آپ کی یہ بات عذر لنگ کی سی محسوس ہوتی ہے۔تسلیم کہ آپ کے یہاں آورد کی بہ نسبت آمد زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن صاحب آمد کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد جو شعری تخلیق وجود میں آتی ہے وہ نقد و ادب کے اصولوں کے تحت اصناف سخن کے کس خانہ میں رکھی جائے گی اس کا شعور تو آپ کو یقینا ہوتا ہی ہوگا۔جب غزل کی آمد ہو اور آپ جبرا اسے نظم کی شکل دینے کی کوشش کریں گے تو آپ بہت بڑا ظلم کریں گے۔ جس طرح کے اشعار تخلیق پائیں انہیں اسی طرح رہنے دیجیے گا۔ بڑا کرم ہوگا۔
آپ درست فرماتے جی، میں لکھنے نہیں بیٹھتا کبھی بھی، کچھ آ جائے تو لکھ لیتا ہوں ، خیالات کا تسلسل بگڑ جائے تو رہ جاتا ہے۔ اس بار بھی کچھ ایسا ہوا ، اسی لیے عنوان میں پوری سچائی سے لکھ دیا کہ کچھ عجیب لکھ بیٹھا ہوں۔ اب اسے پھر سے سوچتے کچھ یوں صورتحال بنی ہے، امید ہے کہ آپ کی صائب رائے کا حقدار قرار پاوں گا
وہ کٹورا سی مد بھری آنکھیں
کھوٹ سے دور ہوں، کھری آنکھیں
کیا نہیں تھا بھلا اُن آنکھوں میں
چاند چہرے پہ بولتی آنکھیں
چونک جاتی ذرا سی آہٹ پر
وحش ہرنی سی ڈولتی آنکھیں
نیلگوں بحر جن میں دکھتا ہو
ڈوب جاو، پکارتی آنکھیں
چھیڑ دیں گی تُمہیں وہ اٹھلا کر
شوخ چنچل، شرارتی آنکھیں
اُن سے بڑھ کر بھی کوئی چاہے گا
جام الفت بھرے مدھر پیالے
کوئی جتنا پیے، رہے پیاسا
جام خالی نہ ہوں، وہ پُر پیالے
ڈوب کر پیار میں ترے اظہر
تُجھ کو پل پل پکارتی آنکھیں
اور بھٹکتی تری نگاہوں کو
آنکھوں آنکھوں سنوارتی آنکھیں