کچھ نہیں کے دو پہلو۔۔۔۔علی منظور حیدر آبادی

سیما علی

لائبریرین
کچھ نہیں کے دو پہلو

جنہیں عشق سے واسطہ کچھ نہیں
انہیں حسن سے کیا ملا کچھ نہیں
جہاں زہد خشک آ گیا اس جگہ
محبت مروت وفا کچھ نہیں
خدا جانے کس دل سے کہتے ہیں لوگ
حسیں اور ان کی ادا کچھ نہیں
نہیں ہیں جو تنویر دل ماہ وش
شب ماہ میں بھی مزہ کچھ نہیں
شرر ہیں یہ ہنس مکھ ستارے اگر
تو ہر خندۂ خوش نما کچھ نہیں
نظر کے ہیں دھوکے مناظر اگر
تو پھر یہ چمن یہ فضا کچھ نہیں
حکیموں پہ حیرت نہ ہو کیوں مجھے
بڑھا علم تو کہہ دیا کچھ نہیں
نہ ساقی نہ ساغر نہ شاہد نہ باغ
مآل ان کی تحقیق کا کچھ نہیں
وجود ان کا میری نظر میں بھی کیا
عدم ہے عدم کے سوا کچھ نہیں
کہوں کیسے ہستی کے گلزار میں
فنا ہی فنا ہے بقا کچھ نہیں
میں خوش حسن سے ہوں سوا حسن کے
مری زیست کا مدعا کچھ نہیں
اگر میری نظروں سے دیکھے کوئی
بقا ہی بقا ہے فنا کچھ نہیں
یہ معمورۂ حسن ہے تو یہاں
خوشی ہے خوشی کے سوا کچھ نہیں
نگاہ حقیقت رس حسن سے
تعلق غم و رنج کا کچھ نہیں
مزے اہل دل کے لیے ہیں بہت
کہا میں نے کب یاں مزہ کچھ نہیں
یہ ساقی یہ ساغر یہ شاہد یہ باغ
حلاوت ہے دل میں تو کیا کچھ نہیں
 
Top