کھلی آنکھ کا ادھورا خواب (ماں جی کے نام)

شزہ مغل

محفلین
کھلی آنکھ کا ادھورا خواب

آج پھر آنکھ بھر آئی
آج پھر دل بے تاب ہوا
آج پھر کوئی یاد آیا
شاید
کوئی اپنا تھا
یا شاید
سب سپنا تھا
وہ اپنا ڈر کے جھوٹ بولنا
وہ ان کا حقیقت بھانپ لینا
کچھ باتیں ٹوٹی پھوٹی سی
کچھ جذبے چھوٹے چھوٹے سے
شاید یہاں
یا شاید وہاں
کوئی تھا
جس کی گود میں سر رکھا تھا
جس نے گلے لگایا تھا
جس نے دل کی گرد دھوئی تھی
جس سے لپٹ کے بہت روئی تھی
جس نے آنسو پونچھے تھے
وہ جذبے کتنے سچے تھے
وہ رشتے کتنے پکے تھے۔۔۔
آج جب وہ پھول سا
چاند سا بچہ
درد میں تڑپا
ماں نے مچلتے دل پے ہاتھ رکھا
جگر گوشے کو اٹھایا
چوم کر سینے سے لگایا
بھول گئی اپنے الم
دیکھا جو بچے کا ذخم۔۔۔
کہتا ہے یہی
بچہ جب بھی روتا ہے
پیار جو چاہو سچا تو
وہ پیار ماں کا ہوتا ہے
سنا ہے بچے من کے سچے ہوتے ہیں
چل "شزہؔ" جہاں سبھی بچے ہوتے ہیں۔۔۔
 

نظام الدین

محفلین
بہت خوبصورت اور جذبات کو چھوتی ہوئی نظم کے لئے ڈھیروں داد و تحسین۔۔۔۔ شیئرنگ کا شکریہ
 

شزہ مغل

محفلین
بہت خوبصورت اور جذبات کو چھوتی ہوئی نظم کے لئے ڈھیروں داد و تحسین۔۔۔۔ شیئرنگ کا شکریہ
بہت بہت شکریہ!
مگر بھیا مجھے اصلاح کی ضرورت ہے۔
دراصل یہ میں نے بہت پہلے لکھی تھی۔ اس وقت سے اب تک اس میں کوئی اصلاح نہیں کر پائی۔ جب بھی اسے پڑھتی ہوں تو جذبات کی ہتھکڑیاں میرے ہاتھ باندھ دیتی ہیں۔
مگر مجھے ایسا لگتا ہے جیسے قارئین کو اس میں بہت سی غلطیاں ملیں گی۔
 
Top