہمیں وہ لطف نہیں آیا جو احمدآباد کی کڑھی کھچڑی کا خاصہ ہے۔
کڑھی -کھچڑی کا مزہ لینا ہو تو احمد آباد تشریف لائیے۔
 
آخری تدوین:

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
images
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
پتا نہیں پاکستا ن میں ہوتا ہے یا نہیں۔ ہمارے ہاں انڈیا میں تو کھچڑی کا مذکر کھچڑا بھی بڑا لذیذ ہوتا ہے۔
انڈیا میں با لعموم ماہ محرم میں کھچڑا امام حسین کی نیاز کے طور پرکثرت سے پکایا، کھایا اور کھلایا جاتا ہے۔
چند ماہ قبل اتر پردیس کا سفر کیا تو پتا چلا وہاں پر حلیم (کھچڑا)اور بریانی کثرت سے فروخت ہوتی ہے اور
لوگ باگ دونوں کو ملا کر ذائقہ لے لے کر بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔

ارے پاکستا ن میں ہوتا کیوں نہ ہوگا۔ ممکن ہے اس کا کچھ اور نام ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ لوگ اسے
بجائے کھچڑا کے حلیم کہتے ہوں۔ حالانکہ ایک عالم صاحب نے اس کے اس نام (حلیم) پر بڑا واویلا مچایا
اور یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ یہ دراصل حلیم نہیں دلیم ہے۔ اس لیے اسے دلیم کہنا چاہیے نہ کہ حلیم۔
حلیم تو اللہ رب العزت کا مقدس نام ہے، اسے کسی کھانے کی چیز کا نام کیسے بنایا جا سکتا ہے۔
 
کھچڑی اور کڑھی کا جو مزہ (لطف) سر زمین احمد آباد پر ہے وہ دُنیا میں کہیں نہیں۔
اس ناچیز کی سسرال لکھنؤ (اُتر پردیس، انڈیا) میں ہے۔ ایک بار لکھنؤ میں اس ناچیز نے اپنی اہلیہ سے کڑھی کھچڑی کی فرمائش کی۔
اہلیہ جو احمدآباد میں کئی سال رہ کر کڑھی کھچڑی پکانا بخوبی سیکھ چکی تھی، اس نے جب انہیں لوازمات کے ساتھ گجراتی طریقے سے
ہی کڑھی کھچڑی پکائی ہمیں وہ لطف نہیں آیا جو احمدآباد کی کڑھی کھچڑی کا خاصہ ہے۔
کڑھی -کھچڑی کا مزہ لینا ہو تو احمد آباد تشریف لائیے۔

انشاللہ ضرور اوں گا
میرے رشتہ دار الہ اباد میں رہتے ہیں
یہ وہی احمد اباد ہے جہاں مسلمانوں کو زندہ جلادیا گیا تھا؟
 
پتا نہیں پاکستا ن میں ہوتا ہے یا نہیں۔ ہمارے ہاں انڈیا میں تو کھچڑی کا مذکر کھچڑا بھی بڑا لذیذ ہوتا ہے۔
انڈیا میں با لعموم ماہ محرم میں کھچڑا امام حسین کی نیاز کے طور پرکثرت سے پکایا، کھایا اور کھلایا جاتا ہے۔
چند ماہ قبل اتر پردیس کا سفر کیا تو پتا چلا وہاں پر حلیم (کھچڑا)اور بریانی کثرت سے فروخت ہوتی ہے اور
لوگ باگ دونوں کو ملا کر ذائقہ لے لے کر بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔

ارے پاکستا ن میں ہوتا کیوں نہ ہوگا۔ ممکن ہے اس کا کچھ اور نام ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ لوگ اسے
بجائے کھچڑا کے حلیم کہتے ہوں۔ حالانکہ ایک عالم صاحب نے اس کے اس نام (حلیم) پر بڑا واویلا مچایا
اور یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ یہ دراصل حلیم نہیں دلیم ہے۔ اس لیے اسے دلیم کہنا چاہیے نہ کہ حلیم۔
حلیم تو اللہ رب العزت کا مقدس نام ہے، اسے کسی کھانے کی چیز کا نام کیسے بنایا جا سکتا ہے۔

او ہو اپ حلیم کو کھچڑا کہہ رہے ہیں
خاطر مدارت رکھیے پاکستان سے بہتر حلیم دنیامیں نہیں ملتا
وہ مولوی جاہل تھا جس نے حلیم نے نام پر اعتراض اٹھایا۔ اسے مولوی کو ذرا ذور کی لگا کر دوڑادیا کریں
 
جی نہیں !
ہے تو کھچڑی ہی۔ لیکن چونکہ مہمانوں کے لیے تیار کی گئی ہے لہذا سجاوٹ اور سنگار کے طور پر
اس میں انار اورمٹر کے دانے ڈالے گئے ہیں۔

کیا ؟
کھچڑی مہمانوں کو بھی کھلاتے ہیں؟
ادھر پاکستان میں کسی مہمان کو دال کھلادیں تو وہ سالوں پلٹ کر نہیں اتا
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
او ہو اپ حلیم کو کھچڑا کہہ رہے ہیں
خاطر مدارت رکھیے پاکستان سے بہتر حلیم دنیامیں نہیں ملتا
وہ مولوی جاہل تھا جس نے حلیم نے نام پر اعتراض اٹھایا۔ اسے مولوی کو ذرا ذور کی لگا کر دوڑادیا کریں
وہ مولوی آپ کے پاکستان ہی کا ہے۔ اس کا ویڈیو واٹس اپ پر کسی نے فارورڈ کیا تھا۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
کیا ؟
کھچڑی مہمانوں کو بھی کھلاتے ہیں؟
ادھر پاکستان میں کسی مہمان کو دال کھلادیں تو وہ سالوں پلٹ کر نہیں اتا
ہمارے ہاں احمدآباد میں شادی بیاہ کے موقعہ پر بھی دال -چاول-پلیدہ کھلایا جاتا ہے۔
اور میت کی تدفین کے بعد جب لوگ قبرستان سے لوٹتے ہیں تو میت کے گھر پر
کڑھی کھچڑی ہی کھلائی جاتی ہے اور شادی بیاہ کے موقع پر بھی کڑھی کھچڑی کھلائی جاتی ہے۔
کچھ لوگ شادی بیاہ کے موقعہ پر دا ل پلاؤ کھلاتے ہیں۔
 
پتا نہیں پاکستا ن میں ہوتا ہے یا نہیں۔ ہمارے ہاں انڈیا میں تو کھچڑی کا مذکر کھچڑا بھی بڑا لذیذ ہوتا ہے۔
انڈیا میں با لعموم ماہ محرم میں کھچڑا امام حسین کی نیاز کے طور پرکثرت سے پکایا، کھایا اور کھلایا جاتا ہے۔
چند ماہ قبل اتر پردیس کا سفر کیا تو پتا چلا وہاں پر حلیم (کھچڑا)اور بریانی کثرت سے فروخت ہوتی ہے اور
لوگ باگ دونوں کو ملا کر ذائقہ لے لے کر بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔

ارے پاکستا ن میں ہوتا کیوں نہ ہوگا۔ ممکن ہے اس کا کچھ اور نام ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ لوگ اسے
بجائے کھچڑا کے حلیم کہتے ہوں۔ حالانکہ ایک عالم صاحب نے اس کے اس نام (حلیم) پر بڑا واویلا مچایا
اور یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ یہ دراصل حلیم نہیں دلیم ہے۔ اس لیے اسے دلیم کہنا چاہیے نہ کہ حلیم۔
حلیم تو اللہ رب العزت کا مقدس نام ہے، اسے کسی کھانے کی چیز کا نام کیسے بنایا جا سکتا ہے۔

حلیم اور بریانی کو ملا کر؟

اوہو یہ بریانی جسے اپ کہہ رہے ہیں بریانی رائس ہوتے ہونگے ۔ بریانی حلیم کے ساتھ نہیں۔ کھاتے۔ لگتا ہے ہندوستانیوں کو ہماری بمبئی بریانی کا پتہ نہیں ہے
 
ہمارے ہاں احمدآباد میں شادی بیاہ کے موقعہ پر بھی دال -چاول-پلیدہ کھلایا جاتا ہے۔
اور میت کی تدفین کے بعد جب لوگ قبرستان سے لوٹتے ہیں تو میت کے گھر پر
کڑھی کھچڑی ہی کھلائی جاتی ہے اور شادی بیاہ کے موقع پر بھی کڑھی کھچڑی کھلائی جاتی ہے۔
کچھ لوگ شادی بیاہ کے موقعہ پر دا ل پلاؤ کھلاتے ہیں۔

شادی پر دال چاول
مرنے پر کڑھی کھچڑی۔ شادی پر بھی کھچڑی
ہا ہا ہا
ہمارے یہاں چاہے مرن ہو یا بیاہ۔ مٹن مرغ بریانی کڑاہی سے نیچے بات نہیں ہوتی۔ دال تو یہاں کو دشمن کو بھی نہیں کھلاتا کہ سبکی ہوگی
 
Top