کچھ کاپی‌رائٹ سے متعلق

زیک

مسافر
اب جبکہ اردو کی کتابوں کو آن‌لائن ڈالنے کا کام اچھی رفتار سے ہو رہا ہے میرا خیال ہے کہ ہمیں کاپی‌رائٹ کے بارے میں بھی سوچنا چاہیئے۔ اس لئے میرا مشورہ یہ ہے کہ اردو classics کو پہلے ڈیجٹل کیا جائے۔ نئی کتابوں پر فی‌الحال ہاتھ نہ صاف کیا جائے۔ پرانی کتابوں پر کاپی‌رائٹ کا مسئلہ ہونے کا ڈر بھی کم ہے۔ دوسرے ہم آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ پرانی کتب میں سے کون سی اعلیٰ معیار کی ہیں اور کونسی وقت کے ساتھ اپنی اہمیت کھو بیٹھیں۔

کیا کسی کو معلوم ہے کہ پاکستان اور ہندوستان میں کاپی‌رائٹ کا کیا قانون ہے؟ کتنے عرصے تک کاپی‌رائٹ برقرار رہتا ہے؟
 

آصف

محفلین
اوپر دیے گئے ربط کو پڑھنے پر پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں کاپی رائٹ تقریبا تمام صورتوں میں مصنف کی وفات کے پچاس سال بعد تک محفوظ رہتے ہیں۔
ملاحظہ کیجئے یہ اقتباس:

[align=left:b59923519f]In the case of a literary, dramatic, musical or artistic work (other than a photograph), which is published anonymously or pseudonymously copyright shall subsist until fifty years from the beginning of the calendar year next following the year in which the work is first published.

Provided that where the identity of the author is disclosed before the expiry of the said period, copyright shall subsist until fifty years from the beginning of the calendar year next following the year in which the author dies.
[/align:b59923519f]
اس سے کم ازکم سید احمد کی مطبوعات کے حقوق کا عام ہونا تو پتہ چلتا ہے۔
مزید تفاصیل کیلئے اوپر دیے گئے ربط پر رجوع کریں۔
 

الف عین

لائبریرین
جہاں تک کاپی رائٹ کا مسئلہ ہے، میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ بیشتر اردو ناشر کاپی رائٹ کو سنجیدگی سے لیتے ہی نہیں۔ صرف کچھ مشہور ناشر اس کا خیال رکھتے ہیں اور کتاب پر لکھتے ہیں کہ جملہ حقوق بحقِ ناشر محفوظ۔ میں نے دیوانِ غالب کے چار نسخے جمع کئے۔ سٹار پاکٹ بکس دہلی، نول کشور پریس لکھنؤ، تاج کمپنی لاہور اور ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ۔ اس میں صرف ایجوکیشنل کے نسخے میں کاپی رائٹ درج ہے۔ لیکن وہ میرے خیال میں غالب کے کلام پر نہیں، پروفیسر نور الحسن نقوی (وفات 27 جنوری 2006) کے مقدمے کے باعث ہے اور جس میں بے شمار حواشی دئے گئے ہیں۔ اس لئے محض کلام غالب تو بغیر کاپی رائٹ کا ہے ہی۔ پھر بھی میں غالب اکادمی دیلی سے ربط قائم کرنے کا سوچ رہا ہوں۔
نئی کتابوں میں جن کے مصنفین زندہ سلامت ہیں، ان سے اجازت لی جا سکتی ہے۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ حالی پر کاپی رائٹ کی فکر نہ کریں۔ ہاں بانو قدسیہ سے ’ایک دن‘ کے لئے اجازت طلب کی جانی ضروری ہے۔(یا پھر ان کے ناشر سے اگر کاپی رائٹ ان کا ہے) اقبال کے بارے میں بھی کہیں اقبال اکادمی نے اقبال کے کلام کا کاپی رائٹ نہیں محفوظ کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں اقبال سائبر لائبریری کے حضرات شاید رہنمائی کر سکیں۔ آب گم کے لئے مشتاق یوسفی سے ربط قائم کریں یا اگر جس کتاب سے نقل کی گئی ہے، اس میں ناشر کا کاپی رائٹ ہے تو ان سے۔
 

رضوان

محفلین
آب گم اور دانیال کی چھپی ہوئی جتنی کتابیں ہیں اس کےلیے میں پتہ کرتا ہوں دانیال والوں سے جمعرات کو مجھے جانا ہی ہے۔ اگر حوری مل گئیں تو بہتر ورنہ کسی اور ساتھی سے کہلوائیں گے۔ اسطرح سبط حسن کی بہت سی کتابیں ہم آگے بڑھا پائیں گے۔ یا کم از کم اقتباسات کی حد تک تو آذادی مل جائیگی۔ کچھ ایسی کتابیں ہیں جو کئی ناشرین نے چھاپی ہیں اور ان کے مصنف اس دنیا میں نہیں رہے انکے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
 

الف عین

لائبریرین
جیسا کہ میں نے لکھا تھا غالب کے سلسلے میں کہ اگر ہم کسی ناشر کی کتاب من و عن معہ جدید مقدمے یا دیباچے کے شائع کریں تو کاپی رائٹ کے تحت آ سکتی ہے وہ کتاب۔ محض تخلیق اگر مصنف حیات ہو یا مرحوم، اگر پہلی اشاعت کو جس میں کااپی رائٹ تھا، کو 60 سال ہو چکے ہیں (؎ہندوستانی قانون کے مطابق) تو کاپی رائٹ ختم ہو چکا ہے اور بلا جھجھک ایسی کتاب شائع کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ ہمارے قانون داں شعیب صفدر کیوں خاموش ہیں؟؟؟؟
 

الف عین

لائبریرین
میں نے ڈیجیٹل لائبریری پروجیکٹ کے بارے میں بطور خاص غالب اور اقبال پر کاپی رائٹ کے سلسلے میں مختلف یاہو گروپس میں پیغام دئے تھے، اقبال لائبریری کی طرف سے یہ جواب آیا ہے: .
Iqbal work is not copyrighted now. Copyright expired in 1988(50 years after death). But a huge work is already being done in Iqbal Academy Pakistan on different aspects of Iqbal. Iqbal Cyber Library is just one of these projects. So if someone contacts first with Iqbal Academy with project details not only we would save our resources from any possible duplication but can also identify areas that need more attention. Best Regards, Qasim Shahzad
امید ہے کہ کچھ شعراء اور ادباء اپنی کتابیں خود ہی آفر کریں۔ میرے پیغامات اور ان کے جوابات ان یاہو گروپس میں دیکھے جا سکتے ہیں:
http://groups.yahoo.com/group/majlis-e-adab/
http://groups.yahoo.com/group/shabkhoon/
http://groups.yahoo.com/group/urdu_poets_group/
http://groups.yahoo.com/group/urdu_writers/
http://groups.yahoo.com/group/Writers_Forum/
-------------------------
 

نبیل

تکنیکی معاون
اعجاز اختر صاحب، میں ابھی ان گروپس پر آپ کے پیغامات پڑھے ہیں۔ آپ کی کاوشوں کا بے حد شکریہ۔ آپ نے اردو لائبریری پراجیکٹ کو بہت موثر انداز میں متعارف کرایا ہے۔ انشاءاللہ اس سے اس پراجیکٹ کے لیے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
کاپی رائیٹ کا مسئلہ ہمیشہ قائم و دائم رہے گا۔

بہرحال، اس سلسلے میں میرے چند سوالات ہیں:

1۔ نفیس اکیڈمی پاکستان وہ ادارہ ہے جس نے تمام اہم اسلام کتب کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ مثلا

۔ تفسیر ابن کثیر
۔ تاریخ طبری
۔ احیاء العلوم
۔ صحاح ستہ
۔ طبقات ابن سعد
۔ سیرتِ حلبیہ
۔ تاریخ مسعودی
۔ مشکوۃ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ

اب چند سالوں سے یہ ادارہ بند ہو گیا ہے۔ میرے خیال میں کاپی رائیٹ اسی ادارے کے نام پر تھے۔

میرا سوال یہ ہے کہ کیا اب ممکن ہے کہ اس ادارے کے ان تراجم کو کاپی رائیٹ کے مخمصے میں پڑے بغیر انٹرنیٹ پر فراہم کیا جائے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلا سوال ہے ابن صفی کی عمران سیریز کا (بچوں کے لیے)۔

ابن صفی کو مرے ہوئے کتنے سال ہو گئے ہیں؟

وہ کون سی کہانیوں کی کتابیں ہیں جو کہ آج سے پچاس سال پہلے لکھی گئیں۔

اسی طرح ہمیں خواتین کے وہ ڈائجسٹ چاہیے ہیں جو کہ آج سے 50 سال پہلے لکھے گئے۔

کیا کسی کا ایسی لائیبریری میں آنا جانا ہے جہاں ہمیں آج سے 50 سال پہلی کی کتابوں کی لسٹ مل سکے؟
 

مہوش علی

لائبریرین
اسلامی کتب کے حوالے سے میرے سامنے ایک اور نام ہے۔ اور وہ ہے مولانا وحید الزمان خان صاحب کا۔ انہوں نے صحاح ستہ کا مکمل اردو ترجمہ کیا ہے بمعہ شرح کے۔

مولانا وحید الزمان خان صاحب کا یہ ترجمہ اور شرح اردو زبان کے لیے ایک سٹینڈرڈ ہے۔ اور خود مولانا صاحب کی شخصیت کو برصغیر کے تمام تر فرقے مانتے ہیں۔

اگرچہ کہ صحیح بخاری اور دیگر کتب کے کچھ نئے ترجمے بھی مارکیٹ میں آئے ہیں، مگر وہ کبھی بھی سٹینڈرڈ نہیں بن سکیں گے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں، مگر سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ترجمہ اتنا نیوٹرل نہیں ہو سکتا جتنا کہ وحید الزمان خان صاحب نے کیا ہے۔

اور مولانا صاحب کی وفات کو بھی 50 سال سے زائد عرصہ گذر چکا ہے۔ چنانچہ ہمیں کاپی رائیٹ کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہو سکتا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
کاپی رائیٹ کے معاملے میں صرف ویب سائیٹ پر پڑھ لینا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ ہمیں کسی قابل وکیل سے اس معاملے میں ضرور سے رابطہ کرنا چاہیے۔

اگر وکیل قابل ہو گا تو ہمیں بہت سے ایسے راستے دکھا سکے گا جس سے ہم قانونی طور پر بہت سی کتب برقیا سکیں گے۔

کیا کسی کی نظر میں اس سلسلے میں کوئی وکیل ہے؟ پلیز اس چیز پر بھرپور توجہ دیں کیونکہ یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔


توجہ


ہمارے پاس اب 3 تا 4 کتابیں برقی صورت میں جمع ہو چکی ہیں اور مستقبل میں اور بہت سی کتابیں منظرِ عام پر آئیں گی۔

مجھے علم نہیں کہ نبیل بھائی انہیں کس طرح نیٹ پر پیش کریں گے۔ مثال کے طور پر:

۔ کیا ان کتب کے لیے علیحدہ سے اردو ویب کا سکیشن کھولا جائے گا؟

۔ یا پھر انہیں محفل سے ملحقہ وکی پر شائع کیا جائے گا؟


وکیل سے مشورہ کرنے کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ وہ ہمیں اس قسم کے مشورے دے سکتا ہے کہ ایسی تمام کتب جن کے متعلق 100 فیصد یقین ہو کہ ان کا کوئی کاپی رائیٹ نہیں ہے، انہیں اردو ویب کے خاص سیکشن میں پوسٹ کر دیا جائے۔

مگر ایسی تمام کتب، جن کے کاپی رائیٹ کےمتعلق شک و شبہ ہو، انہیں محفل سے ملحقہ وکی میں شائع کیا جائے (اور یہ اشاعت کسی ممبر کے طرف سےہو، اردو ویب کی انتظامیہ کی طرف سے نہیں۔ )

وکی میں شائع کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ چونکہ تمام تر اراکین کے لیے یہ اوپن ہوتی ہے، اس لیے کسی ایک ممبر کی طرف سے ناجائز کام کرنےکی وجہ سے محفل انتظامیہ پر کوئی آنچ نہیں آنے پائی گی۔
 

الف عین

لائبریرین
مہوش میں آپ سے متفق ہوں۔ بغیر کاپی رائٹ کی کتب اردو ویب پر ہی فراہم کی جائیں۔ لیکن دوسری کتب ارکان اپنے طور پر بھی پوسٹ کر سکتے ہیں، محض یہ اطلاع کافی ہے کہ اس سلسلے میں کیا پیش رفت ہوئی ہے۔ ضروری نہیں کہ ان کی ای بک ایک جگہ ڈاؤن لوڈ کے لئے رکھی ہی جائے۔ جب کاپی رائٹ کا مسئلہ حل ہو جائے تب انھیں یہاں لے آئیں۔ شعیب صفدر کیوں خاموش ہیں اس سلسلے میں؟
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

چند کتب کے بارے میں مجھے گمان (خوش فہمی) ہے کہ متعلقہ افراد سے اجازت لے کر مکمل کتاب یہاں پیش کی جاسکتی ہے ، اس حوالے سے کوئی قدم اُٹھانے یا متعلقہ افراد سے بات کرنے سے پہلے میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ یہ اجازت کس صورت میں حاصل کی جائے ؟

1۔ کیا فقط لفظی اجازت ہی کافی ہوسکتی ہے ؟ یا
2۔ تحریری اجازت لی جائے ؟
3۔ یا کیا کیا جائے ؟

کوئی صاحب یا صاحبہ اگر روشنی ڈال سکیں ۔

شکریہ
 

زیک

مسافر
شگفتہ: تحریری اجازت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ان کی اجازت میں یہ ذکر ہونا چاہیئے کہ اردوویب ان کی کتاب کے ساتھ کیا کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں؟
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
زکریا نے کہا:
شگفتہ: تحریری اجازت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ان کی اجازت میں یہ ذکر ہونا چاہیئے کہ اردوویب ان کی کتاب کے ساتھ کیا کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں؟

اس تحریری اجازت نامے کا فارمیٹ کیا ہمیں خود بنا کر دینا چاہیے یا صرف درخواست کی جائے ؟

ایک اور بات یہ کہ اگر مصنفِ کتا ب اجازت دے دے تو کیا ناشر کی اجازت الگ سے درکار ہوگی یا نہیں ؟
 

زیک

مسافر
شگفتہ: میرے خیال سے فارمیٹ خود بنا کر دینا بہتر رہے گا۔ اس سلسلے میں ہم پراجیکٹ گٹنبرگ کو دیکھ لیتے ہیں کہ وہ کاپی‌رائٹ والے کام کے لئے کیا حقوق حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ چونکہ یہ قانونی معاملہ ہے اس لئے ایک وکیل کی ضرورت ہو گی جو ہمیں یہ اجازت‌نامہ لکھ دے۔ جب مصنف یا ناشر کو یہ پیش کیا جائے تو ظاہر ہے وہ چائیں تو کچھ رد و بدل کر دیں اگر وہ ہمیں زیادہ یا کم حقوق دینا چاہیں۔

رہا یہ سوال کہ ناشر یا مصنف یا دونوں سے بات کرنی ہو گی تو یہ اس پر منحصر ہے کہ کتاب کے کاپی‌رائٹ کے حقوق کس کے پاس ہیں۔

نوٹ: پہلے پیرے میں میں آپ کو ڈرانے کی کوشش نہیں کر رہا۔ میری نظر میں اس کی ضرورت ہو گی۔ مگر اگر مصنف informally (مگر تحریری) اجازت دے دے تو کتاب پر کام شروع ہو سکتا ہے۔ اسے اردو‌ویب پر قارئین کے سامنے رکھنے سے پہلے البتہ ہمیں قانونی طور پر اجازت لینا ہو گی تاکہ ہم بعد میں کسی مسئلے کا شکار نہ ہوں۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اب وکیل کی خدمات کہا‌ں سے حاصل کی جائیں ، کیا کوئی صاحب یا صاحبہ اس بارے میں کوئی کوشش کر سکتے / سکتی ہیں ؟ میں بھی اپنی سی کوشش کرتی ہوں ۔

اس دوران فارمیٹ میں شامل کچھ نکات ہمیں سوچ اور دیکھ لینے چاہیئں ۔

پراجیکٹ گٹنبرگ کا ابھی تک میں صرف نام ہی سنتی آئی ہوں اس کا لنک اگر میری سُستی کے پیشِ نظر یہاں دے دیں تو خیلی مشکور خواہم شُد :)
 
Top