کچھ طرحی اشعار بغرضِ اصلاح

احسن مرزا

محفلین
کہتی ہے کچھ تو اُس کی حیا غور سے سنو
'طوفاں کی آرہی ہے صدا غور سے سنو'
آنکھوں سے، ابروئوں سے، تبسم سے، زلف سے
ہوگا بیاں نئے سے نیا غور سے سنو
لازم ہیں کچھ تو ایسی محبت میں زخم بھی
ڈھارس بندھا رہی ہے وفا غور سے سنو
آہٹ بتا رہی ہے کہیں وہ قریب ہیں
ممکن ہے دل تو رُک کے ذرا غور سے سنو
صحرا کے طول و عرض پہ پھیلا ہے اب جنوں
تم نے عبث ہے مجھ سے کہا غور سے سنو
اچھا نہیں ہے ذکرِ محبت اِدھر اُدھر
دل میں رکھو یہ راز ذرا غور سے سنو
ممکن ہے آرزو نہ رہے گی مگر صنم
کیا کیا نہ ہوگا حشر بپا غور سے سنو
(آتش جلا رہی ہے مجھے عشق کی بہت)
کندن بنا رہی ہے وفا غور سے سنو
فرقت میں اک دعائے تجلی جو مانگ لی
کیا کیا نہ طورِ دل پہ ہوا غور سے سنو
پردے پڑے ہیں عقل پہ احسن کرو بھی ختم
ایسے کبھی سخن بھی ہوا غور سے سنو
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل کہی ہے لیکن کئی جگہ ’غور سے سنو‘ ردیف درست نباہی نہیں گئی ہے، بہر حال کاپی کر رہا ہوں
 

احسن مرزا

محفلین
اچھی غزل کہی ہے لیکن کئی جگہ ’غور سے سنو‘ ردیف درست نباہی نہیں گئی ہے، بہر حال کاپی کر رہا ہوں

دراصل فل البدیہہ اشعار ہیں۔ میں نے بھی کوئی خاص رد و بدل نہیں کری ہے ان اشعار کو کہنے کے بعد۔ مجھے انتظار رہے گا اصلاح کا۔
 

الف عین

لائبریرین
کہتی ہے کچھ تو اُس کی حیا غور سے سنو
'طوفاں کی آرہی ہے صدا غور سے سنو'
//شعر دو لخت ہے۔ مفہوم میرے سر کے اوپر سے نکل گیا۔

آنکھوں سے، ابروئوں سے، تبسم سے، زلف سے
ہوگا بیاں نئے سے نیا غور سے سنو
//درست

لازم ہیں کچھ تو ایسی محبت میں زخم بھی
ڈھارس بندھا رہی ہے وفا غور سے سنو
//درست

آہٹ بتا رہی ہے کہیں وہ قریب ہیں
ممکن ہے دل تو رُک کے ذرا غور سے سنو
//کلام ’تم‘ سے ہے، تو ’تُو‘ کیوں آیا؟ آہٹ کے علاوہ اور غور سے کیا سنا جا سکتا ہے؟

صحرا کے طول و عرض پہ پھیلا ہے اب جنوں
تم نے عبث ہے مجھ سے کہا غور سے سنو
//‘میں پھیلا‘ زیادہ صحیح ہے۔ دوسرا مصرع
تم نے عبث ’یہ‘ مجھ سے کہا۔۔۔۔۔۔
کر دو۔

اچھا نہیں ہے ذکرِ محبت اِدھر اُدھر
دل میں رکھو یہ راز ذرا غور سے سنو
//درست

ممکن ہے آرزو نہ رہے گی مگر صنم
کیا کیا نہ ہوگا حشر بپا غور سے سنو
//کس کی آرزو؟ دونوں مصرعوں میں تعلق؟ اگرچہ ردیف کا استعمال درست ہے۔

(آتش جلا رہی ہے مجھے عشق کی بہت)
کندن بنا رہی ہے وفا غور سے سنو
//’آتش‘ کی بجائے ’شعلے‘ بہتر ہوگا۔
شعلوں میں جل رہا ہوں میں مدت سے عشق کے
یا اسی قسم کا کچھ مصرع۔ لیکن ردیف یہاں بھی درست نہیں نبھائی گئی ہے۔

فرقت میں اک دعائے تجلی جو مانگ لی
کیا کیا نہ طورِ دل پہ ہوا غور سے سنو
//درست

پردے پڑے ہیں عقل پہ احسن کرو بھی ختم
ایسے کبھی سخن بھی ہوا غور سے سنو
//یہاں بھی یہ واضح نہیں کہ کیا غور سے سننے کو کہا جا رہا ہے!!

مجموعی طور پر یہاں ردیف کا استعمال اکثر سوچ سمجھ کر نہیں کیا گیا۔ اطہر نفیس کی مشہور غزل ہی ایک بار پھر پڑھ لو۔
دم بدم بڑھ رہی ہے یہ کیسی صدا، شہر والو سنو
 

احسن مرزا

محفلین
پہلے تو اس کوشش کو وقت دینے پر تہہِ دل سے مشکور ہوں استادِ محترم۔

کہتی ہے کچھ تو اُس کی حیا غور سے سنو
'طوفاں کی آرہی ہے صدا غور سے سنو'
//شعر دو لخت ہے۔ مفہوم میرے سر کے اوپر سے نکل گیا۔

اگر بالا مصرع میں حیا کے بجائے اَدا کردیا جائے؟

آہٹ بتا رہی ہے کہیں وہ قریب ہیں
ممکن ہے دل تو رُک کے ذرا غور سے سنو
//کلام ’تم‘ سے ہے، تو ’تُو‘ کیوں آیا؟ آہٹ کے علاوہ اور غور سے کیا سنا جا سکتا ہے؟

محترم یہاں لفظ تُو نہیں، تو ہے۔ اور شعر کے مفہوم کے حوالے سے: آہٹ اور وہ بھی اُس سے منسوب آہٹ جو اس کی قربت کا احساس دلا رہی ہے، کو اتنی غور سے سننا مقصود ہے کہ دل کی دھڑکن سے پیدا ہونے والی آواز بھی رک جائے۔

صحرا کے طول و عرض پہ پھیلا ہے اب جنوں
تم نے عبث ہے مجھ سے کہا غور سے سنو
//‘میں پھیلا‘ زیادہ صحیح ہے۔ دوسرا مصرع
تم نے عبث ’یہ‘ مجھ سے کہا۔۔۔ ۔۔۔
کر دو۔

بلکل ہے کے بجائے یہ کردیا۔ اور استادِ محترم اگر مصرع اولی یہ کردیا جائے تو

۔صحرا کے طول و عرض پہ پھیلی ہے خامشی۔

ممکن ہے آرزو نہ رہے گی مگر صنم
کیا کیا نہ ہوگا حشر بپا غور سے سنو
//کس کی آرزو؟ دونوں مصرعوں میں تعلق؟ اگرچہ ردیف کا استعمال درست ہے۔

کس کی آزرو؟ یہ سوال صرف شعر قلم زد ہی کروا سکتا ہے۔ :)

(آتش جلا رہی ہے مجھے عشق کی بہت)
کندن بنا رہی ہے وفا غور سے سنو
//’آتش‘ کی بجائے ’شعلے‘ بہتر ہوگا۔
شعلوں میں جل رہا ہوں میں مدت سے عشق کے
یا اسی قسم کا کچھ مصرع۔ لیکن ردیف یہاں بھی درست نہیں نبھائی گئی ہے۔

میرا خیال ہے۔ اس شعر کو قلم زد کردینا ہی بہتر ہے

پردے پڑے ہیں عقل پہ احسن کرو بھی ختم
ایسے کبھی سخن بھی ہوا غور سے سنو
//یہاں بھی یہ واضح نہیں کہ کیا غور سے سننے کو کہا جا رہا ہے!!

تصیحتا شعر باندھا تھا۔ اپنے لئے۔ اب اس کی بہتری کا سامان آپ کے ہاتھوں ہے نہیں تو یہ بھی قلم زد۔

مجموعی طور پر یہاں ردیف کا استعمال اکثر سوچ سمجھ کر نہیں کیا گیا۔ اطہر نفیس کی مشہور غزل ہی ایک بار پھر پڑھ لو۔
دم بدم بڑھ رہی ہے یہ کیسی صدا، شہر والو سنو

بلکل میں یہ غزل پڑھتا ہوں!
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں ادا قافیہ نہیں چلے گا، یا پھر دوسرا قافیہ صدا کو بدلنا ہو گا۔ اس طرح جو سقم پیدا ہو جاتا ہے، اسے ایطا کہتے ہیں۔ صدا اور ادا میں ‘دا‘ مشترک ہے، تو اگر قوافی گدا، صدا، وغیرہ ہوں تو درست ہو گا، لیکن یہاں قوافی کہا اور وفا وغیرہ ہیں، یعنی صرف آخر میں الف مشترک!!
دوسرے شعر میں تُو کی جگہ اگر تو ہو تب بھی ابلاغ درست نہیں ہوتا۔ تم جو وضاحت کر رہے ہو، وہ مفہوم ظاہر نہیں ہوتے۔
طور و عرض والے مصرع کو اب جو خاموش کر دیا ہے، تو یہ بھی درست ہے۔
قلمزد اشعار کے بارے میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ مزید کوشش کرو۔ انشاء اللہ بہتری آئے گی۔ امکانات تو ہیں ہی تم میں!!
 
Top