جوش کچھ ادھر کا حال بھی سن لیجئے۔۔۔ (خدا خیر کرے)

کچھ ادھر کا حال بھی سن لیجئے

حسن افسردہ پریشاں ہے خدا خیر کرے
نوک مژگاں پہ چراغاں ہے خدا خیر کرے
سطح عارض کی دھڑکتی ہوئی رنگینی سے
دل کی ہر ضرب نمایاں ہے خدا خیر کرے
خیمہ زمزمۂ و حجلہ، عود و نے میں
ریۂ گوشہ نشیناں ہے خدا خیر کرے
بے نیازی سے مری ناز شباب نو خیز
بیعت عشوہ کا ساماں ہے خدا خیر کرے
ایک گل طبع و گہر طینت و شبنم اندام
سرخ شعلوں پہ خراماں ہے خدا خیر کرے
کل فقط دامن بلبل تھا ہوا پر غلطاں
آج گل چاک گریباں ہے خدا خیر کرے۔

حضرت جوشؔ ملیح آبادی
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہہہہہ
خدا خیر کرے
جانے حضرت جوش نے یہ غزل گھڑی تھی کہ کہی تھی ؟
مگر مجسم کر دکھایا سراپا شباب نوخیز کا
سطح عارض کی دھڑکتی ہوئی رنگینی سے
دل کی ہر ضرب نمایاں ہے خدا خیر کرے
 
واہہہہہہہہہہہہہہہہہ
خدا خیر کرے
جانے حضرت جوش نے یہ غزل گھڑی تھی کہ کہی تھی ؟
مگر مجسم کر دکھایا سراپا شباب نوخیز کا
سطح عارض کی دھڑکتی ہوئی رنگینی سے
دل کی ہر ضرب نمایاں ہے خدا خیر کرے
پسندیدگی کا بہت شکریہ پر یہ حضرت جوش ملیح آبادی کی ایک طویل نظم سے اقتباس ہے۔۔
 
بہت عمدہ غزل شیئر کی آپ نے خدا خیر کرے۔۔۔ :)
ایک شعر ہے
بنتِ حوا نے کھول رکھے ہیں بازارِ گناہ
ابنِ آدم ہے خریدار خدا خیر کرے
کیا اسی غزل کا ہے؟؟؟
نایاب بھائی اور مہدی نقوی حجاز متوجہ ہوں۔
نہیں ، اول تو یہ کہ یہ غزل نہیں۔۔۔ دوم یہ کہ یہ شعر اس نظم کا نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس کا قافیہ "اں" ہے "ار" نہیں۔۔
 
یہ غزل کیوں نہیں ہے؟
جوش کی نظموں میں بھی غزل کے رنگ موجود ہیں لیکن یہ ایک طویل نظم سے کچھ اقتباس ہے۔ اب وہ تو حضرت جوش جانیں کہ یہ ٍغزل کیوں نہیں اور نظم کیوں ہے،،۔ ویسے جناب جوش غزل کے منکر تھے،
 
Top